جمعرات, جنوری ۲۳, ۲۰۲۵
0.9 C
Srinagar

نریندر مودی ملک کی تاریخ کا مطالعہ کریں:عمر عبداللہ

ایشین میل نیوز

سرینگر/موجودہ انتخابات معمول کے الیکشن نہیں۔ جہاں ترقیاتی کام کاج کی بات ہوگی، روزگار کی بات ہوگی، امن و امان کی بات ہوگی وہیں آج ہماری ریاست کو درپیش سب سے بڑے چیلنج پر خصوصی توجہ دینی کی ضرورت ہے اور اس چیلنج میں سرخ رو ہونے کیلئے ہمیں بی جے پی ، آر ایس ایس اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔

ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پٹن میں چناﺅی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقعے پر صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، شمالی زون صدر و پارلیمانی اُمیدوار ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، سینئر لیڈران شریف الدین شارق، شمی اوبرائے، غلام حسن راہی، ریاض بیدار کے علاوہ کئی لیڈران بھی موجو دتھے۔

عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”ہماری پہنچان، شناخت اور انفرادیت کو مٹانے کی مذموم سازشیں ہورہی ہیں، ایک کے بعد ایک حملے ہورہے ہیں، پہلے ارون جیٹلی نے دفعہ35اے اور دفعہ370کو کمزور جتلایا پھر امت شاہ نے 2020تک ان دفعات کو ختم کرنے کی بات کی اور کل وزیر اعظم کو میری وہ تقریر پسند نہیں آئی(جس میںمیں نے صدرِ ریاست اور وزیر اعظم کی بحالی کی بات کی تھی) اور انہوں نے دوسری پارٹیوں پر حملے کئے اور پوچھا کی کہ کیا آپ بھی یہ مانتے ہو جو نیشنل کانفرنس کہتی ہے“۔ این سی نائب صدر نے وزیر اعظم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”مودی صاحب ہم نے کچھ نیا نہیں کہا، آپ اس ملک کی تاریخ پڑیئے، کن حالات میں جموںوکشمیر اس ملک کا حصہ بنا، جب الحاق پر دستخط ہوا اُس وقت مہاراجہ ہری سنگھ نے کیا نقشہ کھینچا گیااور اُس وقت ریاست کو کون سے حقوق دیئے گئے، جس وزیر اعظم اور صدرِ ریاست کی میں نے بات کی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ تو ہمارے آئین میں درج ہے، اُس آئین میں جس آئین پر آپ نے وزیر اعظم کا حلف لیا۔اُسی آئین میں درج ہے کہ جموں و کشمیر کا اپنا جھنڈا ہوگا اور اپنا آئین ہوگااور اُسی آئین کے تحت ہمارا اپنا صدرِ ریاست اور وزیر اعظم ہوگا، 1965تک تو یہی حال تھا، ہم کو ن سی نئی بات کررہے ہیں؟

عمر عبداللہ نے کہا کہ ”نیشنل کانفرنس نے بھی کل کی بات آسمان سے نہیں اُتاری، ہم نے 1996میں الیکشن لڑا کیونکہ اُس وقت کے وزیر اعظم نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ہماری اندرونی خودمختاری کی جائیگی، اُس وقت وہی وزیر اعظم تھے جس کی آپ (مودی) تعریفیں کرتے ہو، اُس وقت آندھرا پردیش کے سب سے بڑے لیڈر مانے جانے والے نرسمہا راﺅ وزیر اعظم تھے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں وعدہ کیاتھا کہ آزادی سے کم آسمان بھی مانگ لو۔ کیا بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے نہیں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل ہمیں انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے میں ڈھونڈنا ہوگا؟“عمر عبداللہ نے کہا ”میں نے کیا نیا کہا، میں نے وہ کہا جو مجھ سے پہلے لیڈروں نے کہا اور میں نے وہی کہا جس پے ہم قائم و دائم ہیں“۔

ان کا کہنا تھا کہ ”ہم ان طاقتوں کو یہاں کامیاب نہیں ہونے دیں گے جو ہماری اندرونی خودمختاری ، ہماری شناخت اور پہنچان کو جڑ سے اُکھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں،ہم اس کی قطعی اجازت نہیں دیں گے ، چاہے ہم عدالت میں لڑنا پڑے، چاہئے ہمیں پارلیمنٹ میں لڑناپڑے یا پھر ہمیں سڑکوں پر کیوں نہ لڑنا پڑے،یہ ہماری پہچان ہے، ہم مہاراشٹرا یا، یوپی یا بہار نہیں، ہم اڑیسہ یا آندھرا پردیش نہیں ہیں، ہم بنا کسی شرط کے ملک کے ساتھ گل نہیں ملے، ہمارے لیڈروں نے اُس وقت کچھ شرائط رکھیں۔میں سمجھ نہیں پاتا ہوں کہ ایک طرف آپ کہتے ہو کہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو الحاق پر سوال نہیں اُٹھانا چاہئے لیکن جن شرائط پر الحاق ہوا ہے اُن پر آپ ہی سوال اُٹھاتے ہو، یہ کہاں کا انصاف ہے، کوئی ہمیں سمجھائے“۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ جموںوکشمیر نیشنل کانفرنس نے قربانیاں دیں ہیں، اس ریاست کا جھنڈا اور ہماری تنظیم کا جھنڈا لال رنگ سے نہیں ہے بلکہ خون کی قربانیاں اس جھنڈے کو لال کیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ”ہمارے اپنے ہی لوگ اندر اندر سے خصوصی پوزیشن کی جڑیں کاٹنے میں بھاجپا اور آر ایس ایس کی معاونت کررہے ہیں، طرح طرح کے لباس اور روپ بدل کے عوام کے سامنے آتے ہیں،کبھی کہتے ہیں مودی صاحب میرا بڑا بھائی ہے، کبھی کہتے ہیں محبوبہ مفتی میری بہن ہے، حکومت رہنے تک محبوبہ مفتی بہن رہتی ہے حکومت جانے کے بعد تمام بُرائیاں اُس میں نظرآتیں ہیں، رشتے اچانک ختم، منتری بنے کیلئے رشتہ بن جاتا ہے محکمہ چھن جانے کے ساتھ ہی رشتہ بھی ختم ۔یہی لوگ یہاں موجودہ تباہی اور بربادی کی جڑی ہیں“۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کچھ لوگوں کی سیاست بائیکاٹ پر چلتی ہے، ووٹنگ کی شرح کم رہنے سے اُن کو فائدہ ملتا ہے لیکن بعد میں وہ اُن علاقوں کو نہیں پوچھتے جہاں بائیکاٹ ہوتا ہے، اس لئے عوام کو سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا چاہئے۔ جلسے سے خطاب کے دوران عمر عبداللہ نیشنل کانفرنس کی حکومت آنے کی صورت میں نے پی ایس اے اور ایس آر او 202کو ہٹانے کے علاوہ 2015کے بعد نوجوانوں کیخلاف دائر کئے گئے کیسوں کا جائزہ لیکر معاف کرنے کا بھی اعلان کیا۔

Popular Categories

spot_imgspot_img