مولانا عبید اللہ سندھی۔۔۔ حالات،تعلیمات اور سیاسی افکار

مولانا عبید اللہ سندھی۔۔۔ حالات،تعلیمات اور سیاسی افکار

مغل بادشاہ اکبر برصغیر کی تاریخ میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے جسے مغرب اور برصغیر کے مسلم اور غیر مسلم مورخین نے مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے اکبر کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رجحانات اور فیصلوں پر ایک غیر جانبدار وضاحت کی ہے کہ اس کے اقدامات اپنے وقت کے تناظر میں کتنے اہم تھے۔ مولانا سندھی کے یہ افکار پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھی: حالات، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ سے لیے گئے ہیں۔پروفیسر سرور،مولانا سندھی کے قریب رہے اور ان کے افکار کو زیور تحریر عطا کیا ہے۔یہ کتاب سندھ ساگر اکیڈمی لاہور نے شائع کی ہے۔  

اکبر ایک اولوالعزم بادشاہ تھا، اس کے حوصلے بڑے اوردل ان سے بھی بڑا تھا۔ قدرت نے اسے غیرمعمولی صلاحیتیں عطاکی تھیں اوراس جیسی طبیعت والے بادشاہ کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ کسی دوسرے کا دبیل بن کر رہے۔ اکبرکے سرپرجب تاج رکھا گیا تو اس کی عمربارہ برس کی تھی، چنانچہ اس کا اتالیق بیرم خان ہی سلطنت کے سیاہ و سفید کا مالک بنا، لیکن اکبرجب جوان ہوا اوراس کی فطری استعدادوں کے بروئے کار آنے کا وقت آیا تواس نے محسوس کیا کہ اگر وہ اپنے ہم قوم تورانیوں کے بھروسے پررہا تو اس کا بھی وہی حشر ہو گا جو اس کے باپ کا ہوا تھا۔ ایرانی اثر دربار میں پہلے موجود تھا اوربیرم خان کی علیحدگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ایرانیوں کے عمل دخل کو کم کیا جائے۔ اس لیے ادھر سے متنبہ رہنا ضروری تھا۔ ہندوستانی تو مغلوں کو غیرسمجھتے تھے۔ پانی پت میں ہندوستانی مسلمان ابراہیم لودھی کے جھنڈے تلے بابرسے لڑے اورآگرہ کے پاس ہندوؤں کی طرف سے رانا سانگانے جنگ کی۔ بابر اس وقت ہندوستانیوں کے مقابلے میں گوکامیاب ہوا، لیکن انھوں نے بعد میں اس کے بیٹے ہمایوں کو ہندوستان سے بھاگ کرجان بچانے پر مجبورکیا۔ اس کے بعد جب ہمایوں پھرہندوستان پرحملہآورہوا اوراس کے مرنے کے بعد اکبرکو دہلی کا تخت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے لڑنا پڑا تو پانی پت کے میدان میں پٹھان اور راجپوت ایک ہندو سپہ سالارکے ما تحت لڑنے کو نکلے تھے۔ مختصراًسارے کے سارے ہندوستانی، کیا پٹھان اورکیا راجپوت مغلوں کو اجنبی اور دشمن سمجھتے تھے۔ گواکبرنے ہیمو بقال کو شکست دے کر دہلی کی سلطنت حاصل کرلی تھی، لیکن ہروقت اس کا امکان تھا کہ جس طرح ہندوستانیوں نے شیرخان کی ماتحتی میں اکبرکے باپ کو ملک سے نکال باہرکیا تھا۔ اس طرح وہ دوبارہ اکبرکو بھی تخت وتاج سے محروم کرسکتے تھے اور خاص طورپر جب اکبرکے ہم قومی تورانی آئے دن بغاوتوں پرآمادہ ہوں اور ایرنیوں سے بھی ایک حد تک بُعد ہو چکا ہو، نیزہندوستان کے ہمسائے میں ان کی اپنی ایک آزاد سلطنت ہو۔ اکبر کو ان حالات سے سابقہ پڑا۔ بے شک وہ بابر سے کم تیغ آزمانہ تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ اگر تیغ آزمائی کے ساتھ ساتھ سلطنت کی بنیادیں مستحکم اورپائیدار نہ بنائی جائیں تو سلطنت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اکبر اگر صحیح معنوں میں بڑا بادشاہ نہ ہوتا تو ان حریف قوتوں کے مقابلے میں سپرڈال دیتا ۔لیکن اس کی قسمت میں توہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے نظام کا ڈول ڈالنا لکھا تھا اورخدا نے اس کو اس بڑے کام کی پوری صلاحیت بھی دی تھی۔ چنانچہ اکبرنے اس عہد کے تاریخی تقاضوں کو پورا کرنے کی ہمت کی۔ اس وقت ہندوستان میں ضرورت تھی ایک ایسی سلطنت کی جو ہندوؤں کو، جن پر ملک کی بیشترآبادی مشتمل تھی اور جن میں اب سیاسی بیداری اور قومی شعور پیدا ہو چلا تھا، اپنا سکتی۔ وہ ہندوستان میں آباد کار مسلمانوں کو بھی مطمئن کرتی اور بابر اور ہمایوں کے ما تحت جونئے عنا صر ملک میں آگئے تھے ان کو بھی ساتھ ملاتی۔ اگر خلجیوں اور تغلقوں کی طرح محض فوجی طاقت کے زور پر نئے عناصر حکومت کرنا چاہتے تو ہندواور ہندوستانی مسلمان مل کر ان کو ہمایوں کی طرح سلطنت سے بے دخل کرسکتے تھے اور اگر ہندوؤں کو حکومت میں شریک نہ کیا جاتا تو ان کی ریشہ دوانیوں سے کبھی چین نصیب نہ ہوتا، کیونکہ اب ہندوستان کی سیاسی حالت ایسی تھی کہ ہندوؤں کو ناراض کرکے اس ملک میں امن قائم کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
ہندوستان کا یہ تاریخی دورایک ایسے نظام کا تقاضا کرتا تھا جو ہندوؤں، ہندوستانی مسلمانوں اور مغلوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کرتا، اس وقت جس طرح ہندوؤں اورمسلمانوں کے میل ملاپ سے ایک متحدہ کلچربن رہا تھا اور ایک مشترکہ زبان کی بناپڑرہی تھی، نیزہندوؤں میں بھگت کبیراور گورونانک ایسے مصلح پیدا ہو رہے تھے جو دونوں قوموں، دونوں تمدنوں اور دونوں مذہبوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کوشاں تھے، اسی طرح سلطنت اور سیاست میں بھی ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جو دونوں قوموں میں مشترک ہوتا، وہ اسلامی بھی ہوتا، ہندوستانی بھی ہوتا اورظاہرہے آزاد بھی ہوتا۔ چنانچہ اکبرپہلا مسلمان فرماں رواہے جس نے اس ملک میں آزاد اسلامی ہندوستانی سلطنت کی بنیاد رکھی جو نہ ایران کی حلقہ بگوش تھی اور نہ عثمانی سلاطین کے تابع۔ یہ مسلمانوں کی قیادت میں ہندوستان میں قومی حکومت کی تشکیل تھی اوراسلام کے اصول وقوانین کے اندرہندوستانی قومیت اوراس کے تمدن اور تہذیب کو زندہ کرنے کی کوشش۔
اس وقت کوئی ہندوستانی حکومت خواہ اس کا اقتدارکلیۃً مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں ہوتا، غیرمسلم ہندستانیوں کو شریک کیے بغیرنہیں بن سکتی تھی۔ اکبرنے راجپوتوں کو اپنے ساتھ ملایا، حاکم محکوموں کو زورِبازو سے بھی اپنے ساتھ ملاسکتے تھے، لیکن یہ ملاپ اوپرے دل سے ہوتا اور دیرپا نہیں ہوتا۔ اکبرنے راجپوتوں کے دلوں کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، اس نے راجپوتوں سے ناطہ جوڑا، ان کی بعض رسمیں قبول کرکے ان کو اپنے سے قریب کیا، ہندوؤں سے جزیہ لینا بند کردیا اور وحدت الوجود کے عقیدہ کو اپنے نئے فکر کی بنیاد پرقرار دے کریہ واضح کردیا کہ صداقتیں سب مذاہب میں ہیں۔ اورایک ہی منبع سے ہرقوم کو رشد و ہدایت کی نعمتیں ملتی رہی ہیں۔ اکبرکی یہ باتیں محض سیاسی مصلحت کی بنا پرنہ تھیں۔ وہ دل سے بھی ان کا قائل تھا۔ فیضی اور ابوالفضل نے اکبرکوان باتوں کے سچا ہونے کا پورا یقین دلایا تھا اوروہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ اس کے مسلک سے اسلام کو گزند نہیں پہنچے گا۔
اکبرکا دینِ الٰہی کیا تھا؟ اس کے متعلق اس عہد کے مؤرخ ملا عبدالقادربدایوانی نے بہت تفصیل سے لکھا ہے، ملا صاحب بڑے سخت گیرمؤرخ ہیں، ہمیں یہاں ان کے بیانات کی تردید مقصود نہیں لیکن ہمارے خیال میں ملا صاحب نے اکبرکے ان واقعات کو سطحی نظرسے دیکھا ہے اورانھوں نے زیادہ تعمق سے کام نہیں لیا۔ خود ہمارے زمانے میں مصطفیٰ کمال کی ایک مثال موجود ہے، مرحوم کی بے دینی اورالحاد کے متعلق کئی عینی شواہد پیش کیے جاتے ہیں اور ایک نہیں سینکڑوں کتابیں اس قسم کے واقعات سے پُرہیں، لیکن دیکھنے والوں میں بھی بڑافرق ہوتا ہے۔ مصطفیٰ کمال کو ترکی میں ایک نئے دورکا آغاز کرنا پڑا۔ اگروہ ایسا نہ کرتا تو ترکی کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ترکی قوم کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتا اورمخالف قومیتیں اسے ابھرنے کا موقع نہ دیتیں۔ مصطفیٰ کمال نے نئے دورکی داغ بیل ڈالی جو اسے طرزنوکا حامی نظرآیا، اسے اپنے ساتھ ملایا، جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی ان کو اوران کی ہرچیز کو مردودقراردیا۔ ممکن ہے کہ اس کے معاون اپنے ساتھ بری عادتیں بھی لائے ہوں ، لیکن چونکہ ضرورت مددگاروں کی تھی، اس لیے انھیں قبول کرلیا گیا۔ اسی طرح اکبرکو بھی اپنے نئے مسلک کے لیے حمایتی چاہئیں تھے، وہ اسے جس گروہ سے بھی ملے اس نے انھیں اپنے ارد گرد جمع کرلیا اور ان سے ا پنا کام چلایا۔
جب کسی نئے فکرپرعمل ہوتا ہے تو شروع میں بعض دفعہ بڑی گڑبڑہوتی ہے، فکرخواہ کتنا واضح اورصاف ہی کیوں نہ ہو لیکن چونکہ اکثرکام کے لیے موزوں آدمی میسرنہیں آتے، اس لیے اس پربالعموم نہایت بے ڈھنگے پن سے کام ہوتا ہے اوراکثراوقات اس سے عجیب خلفشارسا پیدا ہوجاتا ہے۔ اکبر کا دوراس قسم کے خلفشارکا دورہے، لیکن اکبرکے بعد بھی اکبرکی سیاست پربرابر عمل ہوتا رہا۔ چنانچہ زمانے کے ساتھ ساتھ اکبری عہد کی فروگذاشتوں کی بھی اصلاح ہوتی گئی، جہانگیرکے بعد شاہجہاں کا عہد آیا، تو ہندوستان کی سلطنت اپنے پورے عروج پرپہنچ چکی تھی۔ یہ سلطنت نمونہ تھی اس زمانے کے سرمایہ دارانہ نظام کے کمال کا۔ اس نظام میں بیرونِ ہند کے اسلامی اثرات، نومسلم ہندوؤں کے اثرات اورمطیع ہندوؤں کے اثرات سب جمع ہوگئے تھے۔ البتہ ہندوؤں کی ایک جماعت جو تقریباًنہ ہونے کے برابرتھی اور اپنے قدیم نظام پرمستقل مزاجی سے اَڑی ہوئی تھی، وہ اس نئے ہندوستانی نظام کی برابرمخالف رہی۔ واقعہ یہ ہے کہ اگراکبراس نظام کی داغ بیل نہ ڈالتا توجہانگیر، شاہجہان اور اورنگ زیب کے عہد میں ہندوستانی تہذیب نے تعمیر، سیاست، فن اورعلم کی دنیاؤں میں جو معجزات دکھائے وہ کیسے ظہورپذیر ہوتے۔ ان فرمارواؤں کی عظمتیں درحقیقت اکبراعظم کی عظمت کا نتیجہ ہیں۔
اکبری عہد کی غلطیاں ایسی غلطیاں نہ تھیں جو بے علمی یا جہالت کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔ پرانی ڈگرکو چھوڑکرنئی راہ پرچلنے والے کے سامنے ظاہرہے ہموار راستہ نہیں ہوتا، وہ اپنی راہ خود بناتا ہے۔ کیونکہ زمانے کی ضرورتیں اسے مجبورکرتی ہیں اورحالات اس کے متقاضی ہوتے ہیں۔ بعد میں آنے والوں کو چونکہ بنے بنائے نقشے ملتے ہیں اس لیے ان نقشوں کو بناتے وقت جو اِدھراُدھرخطوط کھینچے گئے تھے ان کو وہ غلط کہہ کراپنی فرزانگی کا ثبوت دیتے۔ وہ غلطی سے سمجھ لیتے ہیں کہ پہلے بیوقوف تھے۔ انھوں نے ایسا نہ کیا، ہم ہوتے تو یوں کرتے۔ اکبرکے معترضین کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، وہ اکبرکو اس کے حالات اورماحول سے الگ کرکے دیکھتے ہیں، انھیں اس کی مشکلات کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔اس لیے وہ اس کی شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتے۔
اکبرنے راجپوتوں میں اپنے نئے حلیف بنائے اورسکندرلودھی اورشیرشاہ سے زیادہ ہندوؤں سے رعایتیں کیں۔ اکبردیکھ چکاتھا کہ ہندوستانیوں کو اپنا بنائے بغیرمغل اس ملک پرحکومت نہیں کرسکتے۔ سیاسی روابط ہوں تولامحالہ ذہنی ملاپ کا بھی ہونا ضروری ہوتاہے۔ اکبرکے اس کام میں شیخ مبارک اور ان کے دونوں بیٹوں فیضی اور ابوالفضل سے بڑی مدد ملی، چنانچہ اس سیاسی اتحاد کے لیے مشہورصوفی بزرگ شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی کے عقیدہ وحدت الوجود کو فکری اساس بنایا گیا۔ وحدت الوجود کا یہ فکرمسلمانوں کے حکمران طبقوں میں پہلے سے موجود تھا اور تصوف کی وجہ سے اسے بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ ہندوؤں کے ہاں بھی یہ فکرتھا۔ اس اشتراک ذہنی کو اکبری سیاست کی اساس مانا گیا اورمذہب اسلام کی برتری جو اب تک حکومت کا دستور تھی اورغیرمسلم اس حکومت میں برابرکے شریک نہ تھے، اس کے بجائے اسلام بحیثیت ایک دین کے توبرابراوراعلیٰ ہی تسلیم کیا گیا لیکن حکومت کا دین پہلے کی طرح اسلام نہ رہا۔ اکبراب صرف مسلمانوں کا بادشاہ نہ تھا بلکہ سارے ہندوؤں کا فرماں رواتھا اورساری رعایا بادشاہ کی نظروں میں یکساں اورمساوی تھی۔
وحدت الوجود کے عقیدے کے یہ معنی ہیں کہ سارے مذاہب ایک ہی صداقت کی مختلف تعبیریں ہیں، فرق صرف شکلوں کا ہے، اب یہ مانا کہ اصل دین ایک ہی ہے لیکن اس کا پتا کیسے چلایا جائے کہ اصل دین کیا ہے۔ اورپھروہ کون سی صداقت ہے جس کی یہ تعبیرہیں۔ اور وہ اصول و مبادی کیا ہیں، جو سب مذاہب میں مشترک ہیں۔ شیخ ابن عربی اور ان کے پیروؤں کے نزدیک اسلام ہی اس سچائی کا معیار ہے، یہی ایک کسوٹی ہے جس پر سب دین پرکھے جاسکتے ہیں اورتمام مذاہب میں اس کی حیثیت ایک میزان کی ہے، وحدت الوجود کو اس طرح ماننے سے نعوذ باللہ اسلام کی برتری کا انکارلازم نہیں ہوتا، بلکہ اس سے اسلام کی حقانیت اوراجاگرہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ اکبرابن عربی جومسلمانوں میں اس فکرکے بانی اور مبلغ ہیں ، ان کی اپنی زندگی ، اتباع حدیث کا نمونہ تھی۔ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں کہ ہرحقیقت جو خلاف شریعت ہو، گمراہی ہے۔
یہ ہے عقیدہ وحدت الوجود کی اصل حقیقت جس پراکبرکے نئے رجحان فکرکی، جسے دین الٰہی کا نام دیا گیا، بنا پڑی۔ اس ضمن میں اکبرنے جوسیاسی مسلک اختیار کیا، وہ بھی کچھ تشریح چاہتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اکبر سے پہلے ہندوستان میں جہاں تک اصول کا تعلق ہے مسلمانوں کی بحیثیت ایک مذہبی گروہ کے حکومت تھی، جو شخص بھی مسلمان ہوتا قانوناً اس مذہبی حکومت کا رکن سمجھا جاتا۔ غیرمسلم کی حیثیت اس میں ذمی کی ہوتی۔ یعنی وہ جزیہ دے کراس میں رہ سکتا تھا۔ بے شک انصاف پسند بادشاہ رعیت کے ہرفرد سے برابرانصاف کرتے تھے لیکن جہاں تک نظام حکومت کا تعلق تھا، وہ مذہبی تھا اورغیرمسلم اس میں ثانوی حیثیت رکھتے۔ اکبرکی کوشش یہ تھی کہ وہ اس مذہبی حکومت کو دنیوی حکومت میں تبدیل کردے، دوسرے لفظوں میں اکبرنے یعنی ایک خاص مذہبی گروہ کی حکومت کے بجائے ریاست کو ملک میں تمام بسنے والوں کی نمائندہ اورترجمان بنانے کے تصورکو جس پریورپ میں انقلاب فرانس کے بعد عمل ہوا اور اسلامی ملکوں میں آج اس کو دستوری حیثیت دی جا رہی ہے، سولہویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں نافذ کیا۔
اکبرکا یہ اقدام بُرا تھا یا اچھا۔ اس کا اندازہ آپ اس زمانے کے حالات سے لگائیے۔اکبرکے ہم عصر عثمانی سلاطین کا ذکرہے کہ ان کی ایران کے حکمرانوں سے سخت خون ریزجنگیں رہتیں، اتفاق سے عثمانی ترک سنی تھے اورایران کی حکومت کا مذہب شیعہ تھا۔ چنانچہ ترکی اور ایران کی جنگ سنی اورشیعہ کی جنگ بن گئی۔ اوراس سے مسلمانوں کے ان دونوں فرقوں میں اتنی منافرت پیداہوگئی کہ ایک دفعہ سلطان سلیم عثمانی نے اپنی رعایا کے ایک بہت بڑے گروہ کو جس کی تعداد کئی ہزار تک پہنچی تھی، محض اس بناپرقتل کرادیا کہ وہ شیعہ تھے اور سنی حکومت ان پراعتماد نہ کرسکتی تھی۔ صفوی شیعی فرماں رواؤں نے بھی سرزمیں ایران کو سنیوں سے پاک کرنے میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی۔ اسی طرح اس زمانے میں یورپ کے کسی ملک میں اگر حکمران کیتھولک فرقے کا ہوتا تو پروٹسٹنٹ کی شامت آ جاتی اور اگر کہیں پروٹسٹنٹ برسراقتدار آجاتے توکیتھولک پربے پناہ مظالم توڑے جاتے۔ الغرض اس وقت یورپ میں کیتھولک اورپروٹسٹنٹ، مشرق وسطیٰ میں شیعہ، سنی اورادھرہندوستان میں شیعہ سنی کے علاوہ ہندوؤں اورمسلمانوں کا جھگڑا تھا۔ اکبریہ چاہتا تھا کہ ملک کی سب رعایا بلاتمیزمذہب وملت حکومت کواپنا سمجھے اورایک گروہ دوسرے مذہبی گروہ پرجبرواستبدادنہ کرسکے اورنہ مذہب کی بناپران پراپنی حاکمیت وبرتری جتلائے۔بعد میں یورپ والوں نے تو ان مذہبی نزاعات کا یہ حل نکالا کہ حکومت کو مذہب سے بالکل بے تعلق کردیا۔ ان کے ہاں آہستہ آہستہ حکومت کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا کہ مذہب سمٹ سمٹا کرصرف شخصی زندگی تک محدود ہوگیا۔ لیکن آخر شخصی زندگی بھی کسی نہ کسی حد تک تواجتماعی زندگی ہی کا پرتوہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں انسانوں کی عملی زندگی میں مذہب کا وجود اورعدم وجود یکساں ہوکررہ گئے، جب عمومی زندگی اخلاقی ضابطوں سے آزاد ہوگئی اورفردقومی اخلاق کے شکنجے میں کسا گیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ معاملہ کرنے میں کسی ایسے اصول اورقواعد کی پابندی نہ رہی، جودونوں میں مشترک ہوتے ہوئے اوردونوں اسے احترام کی نظروں سے دیکھتے۔ مذہبی نزاع کو مٹانے کا یہ طریقہ لابدی طورپرمذہب کو سرے سے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اورمذہب کو انسانوں کی زندگی سے ناپید کرنا ان کی مشکلات کو کم نہیں کرتا۔ بلکہ ان مشکلات میں اور اضافہ کرتا ہے کیونکہ ایک فرد پرتو وہ جماعت جس میں وہ رہتا ہے، داروگیرکرسکتی ہے اورجماعت پرکل قوم کے اخلاقی ضابطے اثرانداز ہوسکتے ہیں، لیکن قوموں کو آپس میں معاملات میں کسی اصول کا پابند بنانے کے لیے ایسے اخلاقی ضابطوں کی ضرورت پڑتی ہے جو سب قوموں میں مشترک ہوں۔ سب قومیں ان کی صداقت کو تسلیم کرتی ہوں اورسب کا ان پراتفاق ہوسکتاہو۔
اہلِ یورپ نے رعایا کے مذہبی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے سیاست کا رشتہ مذہب سے بالکل قطع کردیا، ان کے برعکس اکبرنے ان نزاعات کو سلجھانے کے لیے مذہب کا انکارنہیں کیا، بلکہ الٹا اپنی سیاست کی بنیاد مذہب پررکھنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ مذہب کسی ایک گروہ، جماعت یا قوم کا مذہب نہ تھا بلکہ اس کے نزدیک یہ مذہب تھا اپنے وسیع ترین معنوں میں اور اپنی عمومی حیثیت کے اعتبارسے۔ اس مذہب سے مراد انسانیت کے وہ اخلاقی اصول تھے جو سب مذاہب میں موجود ہیں اور اس کی بنیاد یہ خیال تھا کہ ہرقوم کو ایک ہی سرچشمہ ہدایت سے وقتاً فوقتاً خدا کا پیغام ملتا رہا۔ گو مر ورِزمانہ کی وجہ سے بعد میں لوگوں میں اس پیغام کی شکلیں مسخ کردی ہیں، لیکن پھربھی ان میں اصل کا پتا مل سکتا ہے۔ یہ ہے اکبرکے دین الٰہی کا تصوراوراسی کواکبرنے سلطنت کا مذہب بنانے کی کوشش کی۔
ممکن ہے اس سے کسی کو یہ غلط فہمی ہوکہ ہمارے نزدیک مذہبی حکومت مذموم ہے اور اس کے مقابلہ میں دنیاوی حکومت کو ہم بہترسمجھتے ہیں، دراصل یہاں مذہبی حکومت اور دنیاوی حکومت کا مقابلہ یا ایک کو دوسرے پرترجیح دینا مقصود نہ تھا۔ مذہب میں جب تک کہ انقلاب کی روح باقی رہتی ہے، اس کی بنیادوں پرجوبھی حکومت بنے وہ بہترین حکومت ہوتی ہے۔ اس قسم کی مذہبی حکومت کے ارکان اورکارکنوں کی زندگیوں میں چونکہ نئے مذہب نے ایک انقلابی روح پھونکی ہوتی ہے اس سے وہ اس روح کو عام کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے میں غیرمعمولی جوش وخروش سے سرگرم کاررہتے ہیں۔ ان کا نصب العین حکومت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسے’’ محض اعلائے کلمۃ الحق‘‘ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس طرح کی حکومتیں ہرانقلاب کے بعد معرضِ وجود میں آتی ہیں، گو ان کی عمرزیادہ نہیں ہوتی لیکن ان کا اثربعد میں صدیوں تک اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ ان حکومتوں کو مذہبی حکومتیں کہہ لیجیے یا انھیں انقلابی حکومتوں کا نام دیجیے، بہرحال ان کے اچھا ہونے سے کون سا صحیح العقل انسان ہوگا جو انکارکرے، لیکن جب مذہب کسی ایک جماعت یا مخصوص قوم کا اجتماعی دین بن جائے اوراس میں خود کو بدلنے اوردوسرے کو تبدیل کرنے کا جنون یا انقلابی جذبہ سرد پڑجائے، اس وقت اس مذہب کے ہاتھ میں زمام اقتداردے دینا دراصل قوم کے رجعت پسند طبقہ کو حکومت سونپ دینا ہوتا ہے۔ اور رجعت پسند طبقہ کی حکومت اور پھرجب وہ مذہب کا نام لیوا بھی ہو، خدااس کے شرسے ہرقوم کو مامون رکھے۔
جب مذہب اس طرح سے رجعت کا پشتیبان بن جائے اورترقی دشمن طبقے اس مذہب کی پناہ ڈھونڈیں، رجعیت مذہب محض رسوم کا نام ہو اور اس میں ولولہ انقلاب نا پید ہوجائے۔ اس وقت مذہب کا نام لے کر تو سن اقتدار پرہاتھ ڈالنے والے اکثررجعت پسند افراد ہوتے ہیں۔ ممکن ہے وہ زبان سے بڑے ترقی پسند بنیں، لیکن ان کا عمل عموما ترقی کے خلاف جاتاہے، چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ترکی میں ، مصرمیں، ایران میں، اورمراکش میں جن لوگوں نے ان آخری سالوں میں مذہب کے نام سے اپنی قوموں کوپکارا، وہ آخر میں اپنی قوموں کی آزادی اورترقی کے دشمن ثابت ہوئے اورجمہورنے یا تو انہیں بیخ وبن سے اکھاڑکرارض وطن سے باہرپھینک دیا۔ یا انھیں اس قابل نہ چھوڑا کہ کوئی ان کی طرف دیکھے یا ان کی بات سنے۔
اکبرکے دینِ الٰہی کا یہ اساسی فکرتھا۔ جہاں تک اصل فکرکا تعلق ہے، اکبرکے مشیروں کی اصابت رائے پرشک کرنا صریحاً ناانصافی ہوگی۔ ہندوستان ایسے براعظم میں جہاں اتنی مختلف قومیں اور اتنے مختلف مذاہب ہیں اورپھرملک اتنا وسیع اور قوموں کی آبادی اس قدر زیادہ ہے کہ نہ ایک قوم دوسری قوم کو اپنے اندرضم کرسکتی ہے اور نہ اس کا فناکرنا اس کے لیے ممکن ہے۔ اس براعظم میں اگرکوئی حکومت خدا کی اتنی مخلوق کو اپنے قابو میں رکھ سکتی ہے تو یا تووہ انگریزوں کی طرح کوئی ایسی حکومت ہوسکتی ہے جوکسی مذہب کو بھی قابلِ التفات نہ سمجھے اورسیاست کو صرف اپنے مخصوص مفاد کا تابع بنائے اور یا پھراکبرجیسی حکومت ہو، جو سب مذاہب کی اصل کو ایک جانے اور ہرقوم کو اجازت دے کہ وہ اپنی اپنی شریعت کے مطابق زندگی بسرکریں۔ لیکن مذہب کی صحیح روح سے منحرف نہ ہوں۔
اکبرکے زمانے میں ہندوستان کی اسلامی حکومت جس ارتقائی دورمیں پہنچ چکی تھی، اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک مشترک فکرکے تابع کرکے ان میں سیاسی وحدت پیداکرنا حالات کا طبعی تقاضا تھا۔ لیکن اگراس مشترکہ فکرکو سلیقہ سے خیال سے عمل کی دنیا میں لایا جاتا تو نہ اتنی بدعنوانیاں پیدا ہوتیں نہ اسلام کی برتری پرکوئی حرف آتا اور نہ مسلمانوں کے حکمران طبقے بدظن ہوتے۔ لیکن بد قسمتی یہ تھی کہ اس فکرکی داغ بیل دربارشاہی میں پڑی، اس لیے اول روز سے اس میں خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ اس کے کئی ایک اسباب تھے۔ سب سے بڑا سبب تو یہ تھا کہ چونکہ بادشاہ اس نئے فکرکا داعی تھا اس لیے منفعت طلبوں کو موقع مل گیا اورخلوص کے بجائے محض دنیوی اعزاز کے لیے لوگ ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ اس خلفشار کا ایک سبب اورتھا۔ دین الٰہی کے بانیوں نے مختلف مذاہب میں وحدت فکرتوڈھونڈھ لی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ ہرمذہب زندگی گزارنے کے لیے جوضابطے مقررکرتاہے ان کی حیثیت اورضرورت کو بھی سمجھا جاتا۔ بے شک وحدت ادیان اپنی جگہ پرٹھیک ہے لیکن ہردین کی شریعت کے قاعدوں اورقوانین کی پابندی کے بغیرجماعتی زندگی بھی تو قائم نہیں رہ سکتی۔
الغرض دین الٰہی کے داعیوں نے’’ شرع ومنہاج ‘‘کی اہمیت کو صحیح طورپرمحسوس نہ کیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ارباب فکرپرتو یہ حقیقت عیاں ہو، لیکن عام پیروؤں نے اخلاقی ضابطوں سے بچنے کے لیے شریعت سے عمداً بے پروائی برتی ہو۔ بہرحال وجہ کوئی ہو، اکبرکے دین الٰہی کواس انتشار سے بڑا گزند پہنچا۔ اکبر اور اس کے درباریوں کے متعلق یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ علی الاعلان شریعت کا مضحکہ اڑاتے تھے۔ قیاس غالب یہ ہے کہ اس فکرکے ممتاز افراد مذہب کی تضحیک اوراس سے استہزا روانہ رکھتے ہوں گے۔ چنانچہ اکثر دیکھنے میں آیا کہ کسی نئی تحریک کے دوسرے درجے کے داعی ہی پہلی تحریکوں کا مذاق اڑانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ مثلاً اشتراکیت کے بڑے رہنما مذہب کے خلاف اس طرح کی بے سروپاباتیں نہیں کرتے جس طرح عام پروپیگنڈا کرنے والے کیا کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس قسم کی فضا اکبرکے دربار شاہی میں پیدا ہوگئی ہو، نیز مذہبی طبقوں کی طرف سے جتنی مخالفت بڑھتی گئی ہوگی، اسی نسبت سے نئی تحریک کے کارکن بھی تضحیک اوراستہزا پرآئے ہوں گے۔
دراصل ضرورت اس وقت اس امرکی تھی کہ وحدت ادیان کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ملحوظ رہتی کہ سارے مذاہب کے بنیادی اصول تو ایک ہو سکتے ہیں لیکن ہرمذہب کی اپنی ایک ظاہری شکل ہوتی جو احکام اورقوانین کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے اورہرقوم کے افراد ان کے پابند رہ کر ہی اپنی زندگی کو مفید اور باکا ربناسکتے ہیں۔ قرآن کی زبان میں یوں کہہ لیجیے کہ ساری دنیا کا دین تو ایک ہی ہے لیکن اس کی شریعتیں الگ الگ ہیں۔ اگروحدت ادیان سے یہ سمجھ لیاجائے کہ ان ادیان کی مختلف شریعتیں بے کار محض ہیں تواس سے زندگی بے ضابطہ ہوجاتی ہے اورکوئی انسانی جمعیت بن نہیں سکتی اوراس طرح شریعتوں کا انکار آگے چل کراصل دین کا انکار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ شریعت اوراصل دین یعنی حکمت کے اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے سے اکبری عہد میں ساری ابتری پھیلی۔ چاہیے تویہ تھا کہ ادیان کی وحدت کا فکر بھی موجود رہتا اورمختلف مذاہب کے قوانین کی علیحدگی کی حیثیت کو بھی برقرار رکھا جاتا۔ ہندوؤں کے لیے ان کا قانون نافذ ہوتا اورمسلمان اپنی شریعت پرچلتے۔ دین الٰہی کے اس اضطراب فکری نے نہ ہندوؤں کو اپنی طرف کھینچا اورنہ مسلمان ادھرمائل ہوئے اورمسلمان کے حکمران طبقے تو اس سے اوربھی بدک گئے اوران میں ردِعمل کے طورپرایک اورفعال تحریک پیدا ہوئی جس کی قیادت امام ربانی نے فرمائی لیکن اس تحریک کو سمجھنے کے لیے کچھ تفصیل کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بیان کرآئے ہیں، اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے دوگروہ تھے، ایک ملکی اوردوسرا غیرملکی۔ شیرشاہ نے ملکیوں کی مدد سے غیرملکی مغلوں کو شکست دی تھی۔ ہمایوں نے پھرغیرملکیوں کی امداد سے دہلی کی سلطنت پر قبضہ کرلیا۔ اکبرنے اپنی حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے راجپوتوں سے معاملہ کیا اوراس طرح مغلوں کے تخت وتاج کے لیے نئے محافظ پیداہوگئے۔ جب دین الٰہی کا چرچا ہوا تو خاص طورپرغیرملکی اورجو اُن کے ہم خیال ملکی مسلمان تھے، انھوں نے محسوس کیا کہ سلطنت میں ہندو تو برابرکے شریک تھے ہی اب توان کی مذہبی برتری، جو انھیں ہندوؤں پرحاصل تھی، وہ بھی خطرے میں ہے۔ اس خیال نے غیرملکی حکمران طبقوں کو چوکنا کردیا اوران کے دماغوں میں ایک عام ہلچل پیدا ہو گئی۔
غیرملکی حکمران طبقوں کا سیاسی اورفکری مرکز بخارا تھا۔ بخارا کی فقہ، بخارا کا علم کلام اوربخارا کے علما کی کتابیں ہندوستان میں آئیں اوریہی مدرسوں کا نصاب بنا۔ علم وفقہ کی طرح بخارا سے حکمرانوں کے گروہ بھی آتے رہتے تھے۔ اکبرکے عہد تک یہ ہوتا رہا کہ جب کبھی ہندوستان میں مسلمانوں کی قوت کمزورپڑتی تواس نواح سے تازہ دم مسلمان آجاتے اوراسلامی حکومت کے لیے یہ لوگ تقویت کا باعث بنتے۔ اکبرنے جب ہندوؤں کو مراعات دیں اورایک حد تک مذہب میں ان کا مساوی درجہ ماننے کی بھی جرأت کی تو ان غیرملکی اوران کے ہم خیال مسلمانوں میں بڑی بے چینی پھیلی۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ اکبری سیاست کو چلانے میں شیعوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ بخارا چونکہ سنیوں کا مرکز تھا اوریہ لوگ شیعیت کی مخالفت میں بڑے سرگرم بھی تھے۔ یہاں تک کہ بخارا میں تصوف کا جو نقشبندی طریقہ رائج تھا اس میں بھی شیعوں کے خلاف کافی رجحان موجودہے۔ شیعہ سمجھتے تھے کہ وہ اکبری سیاست کی تائید کرکے دربار سے بخاری اورسنی اثرکو کم کرسکیں گے ، چنانچہ جب اکبرکے خلاف ردِعمل ہواتو شیعوں اورہندوؤں دونوں پر عتاب آیا اورسنی حکمران طبقے دونوں کے مخالف ہوگئے۔ ہندوتو سیاسی اقتدارمیں ان کے مدِ مقابل بن رہے تھے، اس لیے ان سے یہ لوگ ناراض تھے اورشیعوں سے بخارا کے ترکمانوں کی پرانی چشمک تھی۔ اسلام سے پہلے بھی ایران اورتوران کی آویزش رہی، اسلام لانے کے بعد اس دور میں شیعہ کشمکش ایک طرف اورہندواورمسلم طبقوں کی رقابت دوسری طرف۔ یہ حریف طاقتیں تھیں جن کو اکبرنے قابومیں رکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اس میں بہت حد تک کامیاب رہا، جہانگیراورشاہجہان کے عہد میں بھی یہ توازن ایک حد تک قائم رہ سکا۔ لیکن اورنگزیب عالمگیرکے زمانے میں تورانیوں کا پلہ بھاری ہوگیا اورشیعہ اورہندو دونوں عالمگیری سیاست سے برگشتہ خاطرہوگئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.