آخر الأخبار

فوجی عدالتیں: ‘سیاسی جماعتیں نہ مانیں تو مدت میں توسیع نہیں ہو گی’

حکومت فوجی عدالتوں کو مزید توسیع دینے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم حزب مخالف کی جماعتیں فی الحال اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ماضی میں ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت کرنے والی یہ سیاسی جماعتیں اب تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سیاسی جماعتوں میں اس معاملے پر اتفاقِ رائے پر منحصر ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں متفق نہ ہوئیں تو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہیں ہو گی۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا ’حکومت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے گی اور اگر اس پر اتفاقِ رائے ہوتا ہے تو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہو گی۔ اگر باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اب توسیع کی ضرورت نہیں ہے تو یہ توسیع نہیں ہو گی۔‘

رینجر

وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ ملک کو فوجی عدالتوں کی اب بھی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فوجی عدالتوں کا قیام غیر معمولی حالات میں ایک غیر معمولی قدم تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں نے کامیابی کے ساتھ ڈیلیور بھی کیا ہے۔ فوجی عدالتوں کی اب بھی ضرورت ہے۔ ہم دہشت گردی کو مکمل شکست دینے کے بہت قریب ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ توسیع ضروری تھی اور اب بھی بہت اچھا ہو گا کہ یہ توسیع دوبارہ دی جائے لیکن ظاہر ہے یہ اس صورت میں ممکن نہیں کہ اگر اس معاملے پر قومی اتفاقِ رائے نہ ہو جیسا کہ قومی ایکشن پلان کے وقت تھا۔‘

واضح رہے کہ پاکستان میں فوجی عدالتیں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت سنہ 2015 میں قائم کی گئیں تھیں۔

یہ عدالتیں ابتدائی طور پر دو سال کی مدت کے لیے قائم ہوئیں تاہم مارچ سنہ 2017 میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نے 23 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان کی مدت میں دو سال کی تو سیع کی تھی۔

پاکستان کی موجودہ حکومت نے بھی ان فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید دو سال توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت نے اس معاملے پر مشاورت کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کا اجلاس 28 مارچ کو طلب کیا تھا لیکن حزب اختلاف کے بائیکاٹ کے بعد یہ اجلاس منسوخ کرنا پڑا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر حکومت کی جانب سے تاحال رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما نفیسہ شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جماعت کا اس معاملے پر موقف بالکل واضح ہے کہ ان کی جماعت ان عدالتوں کی حمایت نہیں کرتی۔

‘ہم ایک متوازی نظام عدل اور کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرتے جو آئین کے دیے گئے بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہو۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ فوجی عدالتیں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں، اس لیے ہم ان عدالتوں کی اُصولی مخالفت کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس معاملے پر بات کرنا چاہتی ہے تو ان کی جماعت ‘ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی وجوہات کے بارے میں حکومتی دلیل سننے کے بعد اس معاملے پر دوبارہ بھی سوچ سکتی ہے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سنہ 2017 میں بھی اس توسیع کی مخالفت تو کی تھی تاہم بعد میں متعلقہ شق کی حمایت کی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکن، سیاستدان اور وکلا شروع سے ہی عدالتوں کو اضافی اختیارات دینے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف بھی ماضی میں ان عدالتوں کو ایک عارضی بندوبست قرار دیتی رہی ہے۔

دوسری جانب سابق حکمراں جماعت مسلم لیگ نواز کے متعدد رہنماؤں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گذشتہ ہفتے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنہ 2015 اور 2017 میں حالات کے پیش نظر فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور اب ‘حکومت کا کام ہے کہ وہ پارلیمان کو مطمئن کرے کہ آج ان عدالتوں میں توسیع کی ضرورت کیوں ہے؟‘

قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے اعداد و شمار کے مطابق وزارت داخلہ نے فوجی عدالتوں کو دہشت گردی کے 700 سے زیادہ مقدمات ارسال کیے تھے جن میں سے 478 مقدمات کے فیصلے کیے جا چکے ہیں اور 284 مجرمان کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.