قبرستان کی آواز

وہ جنازہ جس کے ساتھ میں قبر ستان تک گیا اور دیکھا کہ ملہ کھاہ کا یہ قبرستان جہاں نہ جانے کتنی صدیوں سے مختلف خاندانوں قبیلوں اور علاقوں کے لوگ اس میں محو آرام ہیں ۔ایک ایسی بستی ہے جہاں دور دور تک نظر پڑتی ہے تو سنگ مرمر کی تختیوں اور پتھروں جنہیں لوگ (پیور) کہتے ہیں ۔ان قبروں میں محو آرام لوگوں کے یوم وصال کا پتہ دیتی ہیں ۔ان پر مکین کا نام اور تاریخ کندہ ہوتی ہے کہ صاحب یا صاحبہ کب اس بستی میں داخل ہوئے ۔کب انہیں اس بستی کے ایک رکن کی حیثیت ملی ۔میں نے محسوس کیا کہ جیسے اس بستی کے لوگ ہم سے کہہ رہے تھے کہ دیکھو یہ جو تم اس میت کے ساتھ یہاں تک آئے ہو تم ابھی چلے جاﺅ گے ۔تم چلے جاﺅ گے تو چلے جاﺅ لیکن ذرا دھیان رکھو کب تک تم ہماری اس بستی کو فراموش کر کے ہم سے بھاگتے رہو گے؟جب تک ہم بھی زندہ تھے ہم بھی قبرستان سے بھاگتے تھے لیکن ہمیں اس اٹل حقیقت کا سامنا کرنا پڑا ایک ایک کر کے ہمیں یہاں آنا پڑا اور یہ ٹھیک ہے کہ ہم تمہارے ساتھ نہیں جا سکینگے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ تم یہاں سے میت کو دفنا نے کے بعد کیا کروگے ہم اسے دفن کرنے کے بعد تعزیہ دار کے گھر پہنچے جاﺅ گے تو وہاں وازہ وان لگ گیا ہو گا ۔آج کل تم لوگوں نے علاقوں میں کمیٹیاں بنا رکھی ہیں جو صاحب تعزیہ کے گھر میں تین روز تک کھلانے پلانے کے عمل میں مصروف رہینگی ۔شام کو کئی کئی ترامیاں کھلائی جائینگی ۔یہ غُسال 2ہزار سے 5ہزار تک حاصل کرے گا ۔یہ گورکن 3ہزار سے 10ہزار کی ریٹ لگائے گا پھر چہارم ہو گا نمکین چائے کا دور دن بھر صاحب تعزیہ کے گھر چلتا رہے گا ۔چہارم کے روز تم سب لوگ پھر آﺅ گے یہاں فاتحہ پڑھی جائے گی پھر اسکے گھر میں تعزیتی مجلس کا انعقاد ہو گا ۔لوگ اس تقریب میں شامل ہونگے ۔مقررین فلسفہ موت وحیات پر روشنی ڈالینگے لیکن انہیں خود یہاں آنے کا کم ہی یقین ہو گا وہ بھی یہاں خود آنے سے ڈر محسوس کر رہے ہونگے اور دوسروں کو یہاں پہنچانے میں مزے لے رہے ہونگے کیونکہ انہی مقررین اور مولانا حضرات سے مجلس آراستہ ہوگی ۔قہوے کا بڑا اہتمام ہو گا پھر کھانا کھانے کے بعد ان حضرات میں نقدی بھی تقسیم ہو گی اسکے بعد چہارم ختم ہو گا ۔تو اہل خانہ پندرھویں او رچالیسویں کا اہتمام کرینگے لیکن ساتھ ہی عورتوں میں باتیں شروع ہونگی کہ حلوے کیلئے چہارم پر صرف ہم تین بہنوں نے پیسے دئے جبکہ چاچا کے مرنے پر ہم نے بھی اپنا حصہ دیا تھا لیکن دیکھو اُنہوں نے اور اِنہوں نے کوئی حصہ ادا نہ کیا ۔ایک بہن کہے گی دیکھو نا اس بھابی کو اپنی طرف کے سارے رشتہ داروں کو چہارم پر کھانے کیلئے روکا میرا سسرال سے فلاں آیا تھا کیا یہ ضابط نہ تھا کہ اسے روک لیا ہوتا ۔اب خوامخواہ مجھے سسرال میں باتیں سننی پڑینگی۔ایک بھائی کہے گا کہ دیکھو اب تو ابا چلے گئے اب ہمیں چاہیے کہ دیکھیں ابا نے اپنی کیا پرا پرٹی چھوڑ رکھی ہے اسے آج ہی تقسیم کیا جائے تو بہتر ہے ۔پھر تقسیم وراثت پر جھگڑے ہونگے ۔بیٹیوں کا حصہ غصب ہو گا اور بیٹے ایک دوسرے کی پگڑی اچھا لینگے ۔محلوں اور عدالتوں تک تم لوگ میت چھوڑی ہوئی میراث پر لڑو گے ۔نہ بھائی بھائی رہیگا نہ بہن بھائی کی ایک ایک انچ اور ایک ایک پائی کیلئے تم لوگ آپسمیں لڑو گے ۔کہوگے وہ بھی میرا ہے یہ بھی میرا ہے اس پر میرا حق اس پر میرا حق اور ایسی کشاکش میں تمہارے موت کا پروانہ بھی آئے گا اور تمہارے حصہ تمہارے لیے بھی ایسا ہی کیا جائے گا ۔تمہاری موت کے وقت تمہارے اولاد جنت کی دعا دینگے آنسو بہائیں گے اور تمہارے بعد جہنم کی دعائیں دیتے ہوئے کہیں گے کہ اس نے ہمارے لیے کوئی بڑی پرا پرٹی نہیں چھوڑی جو کچھ دنیا میں نام اور مال بنایا وہ ہماری اپنی محنت کا ہے یعنی ہر شخص اپنے پیشرﺅوں سے راضی نظر نہیں آئے گا ۔اسلئے سنو دنیا میں مال ودولت کے حصول اور جاہ وحشمت کے پیچھے نہ لگویہ سب ہماری اس بستی میں تمہارے کسی کام نہیں آئے گی جاﺅ اور وہی کما ﺅ جس سے تمہیں ہماری اس بستی میں عزت واکرام ملے وہ ہے اللہ کی بندگی اور انسانوں کی خدمت ۔یہی دولت ہے جو یہاں کام آتی ہے اور بس ۔اسی اثناءمیں مولوی صاحب نے میت کی فاتحہ پڑ ہائی میرا تصور ٹوٹ گیا ۔ہم قبرستان سے واپس آئے پھر وہی دنیا تھی اور وہی انداز !

Leave a Reply

Your email address will not be published.