اُمت مسلمہ کی شدید مخالفت کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔اس طرح امریکا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔امریکہ کے سفارتحانہ کی منتقلی کا عمل 6ماہ میں مکمل ہوگا‘واضح رہے کہ تل ابیب میں اس وقت 86ممالک کے سفارتخانے ہیں، اور اسرائیلی حکومت عالم اقوام سے ہمیشہ یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ تل ابیب کے بجائے یروشلم کو اسرائیل کا درالخلافہ تسلیم کیا جائے۔گزشتہ بدھ کو وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام امریکا کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھاجب کہ اس فیصلے کو ماضی میں اختلافات کا سامنا رہا ہے،امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی بہت عرصے سے رکی ہوئی تھی،متعدد امریکی صدور اس حوالے سے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔انہوں نے کہاکہ یہ ایک اتحادی کو تسلیم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں، یہ وہ کام ہے جو ہونا ضروری تھا۔امریکہ کے اس جانبدارانہ فیصلے کے بارے میں فلسطین کی سب سے بڑی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے نے امریکہ کے لیے جہنم کے دوزاے کھول دیے ہیں۔حماس کے سیاسی امور کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے امید ظاہر کی ہے کہ اسلامی ممالک اپنے اندرونی اختلافات کے باوجود بیت المقدس کے مسئلہ پر امریکا کو ایک بھرپورجواب دیں گے،بیت المقدس فلسطینی عوام اور تمام اسلامی امہ کا اہم مسئلہ ہے، جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے القدس سے متعلق امریکی اعلان کو ٹرمپ کی بڑی احمقانہ مہم جوئی اور جوئے بازی قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ ہر طرح کے تصفیے کا خاتمہ کردے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اوآئی سی اور عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس طلب کرلیے گئے ہیں جس میں مشترکہ حکمت عملی پر غور کیا جائے گا۔میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کے اعلان کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں ہنگامہ آرائی پھوٹ پڑی۔ فلسطین میں پہلے ہی دن ڈیڑھ سو سے زائد افراد جھڑپوں میں زخمی ہوگئے۔ترکی سمیت دنیا بھر میں بھی احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ترکی کے شہر استنبول میں سینکڑوں مظاہرین نے امریکی قونصل خانے کے باہر جمع ہوکر امریکا کے خلاف نعرے باری کی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے اپنے بیان میں ڈھکے چھپے الفاظ میں صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یروشلم شہر کے تنازع کو بہر صورت اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ اُن کا ملک امریکا کے یک طرفہ فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا،یہ فیصلہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف جاتا ہے،ٹرمپ کے اقدام کے نتائج خطرناک ہوں گے۔مصر نے امریکی صدر کے اعلان کو سختی سے مسترد کردیا ہے، البتہ کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی اور اسرائیل کو درپردہ طور پر مصر کے جنرل السیسی کی حمایت حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل مصری فوجی ڈکٹیٹر عبدالفتح السیسی نے ایک اہم بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مصرف عنقریب صدی کا سب سے اہم اور بڑا فیصلے لینے والا ہے جس سے خطہ کا سیاسی نقشہ ہی تبدیل ہوگا۔ السیسی کے اس بیان کو بیت المقدس کے بارے میں لیے گئے امریکی فیصلے کے ہی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ چین نے امریکا کو انتباہ کیا ہے کہ امریکی صدر کے فیصلے سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ترکی کے صدر طیب اردگان نے امریکی صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کا اقدام مسلمانوں کے لیے سرخ لکیر کی مانند ہے ٹرمپ اس لائن کو عبور کرنے کی کوشش نہ کریں، یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانیت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔رجب طیب اردگان نے اس حوالے سے او آئی سی کا اجلاس طلب کرنے پر زور دیا تاکہ اسرائیل کو اس معاملے میں مزید پیش رفت سے روکا جاسکے۔
نیویارک ٹائمز میں گزشتہ دنوں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق فلسطینی صدرکے دورۂ سعودی عرب کے دوران سعودی شاہ زادہ محمد بن سلمان نے اُن کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ وہ ابو دِس نامی دیہات کو مقبوضہ بیت المقدس کے بجائے اپنا دارالخلافہ بنائیں۔خبروں کے مطابق سعودی عرب نے محمود عباس کو اس پرپوزل پر غور کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا ہے اور صرف ایک ماہ کی مدت گزر جانے کے بعد ہی امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا درالخلافہ قرار دیا ہے۔تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان امریکی اور اسرائیلی حلقوں کے اثر و رسوخ میں ہونے کی وجہ سے ہی محمود عباس کو اس بات کے لیے قائل کرنے کے لیے جی توڑ کوششیں کررہے ہیں کہ وہ بیت المقدس سے دستبردار ہوکر ابو دِس نامی دیہات کو فلسطین کا دارالخلافہ بنانے پر راضی ہوجائیں۔امریکی فیصلہ پر بظاہر سعودی عرب ، مصر اور دیگر پڑوسی ممالک نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن عام خیال یہی ہے کہ خطے میں سوائے ترکی کے کوئی بھی ملک اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ محض عوامی موڈ اور اُمت مسلمہ کی بیت المقدس سے مذہبی وابستگی کی وجہ سے بیانات کی حد تک ہی فیصلے کی صرف مذمت کی جاتی ہے۔ یہ ممالک امریکہ اور اسرائیل کی اس ملی بھگت کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کریں گے ایسا دکھائی نہیں دیتا ہے۔البتہ امریکہ اپنے حق میں ان ممالک سے کچھ زیادہ ہی تعاون کی اُمید کرتا ہے۔ امریکی نائب صدرمائیک پینس کے مجوزہ دورہ فلسطین کے حوالے سے فلسطینی حکام نے اُن کا استقبال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نیز صدر محمود عباس سے اُن کی ملاقات بھی منسوخ کردی گئی۔ فلسطینی حکام کی جانب سے اس احتجاجی اقدام پر امریکی دھمکیوں پر اُتر آئے اور صدر محمود عباس کی امریکی نائب صدر کے ساتھ ملاقات نہ کرنے پر اُنہیں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دے ڈالی۔
یروشلم کی سرزمین بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ کی امین ہے۔ یہ وہ گھر ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اس مقدس سرزمین کی بازیابی کے لیے مسلمان دہائیوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔ نہ صرف فلسطینی مسلمان بلکہ عالم اسلام کے کونے کونے سے مسلمان اس سرزمین کی بازیابی کے لیے ہر وقت قربانیاں دینے کے تیار ہیں۔ ترکی کے صدر نے سچ کہا ہے کہ امریکہ اب ریڈ لائن کو عبور کررہا ہے۔ آج تک اُمت کے خلاف جتنے بھی وار امریکہ اور اُن کی حلیف طاقتوں نے کیے ہیں ، اُن میں اگر چہ محض دین اسلام کی وجہ سے ہی مسلمانوں کا ٹارگٹ بنایا جاتا رہا البتہ نام عالمی مسائل کا لیا جارہا ہے۔ کبھی نام نہاد دہشت گردی کا بہانہ بنایا گیا تو کبھی کویت پر عرقی حملے کی آ ڑ میں اُمت مسلمہ پر آگ برسائی گئی۔ مسلمان عراق سے لے کر افغانستان تک، شام سے لے کر مصر، لیبیا اور پاکستان تک امریکی جارحیت کا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا، ظلم سہتا رہا اور آگے بڑھتا رہا۔ لیکن اب براہ راست امریکی اور صہیونی طاقتیں مسلمانوں کے عقیدے پر حملہ آور ہونے کی کوششیں کررہے ہیں۔ اب وہ سرخ لائن عبور کرکے مسلمانوں کے لیے جان کی بازی لگانے کے سوا کوئی راستہ ہی باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ بے شک ان اسلام دشمن طاقتوں کو مسلم حکمرانوں کا ساتھ رہا ہے، کئی پر بادشاہ اپنی عیاشیوں کے چکر میں امریکی تلوے چھاٹ رہے ہیں تو کئی پر آمریت کے سیاہ سانپ صہیونی اور صلیبی طاقتوں کے بجائے ہوئے بین پر رقص کررہے ہیں ، لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اُمت مسلمہ کا سواد اعظم اُٹھ کھڑا ہو رہا ہے، تحریکات اسلامی دنیا بھر میں کشمکش کے اس مرحلے پر آکھڑی ہوئی ہیں جہاں عوام الناس کے پاس اُن کے ساتھ کھڑا ہونے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا ہے۔ وہ وقت قریب آرہا ہے جب بادشاہوں کے آرام طلبی اور عیاشی اُن کے لیے شداد کی جنت ثابت ہوگی ، جب جنرل عبدالفتح السیسی جیسے آمر کے لیے زمین تنگ پڑ جائے گی۔اورمسلمان ایمان کی دولت سے مالا مال ہوکر بے تیغ ہوکر بھی جابر وں اور ظالموں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرکے اُنہیں شکست فاش سے دوچار کریں گے۔ یہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کے امتحان کا وقت ہے۔ اُن کے پاس دو راستے ہیں، اپنے آپ میں ایمانی قوت پیدا کرکے اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے چٹان کی طرح کھڑا ہوکر اُنہیں بیت المقدس کو ہڑپ کرنے سے بار رکھیں یا پھر اپنی موجودہ روش پر قائم رہتے ہوئے اُس وقت کا انتظار کریں جب اُنہیں بھی خلیفہ معتصم باللہ کی طرح بوریوں میں باندھ کر گھوڑوں کی پیروں تلے روندا جائے گا۔
یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دینے کے امریکی فیصلے سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ کسی بھی مرحلے پر اپنے اصولوں اور بنیادی مؤقف سے ہٹ کر اسلام دشمن طاقتوں سے سمجھوتہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ ایسے سمجھوتے مسلمانوں کے اجتماعی نقصان کا سبب بن جاتے ہیں اور اُمت کی صفوں میں غداروں اور مصلحت پسندوں کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ فلسطین کی پی ایل او نے گزشتہ دو دہائیوں سے مفاہمت کا راستہ اختیار کرلیا تھا، اُنہوں نے امریکہ اور اُن کی حلیف طاقتوں پر بھروسہ کرکے اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ ختم کردی۔ مرحوم یاسر عرفاف کے بعد موجود فلسطینی صدر محمود عباس نے مغرب اور اُن کے عرب حواریوں کے کہنے پر نہ صرف اسرائیلی اور امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا بلکہ مسجد اقصیٰ اور یہودیوں کے درمیان چٹان کی طرح حائل ہونے والی عزہ کے عوام اور حماس کو بھی حد سے زیادہ تنگ طلب کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ حماس کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ بنیادی مسئلہ یعنی بیت المقدس کی آزادی کے ساتھ کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا، اپنے اس مؤقف پر ڈتے رہنے کی راہ میں اُنہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہودیوں نے بڑی ہی بے شرمی کے ساتھ گزشتہ سات سال سے غزہ کا محاصرہ کررکھا ہے۔ غدائی اجناس اور دوائی تک وہاں لے جانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اس عمل بد میں اُن کا ساتھ بدنام زمانہ فوجی آمر جنرل عبدالفتح السیسی بھی دے رہا ہے لیکن غزہ کے اِن غیور عوام اور حماس کے جیالے مجاہدین نے اپنی ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرکے ہمیشہ عزیمت کی راہ اختیار کرلی۔ اُنہوں نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا پر واضح کر دیا کہ بھلے ہی سامنے والا کتنا ہی طاقتوں کیوں نہ رکھتا ہو، اصولوں اور سچائی کے سامنے ہمالیہ جیسے اونچی طاقتیں بھی حقیر دکھائی دیتی ہیں۔آج محمود عباس اور اُن کی جماعت پی ایل او کو بھی اس بات کا احساس ہوا گا کہ بھلے ہی امریکہ اور یہودیوں کے سامنے کتنی ہی لچک کیوں نہ دکھائی جائے یہ لوگ اپنے ناپاک منصوبوں میں رنگ بھرنے سے باز نہیں رہتے ہیں۔جن عرب حکمرانوں نے حماس کو ختم کروانے کے لیے اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپائی تھی، ۲۰۱۴ء میں جن بادشاہوں نے غزہ میں بم اور بارود برسانے کے لیے اسرائیل کی فنڈنگ کی تھی اُنہوں نے اگر آج بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے دل مردہ اور سیاہ ہوچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں راہ ہدایت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فلسطینیوں کا پانچواں انتفادہ بجا ہے، عالم اسلام کا غصہ بھی جائز ہے۔ دنیا بھر میں امریکیوں اور یہودیوں کے مفادات کو زک پہنچانے کی خاطر اگر مسلمان ملک اور عوام اقدامات کریں گے تو اس کا بھی جواز بنتا ہے کیونکہ جب ہماری مقدس سرزمین پر ہی جابرانہ قبضہ کیا جائے گا ، جب ہمارے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جائے گا تو پھر تمام طرح کے دنیاوی نام نہاد اصول بالائے طاق ہی رکھے جاتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کو اپنے حقوق اور اپنی سرزمین کی بازیابی کے لیے اُس آخری معرکہ آرائی کے لیے تیار ہوجانا چاہیے جس کی پیشن گوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل کی تھیں۔