مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی صورہ رہائش گاہ
تاریخی عمارت کی خستہ حالی، حسرت ناک اور افسوس ناک: سوز
ایشین میل نیوز ڈیسک
سرینگر::سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا ہے کہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی صورہ رہائش گاہ کے باقیات حسرت ناک اور افسوس ناک ہے ۔انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صحافی مُکیت اکملی نے 2018ئ میں مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی صورہ رہائش گاہ کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں مکان کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا کہ اس تاریخی مکان کی اینٹیں اور پتھر ایک ایک کر کے گرتے جا رہے ہیں۔ میں نے اُس تصویر کو محفوظ رکھا تھا ۔ کل (یعنی 30 اپریل 2019ئ ) کو مجھے اچانک اکملی کی اُس تحریر کردہ مضمون کی یاد آئی اور میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا اُس نے 2018ئ کے بعد اس مکا ن کو دیکھا ہے ؟ تو اُس نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر میں نے صورہ جانے کا ارادہ کیا اور میں کل جب وہاں پہنچا تو کچھ ہمسائیہ لوگوں نے پہنچانا اور میرے ارد گرد جمع ہو گئے ۔ پھر ہم صحن میں پہنچے تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ مکان کی جگہ پتھروں اور اینٹوں کا ڈھیر پڑا ہوا ہے۔ یہ منظر بہت ہی حسرت ناک تھا۔ ان لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ تاریخی مکان برسوں غفلت کا شکار ہونے کے بعد گذشتہ برس زمین بوس ہو گیا!اُن میں سے جو لوگ عمر رسید تھے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ جب بہت چھوٹے بچے تھے تو انہوں نے اس مکان میں کتنے ہی بڑے لوگوں کو آتے ہوئے دیکھا تھا۔ پھر میں نے اُن کو کہا کہ یہ بہت ہی حسرت ناک اور اذیت ناک بات ہے کہ یہ تاریخی عمارت زمین بوس ہو گئی ہے۔ تاہم یہ باقیات بھی اہم ہیں اور میں اِن کو جموںوکشمیر کے لوگوں کی میراث مانتا ہوں! میں نے اُن کو یاد دلایا کہ اس مکان میں جواہرلال نہرو، عبدالغفار خان، مولانا آزاد، عبدالصمد خان اچکزائی، مرحوم شیخ صاحب سے ملنے آئے تھے۔ میں نے اُن کو یہ بھی یاد لایا کہ 1946ئ میں شیخ صاحب کی محبوسی کے دوران مہاتما گاندھی اسی مکان میں شیخ صاحب مرحوم کی بیگم اکبر جہاں صاحبہ اور بچوں کے ساتھ ہمدردی اور رفاقت ظاہر کرنے کےلئے اس مکان میں آئے تھے۔ پھر ،ادھر دوسری طرف سے فیض احمد فیض، میاں امیر الدین، محمد دین تاثیر ، شیخ صادق حسن اور دوسری کئی دیگر شخصیات اس مکان میں مرحوم شیخ صاحب سے ملنے آئے تھے۔ میں نے اُن کو یہ بھی یاد بھی دلایا کہ پاکستان کی طرف سے مراسلت کار شیخ صادق حسن نے شیخ صاحب مرحوم اور غلام احمداشائی کے ساتھ اسی مکان میں کشمیر کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کی تھی! میں نے اُن کو ضمناً یہ بھی کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اس چنار کے نیچے میں شیخ صاحب مرحوم سے صاحبزادہ حسن شاہ (پرنسپل مولانا آزاد کالج جموں) اور پروفیسر غلام نبی صدیقی کے ساتھ 1966ئ میں ملا تھا!میں نے صورہ کے ان جیالے لوگوں (غلام محمد وانی، محمد یوسف بٹ، سرفراز احمد ، آفتاب احمد بٹ اور واعظ ظہور احمد ) کو بتایا کہ اب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ میں ڈائریکٹر جنرل آرکیولوجکل سروے آف انڈیا کی طرف رجوع کر کے شیخ صاحب مرحوم کے ان باقیات کو جموںوکشمیر کے عوام کی ثقافتی میراث قرار دلوانے کی کوشش کروں۔جب میں صورہ سے واپس پہنچا تو میں نے پہلی فرست میں شریمتی اوشا شرما ،ڈائریکٹر جنرل آرکیولوجکل سروے آف انڈیا کو اپنا خط بھیجا اور انہیں ان باقیات کو جموںوکشمیر کے عوام کےلئے ثقافتی میراث قرار دینے کی پر زور وکالت کی۔