شوکت ساحل
سرینگر اللہ تعلی کی جانب سے ہمارے اوپرسایہ فگن ہوجانے کے ساتھ تبدیلی کے نمایاں آثار نظر آنے لگے ۔ماہ ِ رمضان کے تقدس کے پیش نظر منگل کو پہلے روزہ کے دن گرمائی دارالحکومت سرینگر سمیت تمام قصبہ جات اور تحاصیل ہیڈکواٹروں پر رستوران ،ڈھابے اور فورڈ اسٹریٹس بند رہیں ۔
ماہ رمضان میں دنیا بھر کے مسلمان مسلسل 30 دن(ایک ماہ ) تک صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کریں گے۔رواں سال رمضان کا آغاز کی گرمیوں کے آغاز میں ہو رہاہے جس کا مطلب ہے کہ کشمیر میں روزے کا دورانیے15 گھنٹے سے ذرا زیادہ ہوگا۔ماہ رمضان نے جوں ہی دستک دی تو جسم کے اندرون وبیرون تبدیلی کے نمایاں اثرا ت مرتب ہوئے ۔
ماہ رمضان کے تقدس کے پیش نظر شہر سرینگر سمیت تمام قصبہ جات اور تحصیل صدر مقامات پر ہوٹل ،رستوران اور ڈھابے بند رہیں۔ادھر ماہ رمضان کے تقدس کے پیش نظر شہر سرینگر سمیت تمام قصبہ جات اور تحصیل صدر مقامات پر ہوٹل ،رستوران اور ڈھابے بند رہیں۔بیشتر ہوٹل ،رستوران اور ڈھابے والوں نے پورے مہینے اپنا کاروبار بند رکھنے کا فیصلہ لیا ہے جبکہ بعض نے کھانے پینے کی ایشیاءکی خرید وفروخت سحری سے لیکر افطاری تک نہ کرنے کا عزم دوہرا یا ۔شہر سرینگر کی مشہور ’بتہ گلی یعنی فوڈ اسٹریٹ ‘میں بھی دکانات بند رہیں ۔
شہر میں منگل کے روز ماہ رمضان کے پیش نظرتمام ڈھابے، ہوٹل اور ریستوران بند تھے۔سیول لائنز میں واقع فوڈ سٹریٹ جہاں دن بھر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے،میں بھی ہوکا عالم طاری رہا۔بعض جگہوں پر ڈھابوں اور ہوٹل مالکان کو دکانوں کی صفائی میں محو دیکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ افطار کے بعد لوگ ان کے ڈھابوں اور ہوٹلوں پر آتے ہیں۔چائے پکوڑے وغیرہ فروخت کرنے والے درجنوں دکانات کو بھی بند دیکھا گیا تاہم مٹھائیاں بیچنے والے دکان کھلے تھے۔ادھر مشہور جھیل ڈل علاقے میں سیاحوں کے لئے ڈھابے اور ہوٹل کھلے رہے۔وادی کے تمام ضلع صدر مقامات اور قصبہ جات سے بھی منگل کے روز رمضان کے پیش نظر بازاروں میں ڈھابے اور ہوٹل بند رہنے کی اطلاعات ہیں۔
تاہم لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر چہ یہ ڈھابہ والے اور ہوٹل مالکان رمضان کے پہلے دو تین دن ڈھابوں اور ہوٹلوں کو بند رکھتے ہیں تاہم بعد میں یہ لوگ ڈھابوں یا ہوٹلوں کے دروازوں پر پردے ڈال کر کام کرتے ہیں۔تاہم بانڈی پورہ اور دیگر کئی علاقوں میں دیکھا گیا کہ ہوٹل اور ڈھابے مالکان ماہ رمضان کے دوران کسی دوسرے ذریعہ سے روزی روٹی کی سبیل کرتے ہیں لیکن اپنے دکانوں کو ماہ رمضان کے تقدس کے پیش نظر مہینہ بھر بند رکھتے ہیں۔اس دوران جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی وادی کشمیر میں سحری کے وقت ڈھول بجاکر لوگوں کو جگانے کی روایت برقرار ہے۔ تاہم یہ فریضہ انجام دینے والے سحر خوانوں کی تعداد ہرگذرتے سال کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔
رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی سری نگر کے علاوہ وادی کے دوسرے علاقوں میں لوگوں کو سحری کے وقت نیند سے جگانے کے لئے سحر خوانوں کا سڑکوں پر نکلنا شروع ہوگیا ہے۔سحر خوان لوگوں کو نیند سے جگانے کے لئے ڈھول بجانے کے علاوہ قرآنی آیات اور نعت شریف اونچی آواز سے پڑھتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس کی بدولت موبائیل فونوں اور گھڑیوں میں الارم کی سہولیت آنے کے بعد بھی وادی میں سحر خوانوں کا لوگوں کو سحری کے وقت نیند سے جگانے کا سلسلہ رک نہ گیا۔ بیشتر سحرخوانوں کا کہنا ہے کہ وہ رمضان المبارک کی آمد کا انتظار سال بھر کرتے رہتے ہیں۔