ایشن میل نیوز
مودی اور امت شاہ کشمیریوں کو ڈرانا اور دھمکانا بند کریں
سرینگر//صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھاجپا صدر امت شاہ اور وزیرا عظم نریندر مودی کو کشمیریوں کو ڈرانا اور دھمکانا بند کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہم نے بہت دھمکیاں دیکھیں ہیں، اگر آپ دفعہ370کو ہٹانا چاہتے ہیں تو ہٹا کے دیکھئے، ہم بھی دیکھیں گے کہ پھر الحاق رہتا ہے کہ نہیں، شائد اللہ نے ہماری نجات اسی میں رکھی ہو۔تم خدا نہیں ہو، نہ کبھی خدا بن سکتے ہو، خدا وہی ایک ہے اور وہی عزت دینے والا اور ذلت دینے والا ہے“۔
ان باتوں کا اظہار انہوں نے آج گاندربل میں مادر مہربان سٹیڈیم میں چناﺅی جلسے سے خطاب کے دوران کیا۔ اس موقعے پر جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال، ضلع صدر سابق ایم ایل اے شیخ اشفاق جبار اور مشتاق احمد گورو بھی موجود تھے۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہم نہ صرف اس ریاست کیلئے بلکہ سارے وطن کیلئے لڑ رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ وطن ایک رہے، جو سب کا وطن ہو، مسلمان کا بھی اُتنا ہی وطن ہو جتنا ہندوکا ہو اور سکھ کا بھی اُتنا ہی ہو جتنا عیسائی کا ہو۔ وطن میں کچھ مغرور عناصر کا تکبر بڑھ گیا ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ مودی کے بغیر ہندوستان کو بچانے والا کوئی نہیں، شائد انہیں معلوم نہیں کہ کم قد والے لال بہادر شاستری نے بھی ہندوستان چلایا اور دیویگوڑا نے بھی ہندوستان کو اچھی طرح سنبھالا۔ ایک دن مودی کو بھی جانا ہے، شائد بہت جلد جانا ہوگا تب کیا ہندوستان نہیں چلے گا؟
صدرِ نیشنل کانفرنس نے کہا کہ” ہندوستان میں جو بھی مودی اور امت شاہ سے سوال پوچھتا ہے یہ لوگ اُسے دیش دروہی اور پاکستانی جتلاتے ہیں۔ یہ لوگ ہم کو بھی پاکستانی بولتے ہیں،اگر ہم کو پاکستان جانا ہوتا تو ہم 1947میں چلے جاتے، ہمیں دنیا کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔”ہم نے کبھی نہیں کہا ہم پاکستانی ہے، ہاں ہم پاکستان کے ہمدرد ہیںکہ وہ زندہ رہے، خود ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور میں منارِ پاکستان کے پاس کہا ’میں ہندوستان کا وزیر اعظم میں آپ سے کہتا ہوں ہم پاکستان قبول کرتے ہیں اور ہم مضبوط پاکستان چاہتے ہیں تاکہ ہم دوستی میں رہ سکیں ‘، کرناہ ٹنگڈار میں بھی اٹل بہاری واجپائی نے کہا کہ دوست بلدے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں “۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بھاجپا والے کہتے ہیں کہ دفعہ370عارضی ہے، اگر آئین کہ یہ دفعہ عارضی ہے تو الحاق بھی عارضی ہے کیونکہ الحاق کی بنیاد رائے شماری تھی جس کو ہندوستان اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں تسلیم کیاہے، سیکورٹی کونسل کی قراردادیں آج بھی موجود ہیں، امت شاہ، مودی اور دیگر بھاجپا والوں کو ان کا مطالعہ کرنا چاہئے۔دونوں ممالک نے قراردادوں پر عملدرآمد میں اڑچنیں پیدا کی اور کئی سال اس پر لڑائی چلتی رہی، کبھی ایک ملک نے اعتراض جتلایا تو کبھی دوسرے ملک نے رائے شماری نہیں ہونی دی۔پھر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کو جیل بھیج دیا گیا کیونکہ انہوں نے سر نہیں جھکایا۔مرتے دم تک شیر کشمیر نے نئی دلی کے سامنے سر نہیں جھکایا، 1975میں بھی انہوں نے اُس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے وعدہ لیا تھا کہ آج نئی شروعات ہے لیکن ہمیں واپس 1953کی پوزیشن پر جانا ہے، جس پر حامی بھری گئی تھی۔ اندرا گاندھی کو ارسال کیا گیا وہ خط آج بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ ”نریندر مودی جن کو جموںوکشمیر کے اپنے وزیر اعظم پر اعتراض ہے کو میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پی وی نرسمہا راﺅ نے پارلیمنٹ میں تقریر کی اور جموں وکشمیر کے عوام کیساتھ وعدہ کیا تھا کہ آزادی سے کم کچھ بھی دینے کیلئے تیا ہیں اور آسمان حد ہے،ہم نے بھی کبھی آزادی نہیں مانگی ہم نے بھی وہی مانگا جس کے تحت مشروط الحاق ہوا تھا، آج بھی ہم وہی مانگ رہے ہیں۔ نرسمہا راﺅ نے افریقہ کے برکینا فاسو سے اپنی قوم سے خطاب کے دوران کہا کہ جموں وکشمیر کا اپنا وزیر اعظم ہونا چاہئے اور اپنا صدرِ ریاست ہونا چاہئے“۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ افریقہ سے واپسی کے بعد میں شری نرسمہا راﺅ سے ملا اور کہا کہ معاملہ صرف صدرِ ریاست اور وزیر اعظم کا نہیں، ریاست پر اُن تمام مرکزی قوانین کو منسوخ کرناہوگا جو 1953کے بعد غیر آئینی اور جمہوری طور لاگو کئے گئے ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ آپ الیکشن لڑیئے آپ کی اسمبلی جو فیصلہ کریگی ہمیں وہ منظور ہوگا اور ہم نے اسمبلی اٹانومی کی قرارداد پاس کروائی۔“
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اٹانومی کو بھول گئے کیونکہ مرکز نے اسے پھینک دیا، ایسا کچھ نہیں، جب ایک دستاویز بنتا ہے اُس کا کچھ نہیں کیا جاسکتا،ایک نہ ایک دن انہیں اس اٹانومی مسودے کو اپنانا ہی ہوگا تب تک یہاں امن نہیں آگا۔پی ڈی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ مفتی صاحب آخری دنوں میں مجھ سے ملنے آیا اور انہیں بھاجپا کیساتھ اتحاد کا کافی افسوس تھا اور وہ بہت مایوس تھے، لیکن اُس کی بیٹی نے مفتی کے مرنے کے بعد پھر سے بھاجپا کیساتھ اتحاد کیا اور یہاں آر ایس ایس کو پیر جمانے کا موقع فراہم کیا۔ موصوفہ کہتی ہیں کہ میں نے بھاجپا کیساتھ اتحاد کرکے زہر پیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ محبوبہ مفتی نے جموںوکشمیر کے عوام کو زہر پلایا۔ جو مصیبت پی ڈی پی والوں نے یہاں لائی اُس کے کیا کیا نتائج ہم کو بھگتنے پڑیں گے اللہ ہی جانتاہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ آج متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ آج سیدھا سیدھا سوال یہی ہے تشخص کو بچانا ہے یا نہیں بچانا ہے؟ ہندوستان میں مسلمان عزت کیساتھ چل سکتا ہے یا نہیں ؟