اس امر سے پوری دنیا واقف ہے کہ خطہ ارض پر وادی کشمیر واحد ایک ایسا خطہ ہے جو قدرتی حسن و جمال کا پیکر ہے۔ اسی لئے اس وادی کو شاعروں اور فلاسفروں نے اپنا موضوع سخن بنایا ہے اور اس کو دنیوی جنت سے تعبیر کیا ہے۔ اگر چہ وادی موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی باغ و بہار کا منظر پیش کرتی ہے تاہم گزشتہ کئی سالوں سے محکمہ پھول بانی کا تیار کردہ باغ ’’باغ گُلِ لالہ ‘‘ سیاحوں کی خصوصی نگاہ انتخاب کا مرکز بن جاتا ہے اور ہر سال مارچ کے اخیر یا اپریل کے اوائل میں اس باغ کا با ضابطہ افتتاح ہوتا ہے اور بیرون ریاست آنے والے سیاح اس باغ کے حسین نظاروں سے اپنی آنکھوں کو فرحت بخشتے ہیں۔ ہر سال اس باغ کے افتتاح پر محکمہ سیاحت ایک خاص تقریب کا انعقاد کرتا ہے تاہم امسال اس سلسلے میں با قاعدہ کوئی سرکاری تقریب منعقد نہیں ہو سکی کیونکہ انتخابات کے پیش نظر ایسا کرنا محکمہ کیلئے مناسب نہیں تھا۔ باغ گُل لالہ کے پھولوں کی عمر اگر چہ قلیل المدتی ہوتی ہے تاہم ان پھولوں کی مہک اور ان کے دلفریب مناظر دیکھنے والوں کو متاثر کئے بغیر نہیں رکھتے ۔ یہ باغ ایشیا میں پھولوں کے اعتبار سے سب سے بڑا باغ مانا جاتا ہے اس کو دیکھ کر غیر ملکی سیاح ہر اعتبار سے خوشی اور فرحت و سکون کا اظہار کرتے ہیں۔
وادی کشمیر اگر چہ عمومی طور اپنی خوبصورتی میں لا مثال ہے اور یہاں کے قدرتی مناظر انتہائی حسین و جمیل ہیں۔ دنیا کا ہر شخص اس وادی کی سیاحت کیلئے متمنی ہے تاہم گزشتہ کئی دہائیوں سے اس وادی کی طرف سیاحوں کا رخ قلیل ہوتا جا رہا ہے اور آئے دن سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وادی کی اقتصادی پوزیشن میں کافی حد تک سیاحت کا رول رہا ہے تاہم سیاحوں کا کشمیر کا رخ نہ کرنے کیلئے جہاں یہاں کے سیاسی حالات اور مخدوش حالات ذمہ دار ہیں وہیں ملک کی وہ نیوز چینلز بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں جو وادی کی حالت کو ابتر سے ابتر قرار دیتی ہیں۔ ان چینلز کا واحد مقصد یہ ہے کہ سیاح کشمیر کے بجائے دیگر ممالک یا ریاستوں کا رخ کریں تاکہ یہاں کی اقتصادی حالت مزید ابتر ہو جائے اور یہاں کے عوام نان شبینہ کو ترسیں ۔ مرکزی اور ریاستی انتظامیہ کو اس حوالے سے سنجیدگی اور متانت سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زمانہ ماضی کی طرح پھر سے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز وادی کشمیر جنت بے نظیر بن سکے۔