ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انٹرنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر (آئی ڈی ایم سی) اور ناروے کی پناہ گزین کونسل (این آر سی) نے اپنی ایک رپورٹ میں نئے اعداد و شمار کے بارے میں بتایا کہ تشدد کی وجہ سے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی کل تعداد کو 4 کروڑ 13 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
این آر سی کے سربراہ جان ایگلینڈ نے جنیوا میں رپورٹرز کو بتایا کہ ’یہ تعداد واقعی میں دماغ کو چونکا دینے والی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی تشدد اور تباہی کا ایک خوف لگتا ہے جو ایک خاندان کو اپنے گھر، اپنی زمین، اپنی جائیداد اور کمیونٹی کو چھوڑنے پر مجبور کردے‘۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ تنازعات کی وجہ سے اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والوں کو دیکھا جائے تو 2018 میں مجموعی طور پر 2 کروڑ 80 لاکھ افراد اندرونی طور پر بے دخل ہوئے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ برس نئے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد (آئی ڈی پیز) کل 1 کروڑ 8 لاکھ لاکھ افراد نے جمہوریہ کانگو اور شام میں انتشار کے ساتھ تنازع کی وجہ سے نقل مکانی کی جبکہ ساتھ ہی ایتھوپیا، کیمرون اور نائیجیریا میں اندرونی کشیدگی زیادہ تر نقل مکانی کی وجہ تھی۔
اس وقت آئی ڈی پیز کے طور پر رہنے والے افراد کی تعداد ان 25 لاکھ افراد سے کہیں زیاد ہے جو سرحد پار سے نقل مکانی کرکے پناہ گزین کے طور پر آئے تھے۔
زیادہ آئی ڈی پیز والے ممالک
حیرت کی بات یہ ہے کہ رپورٹ میں یہ معلوم ہوا کہ ایتوپھیا میں گزشتہ برس سب سے زیادہ نئے اندرونی طور پر لوگ بے گھر ہوئے اور اس مشرقی افریقی ملک 29 لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی، جہاں زمین کے تنازع پر سماجی جھگڑے عام ہیں۔
دوسرے نمبر پر کشیدگی سے متاثرہ جمہوریہ کانگو آتا ہے، جہاں 2018 میں 18 لاکھ نئے آئی ڈی پیز سامنے آئے جبکہ اس کے بعد شام میں یہی تعداد 16 لاکھ رہی۔
تاہم اگر شام کی بات کی جائے تو 8 سال سے جنگ کا شکار یہ ملک تباہ ہوچکا ہے اور یہاں آئی ڈی پیز کی تعداد 61 لاکھ ہے جبکہ شامی شہریوں کی تقریباً اتنی ہی تعداد پناہ گزینوں کے طور پر رہ رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بدامنی کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں زیادہ گزشتہ برس قدرتی آفات کے باعث ایک کروڑ 72 لاکھ افراد اندرونی طور پر بے گھر ہوئے۔
سمندری طوفان اور مون سون سیلابوں کی وجہ سے فلپائن، چین اور بھارت میں تقریباً ایک کروڑ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔





