سیاستدان پھر میدان میں

پارلیمانی انتخابات کا بگل بجتے ہی سیاستدان حضرات اپنی سیاسی شان و شوکت کا اظہار بیان کرنے لگے ہیں۔ حسب معمول عوام کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں اور وعدوں کی ایسی یلغار اپنے بیان میں کرتے ہیں کہ ان کا مقصد اور نیت صاف و عیاں ہوتی ہے ، تاہم عادت سے مجبور ہو کر عوام کو بہلانے اور پھسلانے کیلئے ہر ممکن کوشش اور جدو جہد میں سیاستدان حضرات جٹ گئے ہیں ۔ کل تک جو سیاسی جماعت ایک دوسرے کی دشمن تھی آج وہی لوگ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے نظر آرہے ہیں۔ اپنے حقیر سیاسی مفاد کیلئے کل تک جو ایک دوسرے کی عزت پامال کرتے تھے آج ایک دوسرے کے جوتوں پر گر رہے ہیں اور جوتیوں میں دال بٹ رہی جبکہ عوام کی امنگیں اور تمنائیں بر سر عام کٹ رہی ہے۔ سیاست کے اس بازار میں عوام کے دل غبار کے شکار ہیں اور آئے دن سیاستدان حضرات جن وعدوں کا اظہار کرتے ہیں ان وعدوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام اس غم اور پریشانی کے عالم میں غلطاں ہیں کہ گزشتہ وعدے جب پورے نہیں کئے گئے تو مزید وعدوں سے کیا حاصل ہو سکتا ہے اس صورتحال کو دیکھ کر اہل فہم و دانش بھی بدحال ہیں کہ آخر ان سیاستدانوں کے کتنے چہرے ہیں۔ ہر چہرہ دوسرے چہرے سے مختلف نظر آرہا ہے۔ اس صورتحال میں عوامی حلقے اس بات سے پریشان اور ہلکان ہو رہے ہیں کہ آخر سیاست کی دنیا میں اعتبار نام کی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ اگر لوگوں کا اعتبار بر قرار ہے تو سیاستدان اپنے بیان میں کامیاب اور کامران ہے اور اگر سیاستدان بے اعتبار ہے تو وہ پھر بھی سیاسی میدان میں کامران قرار دیا جاتا ہے۔ چاہے عوام اس کا انتخاب عملی طور کرے یا نہ کرے۔ اس کو اگر سیاست کا میدان مانا جائے تو پھر رزالت اور قباحت کس کو کہیں گئے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.