ایک انگریزی مشہور کہاوت ہے””Give dog a bad name and kill him“ یعنی” کتے کو ایک بُرا نام دو اور پھر اسے مارر ڈالو“۔یہ کہاوت انگریزوں کے ہاںمقبول اور مستعمل ہے۔ لیکن آج کل اِس کا اطلاق برصغیر خصوصاً سرزمین ہندوستان کے معاشرے میں خوب ہوتا ہے۔اِ سی کہاوت کے پیشِ نظر شعوری یا غیر شعوری طور پرہندوستان میں Love Jihad کے نام سے موسوم ایک فرضی اور بے بنیاد اصطلاح وضع کی گئی ۔ Love Jihad کی اس اصطلاح کو وضع کرنے میں دراصل بہت سے محرکات کار فرما ہیں ۔ لیکن اِس میں جو سب سے بڑا محرک ہے وہ اسلام دشمنی کا جیتاجاگتا محرک ہے ۔ ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتوں کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی مسلم کُش فسادات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو چُکا ہے۔ گﺅ رکھشا کے نام پراب تک سینکڑوں واقعات رونما ہو چُکے ہیں کہ جن میں مسلمانوں کو براہِ راست نشانہ بنایا جا تا ہے ۔ گﺅ رکھشا کی ہی آڑ میں گذشتہ چند برسوں سے Love Jihad کو متعارف کیا گیا کہ جس میں اِن فرقہ پرست طاقتوں کا دعویٰ ہے کہ مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے اُنھیں جبراً اسلام قبول کر واتے ہیں ۔
گذشتہ دنوں ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں ہادیہ نامی ایک نو مسلم لڑکی کو بھی Love Jihad سے متاثر ہوئی لڑکی بتایا گیا جو کہ بعد میں معلوم ہواکہ وہ مذہبِ اسلام سے متاثر ہو کر دائرہ اسلامیں آئی تھی۔ اصل میں کیرلہ کی رہنے والی اکھیلا نامی ایک ہندو لڑکی نے چند برسوں سے اسلام کا مطالعہ شروع کر کے اسلام کی دین حق جان کر اسلام قبول کیا اور اپنا نام ہادیہ رکھا۔بعد ازاں ہادیہ کو اسلام قبول کرنے پر طرح طرح کی سختیوں کو جھیلنا پڑا اور بالآخر اُس نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شفیق نامی ایک مسلم لڑکے سے شادی کی ۔لیکن ہادیہ اور شفیق کی اِس شادی کو Love Jihad کا نام دیا گیا اور حد یہ کہ اِس معاملے کو کیرالہ کی ہائی کورٹ تک لیا گیا جہاں پر عدالت نےNIA کو حکم دیا کہ اس معاملہ کی چھان بین کی جائے کہ کہیں یہ دہشت گردی کے ساتھ جُڑا ہوا معاملہ تو نہیں۔ما بعد عدالت نے یہ کہہ کر اس نکاح کو غیر قانونی قرار دیا کہ لڑکی کے والدین اِس شادی کے خلاف تھے اور اس طرح ہادیہ کواپنے والدین کے حوالے کرکے اُسے گھر کی چار دیواریوں میں مقید کر دیا گیا۔ ہم سلام کرتے ہیں ہادیہ بہن کے جذبہ کو کہ جس نے حوصلہ اور ہمت سے کام لے کر عدالت کے سامنے بلا کسی خوف و ڈر کے اسلام میں داخل ہونے کی اپنی کہانی سی آشنا کیا۔ ہادیہ نے کہا اُنھیں اسلام قبول کرنے کے لیے کسی نے نہیں اُکسایا بلکہ خود اسلام کا مطالعہ کرکے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہووہ دائرہ اسلام میں آئیں ۔ مگر افسوس ہادیہ کی اس سچائی ردکیا گیا۔ ( ہادیہ فی الوقت کہاں ہے، اُسے بھی یہاں پر لکھیں)
Love Jihadکے نام پر حال ہی میںراجستھان کے ۔۔۔۔۔علاقے میں میں روح کو تڑپانے والی ایک ویڈو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس مسیں شمھبو بھوانی نامی ایک ہندو مغربی بنگال کے افروز نامی ایک مزدور کو کلہاڑی سے پے در پے وار کر کے اُس ا قتل کرتا ہے اورپھر اُس کی لاش پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیتا ہے اور اس طرح یہ معصوم تڑپ تڑپ کر جل کر راکھ بن جاتا ہے ۔ ۲۲سالہ افروز احمد کا تعلق مغربی بنگال کے مالدہ ضلع سے تھا اور وہ مزدوری کے سلسلے میں راجستھان میں کام کرتا تھا۔شمبو بھوانی نامی یہ ہندو شخص ایک تو بدترین جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اِس کے بعد فوراً بعد اُسی ویڈیو کے آخر میں مسلمانِ ہند سے براہِ راست مخاطب ہو کر مسلمانوں کو دھمکیاں دیتا ہے کہ” تم لوگوں کا یہی حال ہو گا اور ایک ایک کر کے تم سب لوگوں کو مارا جایا گا۔“
اس ویڈیو کو دیکھ کر دردِ دل رکھنے والے ہر انسان کی روح کانپ جاتی ہے،ہر آنکھ اشک بار ہوتی ہے اورہر دل کا نپ جاتا ہے کہ کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار قوم( ہندوستان )میں ایک درندہ صفت انسان ایک معصوم انسان کو بے دردی سے مار ڈالنے کی ہمت کرتا ہے ۔ اور اس پر ستم ضریفی یہ ہے کہ ابھی تک شمبو ناتھ نامی اس دہشت گرد کو گرفتار بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ بلکہ اِسے دماغی مریض قرار دے کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔بلند بانگ دعوے کرنے والا ہندوستانی میڈیا کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے کہ ” دہشت گردی“ کے موضوع پر آئے رو ز Debates کرنے والے والے نیوز اینکرس کو شمبو ناتھ بھوانی سے یہ دہشت گردی نظر نہیں آتی۔وائے حسرتا!
بھارت میںایک منظم طریقے سے اسلام کے خلاف سازشیں رچائی جا رہی ہیں۔ آئے روزکبھی سہ طاق،کبھی گائے کی قربانی اور اب Love Jihad کے نام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ کسی فرد کی ذاتی فکر و سوچ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک ادراہ کام کر رہا ہے۔ایک منظم طریقے سے شدت پسندوں کومسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے اور وہ اسلام مخالف اداروں سے ٹرینگ حاصل کر کے ایسے دلدوز اور انسانیت سوزافعال انجام دیتے ہیں اور ان سارے گھناﺅنے افعال کے پیچھے منظم طاقتیں کام کرتی ہیں۔اِن طاقتوں کو حکومتی سرپرستی اور اعانتیں بھی حاصل ہیں، جبھی تو اِن کے خلاف کوئی کاروائی انجام نہیں دی جاتی اور ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کوئی بھی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جاتا۔ یہاں تو دہشت گردی کو مسلمانوں کی میراث سمجھا جا تا ہے اور کوئی غیر مسلم تخریبانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دیں تو وہ دہشت گرد نہیں کہلاتا۔
گزشتہ برس عالمِ اسلام کے مایہ ناز اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کو ہندوستانی سرکار نے محض اس بات پر دہشت گرد قرار دیا کہ بنگلہ دیش میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں پکڑے گئے افراد ڈاکٹر ذاکر نائک کی اسلامی ویڈیوز سے انسپریشن حاصل کرتے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کو محض اسی بات پر ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا اور گذشتہ ایک برس سے وہ ملک سے دور مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن راجستھان کے شمبھو بھوانی نامی اس دہشت گرد کی فیس بُک پروفاائیل دیکھ کر واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کٹر مذہبی آدمی ہے اور بعض تصاویر میں وہ بابا رام دیو کی ایجاد کردہ یوگا پریکٹس کو بھی عملا رہا ہے ۔ بالفاظِ دیگر وہ با بارام دیو کے افکار و خیالات سے متاثر ہے۔ تو کیا اِس مناسبت سے بابا رام دیو پر مقدمہ دائر نہیں کر نا چاہیے کہ اُن کی یوگا پریکٹس سے لوگوں کو انتہا پسندی کی تعلیم ملتی ہے اور وہ شمبھو بھوانی جیسے بد ترین جرم کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کے قلع قمع کے لیے اقدامات کیے جائیں۔وگرنہ غیر ممکن نہیں کہ فرقہ پرستی کی یہ آگ خود کو سیکولر کہنے والے ہندوستان کو لے ڈوبے گی۔
٭٭٭٭