بی جے پی کے قدآور لیڈر امت شاہ نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ دفعہ 370اور 35A کو ختم کرکے ہی دم لیں گے ۔ انہوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ وہ 2020تک اس دفعہ کو ہٹائےں گے۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ پہلے یہ سنگ پریوار کا منشور تھا اور اب بی جے پی کا منشور ہے ۔ اس بیان کو لیکر ریاست جموں و کشمیر کے مین سٹریم لیڈران نے بھی بیان بازی شروع کی ہے ۔ کانگریس کے جی اے میر نے کہا ہے کہ ان دفعات کو کوئی بھی طاقت ہٹا نہیں سکتی ۔ جبکہ سجاد غنی لون نے کہا ہے کہ اس دفعہ کو منسوخ کرنے کی کوئی بھی کوشش جموں و کشمیر کو الوداع کہنے کے مترادف ہوگی۔ جبکہ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ان دفعات کے خاتمے سے الحاق کا باب بھی بحث کےلئے کھل جائے گا ۔ عمر عبداللہ نے اپنے ایک انتخابی منشور میں یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کےلئے صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں کو بحال کریں گے جس پر ملک کے وزیر اعظم نے کہا ہے یہ معاملہ نہایت ہی سنگین اور سنجیدہ ہے۔ انہوں نے عمر عبداللہ کے بیان پر فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں کانگریس سے وضاحت طلب کی ہے ۔
دفعہ 370ےا 35A کے ہٹانے پر ریاست کی تمام سیاسی اور علیحدگی پسند جماعتیں ایک ہی موقف رکھتی ہیں کہ اس کو ہٹایا نہیں جا سکتا ۔ اس بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے اور مرکزی و ریاستی لیڈران کے متضاد بیانات کے پیش نظر یہ حقیقت الم نشرح ہو کے رہ جاتی ہے ۔ فی الوقت انتخابی مہم کے دوران ہر لیڈر اپنا انتخابی منشور پیش کرتا ہے ۔ ریاستی لیڈران کے پاس 35A اور 370 کے دفاع کے بڑھ کر اور کوئی موثر منشور فی الوقت موجود نہیں ہے اسی لئے عمر عبداللہ نے دو قدم آگے جا کر صدر ریاست اور وزیر اعظم کے عہدے کی بحالی کی بات کی ہے ۔ ادھر مرکزی لیڈران بھی عوام کا دل جیتنے اور ووٹ حاصل کرنے کےلئے دفعہ 370اور35A کو اہم ”ہتھیار “مان کر اس کے خاتمے کی بات کرتے ہیں ۔ کانگریس نے بھی اپنا انتخابی منشور جاری کیا اور اس منشور میں جموں وکشمیر کے حوالے سے خاص ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن تبدیل نہیں ہوگی۔ دانشور طبقہ اس سلسلے میں ورطہ حیرت میں ہے کہ عوامی بہبود اور فلاح کےلئے کوئی بھی سیاسی لیڈر عوامی مفادات کی بات نہیں کرتا جبکہ زمینی سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو سیاسی مسائل سے بڑھ کر کئی اہم مسائل موجود ہیں ۔ مثلاً بے روزگاری ، گراں بازاری ، اشیاءخوردنی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ، اقتصادی حالت کی بد حالی ، پشت و خون کا ماحول ، سڑک ،پانی اور بجلی ، طبی سہولیات کا فقدان جیسے کئی مسائل ایسے ہیں کہ جن کو چھوڑ کر سیاسی لیڈران محض سیاست کے مسائل کو ابھار کر در حقیقت اس امر کی طرف عوام کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ ہمیں عوامی مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ لیڈران اپنی کرسی کے بچاﺅ کےلئے ایسے انتخابی منشور پر عمل پیرا ہیں کہ ہمیں عوام کی نہیں بلکہ کرسی کی ضرورت ہے ۔ لہٰذا اس صورتحال کے پیش نظر انتخابی میدان میں اترنے والے سیاستدانوں کو پہلے عوام کی فکر دامن گیر ہونی چاہئے تب جا کر سیاسی مسائل بھی حل ہونگے ۔ عوامی حلقے ان بیانات کو محض وعدے اور سراب تصور کرتے ہیں ۔