’صحافت ‘زبان کی قید سے مبرا

’صحافت ‘زبان کی قید سے مبرا

اردو صحافت پر دو روزہ اصلاحاتی ورکشاپ
اردو قائرین میں بتدریج تنزلی بڑا چیلنج، اردو صحافت کا مستقبل محفوظ :مقررین

شوکت ساحل

سرینگر مرکزی دانشگاہ کشمیر (سینٹرل یونیورسٹی کشمیر )میں منعقدہ ’اردو صحافت ‘ پر دو روزہ اصلاحاتی ورکشاپ میں مقررین نے یہ بات زور دیکر کہی کہ ’صحافت ‘ زبان کی قید سے مبرا ہے جبکہ عصر حاضر کے عین تقاضوں کے مطابق ہر ایک صحافی کےلئے صحافتی صلاحیتیں نکھار نا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اردو قائرین میں بتدریج کمی آرہی ہے ،تاہم اس حقیقت سے قطعی طورانکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ 80فیصدلوگ اردو اخبارات کا مطالعہ کرنا ہی پسند کرتے ہیں لہٰذا اردو صحافت کا مستقبل محفوظ ہے ۔

اردو صحافت ،جدید تقاضے اور درپیش چیلنجز

24اور25اپریل کو مرکزی دانشگاہ کشمیر (سینٹرل یونیورسٹی کشمیر) کے شعبہ استدقاقِ صحافت،جموں وکشمیر اردو کونسل اور انجمن اردو صحافت جموں وکشمیر کے باہمی اشتراک سے یونیورسٹی کے گرین کیمپس واقع گاندربل میں اردو صحافت پر دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا،جس میں اردو صحافت سے وابستہ صحافیوں اور یونیورسٹی طلبہ نے استفادہ حاصل کرنے کےلئے شرکت کی ۔

8میقات یا سیشنز پر مشتمل اپنی نوعیت کے اس دوروزہ معلوماتی ورکشاپ کے دوران ماہرین ِ تعلیم اور سینئر صحافیوں نے ’تخلیقی صحافت‘ پر لیکچرز ا دیے ،جن سے اردو صحافت سے وابستہ صحافی اور یونیورسٹی ک میں زیر تعلیم طلاب کافی مستفید ہوئے ۔

وائس آف امریکا کے نامہ نگار ،سینئراور کہنہ مشق صحافی یوسف جمیل نے اپنے تجربات اور مشاہدات کے تحت عصر حاضر کے عین تقاضوںکے مطابق صحافتی اصولوں پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہا کہ اردو صحافت کو جذبات پر مبنی صحافت کہا جاتا ہے جبکہ زمینی سطح پر حقائق اور جذبات میں واضح فرق ہے لہٰذا جذبات سے بھر پور صحافت سے پرہیز یا گریز کرنا ہی بنیادی صحافتی اصول ہے ۔ان کا کہناتھا کہ صحافت، عوام کو کچھ نیا بتانے کا نام ہے، کچھ ایسا جو انہیں متاثر کرے، کچھ ایسا جو ان کی توجہ حاصل کرے۔

سینئر صحافی یوسف جمیل نے کہا کہ تمام صحافی بشمول ان کے جنہیں ہم بہت پسند کرتے ہیں ،اس فکر میں رہتے ہیں کہ ان کا کام کتنا حقیقی ہے اور اگلی خبر کہاں سے آ رہی ہے۔کہنہ مشق صحافی کا کہناتھا کہ اصل صحافت کےلئے مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا ’اردوصحافت میں انگریز ی الفاظ کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے ،جسکی وجہ سے حالت ِ زبان بگڑ رہی ہے اور اردو کے ساتھ ساتھ صحافت کے تئیں یہ ذیادتی کے مترادف ہے،غیر ضروری یا بلاضرورت دوسری زبان کے الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے اور جہاں ہمار ے پاس متبادل الفاظ دستیاب نہیں ہے ،ایسی صورت میں دوسری زبانوں کے الفاظ کا استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ‘۔

سوشل میڈیا کو ذریعہ ’معلو مات‘ قرار دیتے ہوئے سینئر صحافی یوسف جمیل نے کہا کہ عصر حاضر کے تقاضوں سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے ،تاہم خبر کی حقیقت اور حقائق کو مسخ کرنے کی بجائے اسکی حقیقت اور حقائق کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جبکہ ’ذمہ داری صحافت ‘ بھی ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ وقت اور مزاج تیزی سے بدل رہا ہے ایسے میں ہر ایک صحافی کو سوشل میڈیا سے لیکر تمام تر وسائل کو بروئے کار لاکر خودکو عصر ِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے ۔

سینئر صحافی یوسف جمیل نے مزید کہا کہ شورش زدہ کشمیر میں صحافیوں کو کئی طرح کی مشکلات بھی درپیش ہیں ،تاہم حقائق کو منظر عام پر لانا ہی صحافی کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اسکے لئے کبھی کبھار اُسے دوہری تلوار کا بھی سامنا کرنا پڑ تا ہے ۔

بی بی سی کے نامہ نگار اور سینئر صحافی ریاض مسرور نے کہا کہ اردو صحافت قطعی طور زوال پذیر نہیں جبکہ موجودہ حالات میں صحافت کو ہی خطرہ لاحق ہے اور اردو صحافت سے وابستہ صحافیوں کو کسی بھی طوراحساس ِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ صحافت کے بنیادی اصولوں کے تحت ہی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ صحافت زبان کی قید سے مبرا لہٰذا یہ کہنا کسی بھی طور درست نہیں ہوگا کہ وہ انگریزی صحافی اور یہ اردو صحافی ہے بلکہ صحافی ،صحافی ہوتا ہے ۔

سینئر صحافی ریاض مسرور نے کہا کہ حال ہی میں عالمی ادارہ یونیسکوکی ایک رپورٹ منظر پر آئی ہے ،جس میں اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں2030 تک کئی زبانیں ختم ہوجائیں گی ۔تاہم اس فہرست میں اردو اور کشمیری زبان شامل نہیں ہے ،لہٰذا یہ کہنا کسی بھی طور درست نہیں ہوگا کہ اردو زبان یا اردو صحافت کو خطرہ لاحق ہے ،البتہ چیلنجز درپیش ہیں ،کیونکہ اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے ،تاہم آج بھی ریاست کی آبادی کا ایک بڑا تناسب اردو اخبارات کا ہی مطالعہ کرنا پسند کرتا ہے ،ایسے میں صحافیوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معیاری صحافت کو ترجیحات میں رکھیں ۔
صحافتی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے سینئر صحافی ریاض مسرور نے کہا کہ صحافیوں کی جانب سے خبر دینے کا طرہ امتیاز ختم ہوچکا ہے ،کیونکہ جس تیز رفتاری سے خبر دینے کی روش بدل رہی یا اس میں تبدیلی آرہی ہے ،اس تبدیلی کے جدید سانچے میں ہر ایک صحافی کو خود کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے ۔ان کا کہناتھا کہ آج کے دور میں ہر ایک صحافی ہے اور عصر حاضر میں صحافت دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے ایک منظم اور دوسراغیر منظم ہے ۔

ان کا کہناتھا کہ زمانہ تیزی سے ترقی کررہا ہے لہٰذا اردو صحافیوں کو جدید تقاضوں کے عین مطابق مہارت حاصل کرنے ہوگی ۔سوشل میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے سینئر صحافی ریاض مسرور نے کہا کہ یہ ذریعہ معلو مات حاصل کرنا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے ،تاہم کسی بھی خبر کے اصل حقائق کو دریافت کرنا صحافت کے بنیادی اصول ہےں ،لہٰذا کوئی بھی خبر نشر یا شائع کرنے سے قبل اسکے تمام حقائق کو جمع کرنا لازم ملزوم ہے ۔انہوں نے صحافیوں پر زوردیا کہ وہ اپنی ’رپورٹس‘ کو عام فہم زبان میں ہی اپنے قائرین تک پہنچا ئے ،تاہم معیار کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔

تکنیکی،مہارت اور صحت زبان پر لیکچر

کشمیر عظمیٰ کے ایکزکیٹیو مدیر اور سینئر صحافی جاوید آزر نے ادارتی اصولوں پر روشنی ڈالی ۔روزنامہ سرینگر ٹائمز کے معروف کارٹونسٹ بشیر احمد بشیر نے کارٹون بنانے اور آج کل کے ماحول میں صحافیوں کو درپیش مشکلات میں معیاری کام کرنے پر اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ ریڈیو کشمیرکے سابق ڈائریکٹر سرینگر ہمایوں قیصر نے کھیلوں سے وابستہ صحافیوں کو تکنیکی اور مہارت کے بارے میں جانکاری دی۔ گریٹر کشمیر کے ڈیزائنر مدثر کبروی نے’لے آﺅٹ ڈیزائنگ‘ کے حوالے سے شرکاءورکشاپ کو آگاہ کیا ۔پروفیسر نذیر احمد ملک نے ’صحت زبان ‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو کی اہمیت وافادیت سے شرکاءورکشاپ کو مستفید کیا۔انہوں نے صحافت میں زبان کے کردار کی وضاحت بھی کی۔ ہفتہ روزہ کشمیر لائف کے مدید اعلیٰ مسعود حسین نے اپنے خطاب میںصحافیوں کو اپنا کردار اور معیار بڑھانے پر زور دیا۔دور درشن نیوز کے سربراہ سلمان قاضی نے تکنیکی امورات پر روشنی ڈالی ۔پروفیسر حمیداللہ مرزا نے صحافیوں اور طالب علموں کو اردو زبان میں بہتری لانے پر زور دیا جبکہ مرکزی دانشگاہ کشمیر اس حو الے سے کلیدی کردار ادا کرے گی ۔

رسم ِ افتتاح،اختتامی تقریب اوراہم اعلان

دور ورزہ اصلاحی ورکشاپ کا افتتاح مرکزی دانشگاہ کشمیر کے وائس چانسلرپروفیسر معراج الدین میرنے کیا ۔انہوں نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو صحافت کے معیار میں نکھار لانے کیلئے مستقبل قریب میں مختلف قلیل مدتی کورس شروع کرنے کا اعلان کیا۔مرکزی یونیورسٹی کشمیر کے شعبہ کنورجنٹ جرنلزم کے کواڑی نیٹر ڈاکٹر جاں بابو کوئے نے استقبالیہ خطبہ دیا ۔

پروفیسر حمید اللہ مرازی نے تعرفی خطبہ دیا ۔یونیورسٹی کے رجسٹرا پروفیسر فیاض احمد نکا نے خصوصی خطبہ دیا ۔کشمیر یونیورسٹی (دانشگاہ کشمیر ) کے شعبہ میڈیا ایجوکیشن ریسرچ سینٹر کے سینئر فیکلٹی ناصر مرزا نے کلیدی خطبہ پیش کیا ۔جموں وکشمیر اردو کونسل کے صدر ،ڈاکٹر جاوید اقبال نے شکریہ کی تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو کونسل ،اردو کی ترقی اور فروغ کےلئے ہرممکن اقدامات اٹھائے گا ۔

انجمن اردو صحافت جموں و کشمیر نے ورکشاپ کے احسن انعقاد کیلئے سنٹرل یونیورسٹی کشمیر بالخصوص شعبہ کنورجنٹ جرنلزم کے ذمہ داروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی اس طرح کے ورکشاپ منعقد کئے جائیں گے۔انجمن نے اردو کے تئیں اردوکونسل کی کا وشوںکی بھی سراہنا کی۔ ورکشاپ میں نظامت کے فرائض نوجوان صحافی اور ماہر تعلیم راشد مقبول نے انجام دئے ۔اردو کونسل کے جنرل سیکریٹری جاوید ماٹجی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔

اصلاحی ورکشاپ میں طلبہ اور صحافیوں کے علاوہ جن شخصیات نے شرکت کی ،اُن میں مرکزی یونیورسٹی کشمیر کے شعبہ استدقاق و صحافت کی اسسٹنٹ پروفیسر حبا دین ،ڈاکٹر آصف خان ،ڈاکٹر شہناز بشیر ،ڈی سی جی کے ڈین ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی،ڈاکٹر نور کراجو وغیرہ شامل ہے جبکہ و رکشاپ کے اختتامی سیشن کی صدارت سنٹرل یونیورسٹی کی کنٹرولر امتحانات پروفیسر پروین پنڈت نے کی۔ورکشاپ کے اختتام پرصحافیوں،طلبہ اور فیکلٹی ممبران میں توصیفی اسناد تقسیم کی گئیںجبکہ ورکشاپ کے دوران دو کتابوں ’مسلم فلسفہ کی تاریخ اور اردو فسانے کے صد رنگ جلوے‘کی رسم رونمائی بھی انجام دی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.