نئی سیاسی پچ ۔۔۔۔

وادی کشمیرمیں موسم ِ بہار نے دستک دی ہے ۔۔۔گلشن گلشن شگوفے پھوٹ پڑے ہیں۔۔۔ عالمگیر وبا کووڈ۔19کی دوسری خطرناک لہر کے بیچ تاریخی ’بادام واری‘ کو عام سیلانیوں اور سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ہے جبکہ رواں ماہ کی آخری تاریخ کو غالباً ایشیاءکے سب سے بڑے باغِ گلہ لالہ (ٹولپ گارڈن ) کو بھی سیاحوں کے لئے کھول دیا جائیگا۔وادی کشمیر میںموسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی ماحول بھی کچھ اس قدر گرم ہوچکا ہے کہ بات استعفوں کی نئی لہر تک جا پہنچی ہے ۔گوکہ استعفوں کے بیانیہ کے بارے میں ہر سیاستدان کا اپنا قبلہ ہے۔کسی سیاستدان کے سیاسی قبلہ کا رخ مشرق کی طرف ہے اور کسی کا مغرب کی جانب ہے ۔کوئی پرانی سیاسی پارٹی کے سیاسی نظریہ سے اختلاف کرنے لگا ہے ،توکوئی نئی صبح طلوع ہونے کا دعویٰ کررہا ہے ۔یہ تو سیاستدان ہیں اور سیاست کے ہر داﺅ وپیچ سے بخوبی واقف ہیں ۔انہیں

عوام کی کم ا پنے نفع ونقصان کی فکر زیادہ ہوتی ہے ۔در اصل استعفوں کی یہ بہار جموں وکشمیر میں نئی سیاسی اچھل کود کی نویدبھی سنارہی ہے ۔اس حقیقت سے قطعی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ’اسمبلی انتخابات ‘سے قبل یہاں نئی سیاسی بساط بچھ جائیگی ۔نئی حد بندی (حلقہ بندی) ہوجائیگی اور ممکن ہے کہ جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بھی بحال ہو ،جس کا وعدہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں جموں وکشمیر کی تنظیم نو وتقسیم کے اعلان کے موقع پر کیا تھا ۔جموں وکشمیر کی دو بڑی علاقائی اور دیگر چند ایک سیاسی پارٹیوں کو خیر باد کہہ چکے ہیں ،سیاستدان اس کا زور دار مطالبہ کررہے ہیں ،جن میں کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد بھی شامل ہیں۔

ان کا یہ دعویٰ ہے کہ جموں وکشمیر کی نیم خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد اگر کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے ،وہ ہے ریاستی درجہ ۔وزیر اعظم ہند اور وزیر داخلہ پہلے ہی اعلان اور وعدہ کرچکے ہیں کہ جموں وکشمیر کاریاستی درجہ مناسب وقت پر بحال ہوگا ،ایسے میں ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ کرنا،کوئی معنیٰ رکھتا ہے یا نہیں ،یہ تو سیاستدان ہی جا نتے ہیں ۔جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال ہونے سے کیا ہوسکتا ہے؟ ۔۔۔سیاست دانوں کو اپنی تیار کردہ ’سیاسی پچ ‘ پرکھیلنے میں آسانی ہوگی ۔سال2022میں اسمبلی انتخابات متوقع ہیں ۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ 14ویںصدر ِ ہند رام ناتھ کوند کی مدت ِ کار2022میں ہی ختم ہوگی اور اِسی برس نئے صدر کا انتخاب ہو نا ہے ۔صدرِہند کے انتخاب کے انعقاد سے متعلق تمام تر عمل کی نگرانی ، ہدایت اور کنٹرول ، بھارت کے انتخابی کمیشن کے زیر اختیار ہوتاہے۔انتخابی کمیشن کیلئے لازم ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ صدر ِہند کے عہدے کیلئے ، جو ملک کا اعلیٰ ترین انتخابی عمل سے پ ±ر کیا جانے والا عہدہ ہوتا ہے ۔صدرِہند کا انتخاب الیکٹورل کالج کے اراکین کے ذریعے عمل میں آتا ہے ، جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین اور قومی خطہ راجدھانی دہلی اور مرکز کے زیر اختیار علاقوںسمیت تمام ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں کے منتخب اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانا ضروری ہے ،تاکہ دفعہ370کی تنسیخ کے بعد جموں وکشمیر بھی صدر ِ ہند کے انتخاب میں اپنی نمائندگی کرسکے ۔اسمبلی انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتاپارٹی ( بی جے پی ) جو اس وقت مرکز میں اکثریت کیساتھ اقتدار میں ہے اور اُس کے پاس طاقت بھی ہے۔اس لئے جموں وکشمیر میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل بھاجپا’اپنی انتخابی پچ ‘ تیار و ہموار کر ے گی ،جس پر وہ اور اُسکی ہم خیال پارٹیاں آسانی سے کھیلے بھی اور جیتے بھی۔۔۔

یہی وجہ سے کہ اس وقت وادی کشمیر میں آمد بہا ر کیساتھ ساتھ بارشوں کے موسم میں استعفوں کی ہوا بھی چلی ہے اور سیاستدان اُسی طرح اپنی کشتیوں کو موڑ رہے ہیں ،جہاں ہواﺅں کا رخ ہے ۔ویسے بھی سیاست میں کچھ بھی حرف ِ آخر نہیں ہوتا ہے ،بدلتے موسم میں سیاست اور سیاستدانوں کا مزاج بھی بدلتا رہتا ہے ۔تاہم بدلتی دنیا میں یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہو گا کہ اس نئی سیاسی بساط وپچ پر علاقائی سیاسی پارٹیاں ،کہاں کھڑی ہوتی ہیں ،جن میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں نیشنل کانفرنس (این سی ) اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی ) بھی شامل ہےں۔دفعہ370اور 35(اے) کی تنسیخ کے بعد جموں وکشمیر میں بہت کچھ بدلا ہے ۔گورنر کی جگہ لیفٹیننٹ گور نر نے لی ،اسٹیٹ سبجیکٹ کی جگہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ نے لی،انتظامی افسران کی تعیناتی کا حد ِاختیار بیرون ریاستوں میں تعینات بیورو کریٹوں تک جا پہنچا ہے ۔اس ماحول میں سیاستدانو ں کابدلناکوئی عجوبہ نہیں ۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.