سرینگر//ظلم وجبر اور سڑکیں بند کرنے سے آپ (مرکز) کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکتے اور نہ ہمارے حق کی آواز دبا سکتے ہیں،آپ کی ایک ریاست کا گورنر کہتا ہے کہ کشمیر مت جائو، کشمیریوں کی چیزیں مت خریدو، امرناتھ یاترا کیلئے مت جائو، آپ اسے کچھ نہیں کہتے اور اس کے باوجود کہتے ہو کہ کشمیر آپ کا اٹوٹ انگ ہے۔ ان باتوں کا اظہار صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے آج شیر کشمیر پارک سرینگر میں سرینگر ، بڈگام اور گاندربل کے پارٹی عہدیدوروں اور کارکنوں کے ایک چنائوی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جلسے سے نائب صدر عمر عبداللہ، جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ اور صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے بھی خطاب کیا۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ اگر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے تو نریندر مودی جی یہاں تقریر کرنے کیوں نہیں آئے، ہم بھی سنتے اُن کے پاس یہاں کے لوگوں سے کہنے کیلئے کیا ہے؟ ’’آپ کہتے ہو کہ ہم وفادار نہیں لیکن تم بھی تو دلدار نہیں، ظلم و ستم اور جبر واستبداد کے سوا آپ کے 5سالہ دورِ حکومت نے کشمیریوں نے کچھ نہیں دیکھا۔آپ کے تعمیر و ترقی اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے نعروں کاکیا ہوا؟‘‘صدرِ نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ’’2014میں انتخابی نتائج کے وقت میں ہسپتال میں زیر علاج تھا، بھاجپا والے مجھ سے جموںوکشمیر میں حکومت بنانے کے سلسلے میں ملنے آئے، میں نے اُن سے کہا کہ میں اس وقت زیر علاج ہوں پارٹی کے امورات عمر عبداللہ اور اُن کے ساتھی دیکھ رہے ہیں آپ اُن سے رابطہ کیجئے۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ عمر اور اُن کے ساتھیوں نے بھاجپا کیساتھ اتحاد مسترد کردیا اور اس بات کا برملا اظہار کیاکہ ہم اُن جماعتوں کیساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے جن کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر فاروق عبداللہ مرتے دم تک ان کیساتھ ہاتھ نہیں ملائے گا،یہ لوگ انتخابات میں طاقت، پیسہ اور سرکاری مشینری کو استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے لیکن ہمیں مضبوطی سے ان کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے ایمان کو مستحکم رکھنا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ عمر عبداللہ میں اب مکمل طور پر سیاسی بصارت اور صلاحیت آگئی ہے اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ میرے مرنے کے بعد وہ اس پارٹی اور اس قوم کی صحیح نمائندگی کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک نیشنل کانفرنس کی ہر ایک اکائی کو مضبوط نہیں کیا جائیگا تب تک ہم اس ریاست کی بقاء کا دفاع نہیں کرسکتے، پارٹی کی مضبوطی میں ہی جموںوکشمیرکے تشخص کے دفاع کا راز مضمر ہے۔ این سی نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنی تقریر میں کہاکہ آج بھاجپا والوں کو میری باتوں پر اعتراض ہے، جب ہم نے ریاست کی اندورنی خودمختاری کی قرارداد کو ریاست کی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت سے منظور کروایا اُس وقت میں واجپائی حکومت میں وزیر تھااور یہی لوگ میرے ساتھ کام کرتے تھے لیکن تب ان لوگوں میں سے کسی کو اعتراض نہیں تھا، آج اعتراض کیوں؟ نریندر مودی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ موصوف کہتے ہیں کہ جموںوکشمیر سے 2خاندانوں کو باہر نکالنا ہے لیکن شائد بھول گئے کہ 2014میں بھی انہوں نے یہی تقریر کی تھی اور کہا تھا جموں وکشمیر میں دو خاندانوں کا راج ختم کرنا ہے، لیکن جنوری 2015میں انہی دوخاندانوں میں سے ایک ساتھ اتحاد کیا اور اس خاندان سے ایک نہیں بلکہ دو وزیر اعلیٰ بنائے۔ مودی جی جتنا آپ سمجھتے ہوئے جموںوکشمیرکے لوگ اُن بھی سادہ لوح نہیں۔ مودی جی ہم اُن لوگوں میں سے نہیں جو آپ کی طرح الیکشن میں ایک بات کرتے ہیں اور الیکشن کے فوراً بعد اپنی بولی بدل دیتے ہیں، ہم اُن میں نہیں جو آپ کی طرح وعدوں کو بھول جاتے ہیں، ہم اُن میں ہیں جو اپنی باتوں پر قائم رہتے ہیں۔این سی نائب صدر نے کہا کہ آج کل یہ پی ڈی پی اور پی سی والے لوگوں کے ہمدرد بن بیٹھے ہیں، آج ہر بات پر ہمدردیاں لٹائی جاتی ہیں اور آنسو بہائے جاتے ہیں لیکن جب یہ دونوں جماعتیں بھاجپا کیساتھ اتحاد میں رہ کر یہاں حکمرانی کررہی تھیں تب ان کی زبانوں پر تالے چڑھ گئے تھے۔’’ جب 2016میں کشمیر میں چاروں طرف قتل و غارت گری کا سماں تھا، گولیوں اور پیلٹ گنوں سے بے تحاشہ ہلاکتوں، نوجوانوں کو اپاہج بنانے، نونہالوں اور دوشیزائوں کو نابینا بنانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا تب یہ دونوں جماعتیں بھاجپا کیساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھیں اور کشمیریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا، تب ہم نے ان کی آواز نہیں سنی۔ جب صوبہ جموں کے لگ بھگ تمام اضلاع میں آر ایس ایس کی ہتھیار بند نکالیں گئیں تب کہاں تھی ان کی آواز؟ جب فرقہ پرست بھگوا جماعتوں کے غنڈے خطہ جموںمیں مسلمانوں کو ڈراتے تھے تب کہاں تھی ان کی ہمدردیاں ۔ جب بیروہ کے ایک نوجوانوں کو فوج کی جیپ کیساتھ باندھ کر ایک درجن دیہات سے گھمایا گیا تب بیاں کیوں نہیںجاری کیا گیا؟ حد تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کمیشن نے اس نوجوانوں کے حق میں 10لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان کیا لیکن محبوبہ مفتی اور اُن کے پی سی کے وزیر نے اس نوجوانوں کو چیک تھمانے کے بجائے اس امداد پر ہی روک لگوا دی۔جب جامع مسجد سرینگر میں لگاتار 6ماہ نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تب کوئی مذمتی بیان کیوں نہیں جاری کیا گیا؟عمر عبداللہ نے کہا کہ آج یہ لوگ نوجوانوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن جب ایس آر او 202لاگو کیا تب ان نوجوانوں کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔ان دونوں جماعتوں نے اپنی ذاتی مفادات کیلئے ریاست کو قربان کردیا کیونکہ ان کی نیت صحیح نہیں تھی۔پارلیمانی انتخابات میں لوگوں سے بھر پور ووٹنگ میں حصہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ بائیکاٹ کے ذریعے ہم اُن طاقتوں کو مضبوط کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں جو ریاست دشمنوں کے خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں ۔ ہمیں پارلیمنٹ میں ایسے نمائندے بھیجنے ہیں جو ہمارے حقوق کیلئے لڑے، دفعہ370کے دفاع کیلئے پیش پیش رہیں، ریاست کی شناخت اور پہچان کو برقرار رکھنے میں اپنا رول نبھائیں ۔ اسی لئے نیشنل کانفرنس نے سب سے بہترین اُمیدوار میدان میں اُتارے ہیں۔ اجتماع میں پارٹی کے سینئر لیڈران عبدالرحیم راتھر، چودھری محمد رمضان، آغا سید روح اللہ ، مبارک گل، محمد اکبر لون، شمیمہ فردوس، نذیر احمد خان گریزی، عرفان احمد شاہ، پیر آفاق احمد، محمد سعید آخون، شمی اوبرائے ، شیخ اشفاق جبار ،غلام قادر پردیسی، تنویر صادق، سلمان علی ساگر، شوکت احمد میر، ڈاکٹر سجاد اوڑی، آغا سید یوسف، صبیہ قادری، حاجی عبدالاحد ڈار، احسان پرسیدی اور مدثر شہمیری بھی موجود تھے۔