مصحف ناول ایک مطالعہ ۔۔۔۔۔۔۔صابیہ ظہور آہنگر

مصحف ناول ایک مطالعہ ۔۔۔۔۔۔۔صابیہ ظہور آہنگر

نام کتاب : مصحف۔۔۔۔۔۔ناول

مصنفہ : نمرہ احمد

اشاعت: دسمبر ۲۰۱۴ء

ناشر   : منشورات، پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرزجامعہ نگر نئی دہلی

قیمت  : ۲۲۵ ہندوستانی روپیے

تبصرہ نگار: صابیہ ظہور آہنگر

ناول نثری ادب کی ایک اہم صنف ہے جو انسانی زندگی کا حقیقی پرتو ہوتی ہے۔ اس میں پرانے قصوں اور داستانوں کے برعکس انسان کی حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ پرانے قصوں کہانیوں اور داستانوں سے انسان کی غیر دلچسپی ہی ناول کے وجود میں آنے کاایک اہم ذریعہ بنی ہے۔ چنانچہ انیسویں صدی کے آغاز میں انگریزی ادب کے راستے سے یہ صنف اُردو میںمتعارف ہوئی۔ اِس صنف میں آج بھی اُردو تخلیق کار برابر طبع آزمائی کر رہے ہیں۔اِن تخلیق کاروں میں مرد ناول نگاروں کے علاوہ خواتین ناول نگاروں کے نام بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ماضی میں اگر عصمت چغتائی، قرة العین حیدر، عطیہ پروین، جیلانی بانو، مسرور جہاں، عفت موہانی، شکیلہ اختر، ہاجرہ مسروروغیرہ جیسی خاتون ناول نگار اِس صنف کی خدمت کا کام انجام دے چُکی ہیں۔ تو دورِ حاضر میں یہی خدمت عمیرہ احمد، فرحت اشتیاق، سمیرا حمید، مہوش افتخار، سمیراشریف طور، نازیہ کنول نازی ، عفت سحر طاہر جیسی خاتون ناول نگار بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔ خاتون ناول نگاروں کی اِس فہرست میں نمرہ احمد کا نام بھی ایک معتبر اور غیر معمولی نام ہے۔ نمرہ احمد سرزمین پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں اور ۲۰۰۷ءسے لوح و قلم کی پرورش میں مصروف ہیں۔ ابتداءمیں کچھ افسانے بھی لکھے ہیںلیکن جلد ہی ناول نگاری کی جانب متوجہ ہوئی اور اپنے مخصوص اسلوب اورطرزِ ادائیگی سے انتہائی قلیل عرصے میں اردو دنیا کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ۔ ناول نگاری میں گہرا مشاہدہ،عمیق مطالعہ اور اور اپنا مخصوص موضوع ،نمرہ کو دوسرے مصنفین سے ممتاز کرتا ہے۔

زیر تبصرہ ناول” مصحف“ نمرہ احمد کی ایک مقبول ناول ہے۔ یہ مصحف دراصل” قرآ ن “ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے آخری ہدایت نامہ ہے۔ عربی لوگ قرآن کے لیے مصحف کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اِس ناول کا نام ”مصحف “اس قدر پُر کشش ہے کہ مطالعہ کا شغف رکھنے والے یہ نام سنتے ہی اِس ناول کی جانب متوجہ ہو تے ہیں۔ ’مصحف “ کا موضوع ظاہر سی بات ہے وہی ہے جو خود قرآن کا موضوع ہے، یعنی انسان۔ محمل ابراہیم نامی ایک پریشان کُن اور دکھیاری لڑکی اپنوں کی کینہ توز نظروں اور سازشوںکا شکار ہوتی ہوئی ناول میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ مصحف کے پیش لفظ میں نمرہ احمد یوں رقمطراز ہے:

” مصحف دراصل ’ مصحف‘ کے ساتھ رہنے والی دو لڑکیوں کی کہانی ہے ۔ یہ سنگ مر مر کے چمکتے ، برآمدوں اوراونچے ستونوں والی مسجد کی کہانی ہے۔ یہ امانت اور رحم کے حق ادا کرنے والوں کی کہانی ہے۔ یہ صبر کرنے اور شکوہ نہ کرنے والوں کی کہانی ہے۔ یہ قسم پوری کرنے والوں کی کہانی ہے اور یہ کہانی ہے خیانت کرنے والوں کی …… علم پہ غرورکرنے والوں اور تقویٰ پہ ناز کرنے والوں کی…..یہ محمل اور فرشتے کی کہانی ہے۔“(صفحہ، ۷)

ناول کے مرکزی کردار ’ محمل ابراہیم‘ کے والد کا انتقال ہو چُکا ہے۔ وہ اپنے ددھیالی رشتے داروں کے ساتھ مقیم ہے لیکن اس کے والد کی جائداد پر اس کے لالچی چچا اور تایا قبضہ کرتے ہیں۔ اِن کا رویہ اپنے بھائی کی اولاد(محمل) کے ساتھ ناروا ہے۔ محمل اپنی زندگی سے تنگ اور اُکتائی ہوئی ہے ۔ اس لیے اس کا رویہ گھر والوں کے ساتھ بد تمیزانہ قسم کا ہوتا ہے، جس کے باعث گھر کے اکثر لوگ اسے نا پسند کرتے ہیں۔اِس گھر میں مہمل کی ماں(مسرت) بھی اُن کے ہمراہ رہتی ہے جو کہ اصل میں نوکرانی کا کام انجام دیتی ہے اور گھر میں اُس کے ساتھاانتہائی بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔ محمل کالج کی طالبہ ہے اور ہر روز صبح بس اسٹاپ پر کالج کے لیے روانہ ہوتے وقت اُسے ایک سیاہ فام لڑکی سے سابقہ پیش آتا ہے،جس کے ہاتھ میں ایک انوکھی کتاب ہوتی ہے۔محمل ہر روز اُس لڑکی کوکتاب لیے ہوئے وہاں پاتی ہے۔ ایک دن سیاہ فام لڑکی محمل کو وہ کتاب یہ کہہ کر دیتی ہے ”کہ اس میں تمہارے ماضی ، حال اور مستقبل کا ذکر ہے۔“فطری تجسس کے باعث محمل اس سیاہ فام لڑکی سے وہ کتاب لے لیتی ہے۔ بظاہر محمل کو لگتا ہے یہ کوئی سفلی علم اور جادو ٹونے کی کتاب ہے جس سے فال نکال کر وہ اپنی قسمت اور حالات بدل سکتی ہے۔ لیکن گھر آکر جب وہ اس کتاب (قرآن کریم) کو دیکھتی ہے تو دیکھ کرہی دم بخود ہوجاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محمل کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن قدرت کا کرنا کہ اس کی ملاقات فرشتے سے ہوتی ہے جو کہ ایک مسجد میں معلمہ کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ فرشتے ’محمل‘ کو مذہب کی طرف متوجہ کرتی ہے ،قرآن پاک کی تفسیر بتاتی ہے اور اس کتاب کو تمام مسائل کے حل کے طور پر اس کے سامنے پیش کرتی ہے۔ محمل بالآخر قرآن سے اپنا رشتہ استوار کرتی ہے اور وقت کے ساتھ قرآن اس کی زندگی کا لازمی حصہ بنتا جاتا ہے اور یوں اُس کی زندگی میں تغیر و تبدل آنا شروع ہوجاتا ہے۔

نمرہ نے ’مصحف‘ میں زندگی کے نشیب و فراز کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ قرآنی آیات سے جوڑ دیا ہے کہ کیسے قرآن ہم سب کے ” ماضی، حال اور مستقبل“ سے جُڑا ہوا ہے۔ناول کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ کیسے قرآن آیات کی صورت میں انسان سے ہم کلام ہوتا ہے اور کیسے وہ انسانوں کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔ مصحف کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے ،نمرہ احمد بڑے ہی موثر انداز میں قارئین سے یوں مخاطب ہوتی ہے:

” نماز اور قرآن بعض دفعہ آپ کے حالات تو نہیں بدلتے، مگر آپ کو ان حالات میں اچھے طریقے سے رہنا سکھا دیتے ہیں۔ آزمائش صرف دین پہ چلنے سے نہیں آتی، بلکہ جو آزمائش اور مصائب آپ کے لیے لکھ دیے گئے ہیں، وہ آپ کو مل کر ہی رہیں گے۔ قرآن سے دوری سے صرف اتنا ہوگا کہ وہ مصائب آپ کو پاگل کر دیں گے اور قرآن کا قرب آپ کو ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ دکھاتا رہے گا۔قرآن پڑھیں، صادق اور امین دل کے ساتھ ، نیتیں صاف رکھیں ، سچ بولیں اور امانتوں میں خیانت نہ کریں اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ احسن ترین سلوک کریں، چاہے اُن کے پاس آپ کو دینے کے لیے بد ترین اخلاق ہی کیوں نہ ہو۔ صبر کریں اور اس کا بدلہ اگلے جہاں میں مانگے۔ یہ دنیا بدلے کی جگہ نہیں ہے۔“(صفحہ، ۸)

نمرہ احمد نے قرآن کی ماہرہ کی حیثیت سے قرآن کے آفاقی اور لازوال پیغام کو قارئین تک منتقل کیا ہے۔ نیز قرآن سے ہمارے رشتے کو مضبوط کرنے اور اس کے ساتھ ہمیں مثبت انداز میں سوچنے پر مائل کرنے کی بھی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ ناول میں ایسے کئی اقتباسات ہیں جن سے ہم پر غور و فکر کے نئے در وازے کھل جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر نمرہ لکھتی ہے:

” مصیبت میں صبر اور نما زدو کنجیاں ہیں جو آپ کو اللہ تعالیٰ کا ساتھ دلواتی ہے۔ ان کے بغیر یہ ساتھ نہیں ملتا۔ اس لیے کوئی مصیبت آئے تو نماز میں زیادہ توجہ اور لگن ہونا چاہیے ۔ مصیبت میں خاموشی کے ساتھ اللہ کی رضا پر راضی ہو کر جو کچھ موجود ہے اس پر شکر کرنا اور اللہ کے آگے اچھی امید رکھنا صحیح معنی میں صبر ہے۔“( صفحہ، ۲۴۹)

صبر کے موضوع پر اِسی صفحہ پر اپنے قارئین سے مخاطب ہو کرنمرہ مشکل اوقات میں صبر کا دامن تھامنے کا درس اِن الفاظ میں دیتی ہیں:

” صابرین کا مصیبت میں بس اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ دینا کافی نہیں ، بلکہ دراصل یہ الفاظ ان دو عقائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن پہ جمے بغیر کوئی صبر نہیں کر سکتا۔ ”انا للہ“(بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں)عقیدہ توحید ہے اور”و انا الیہ راجعون“ ( بے شک ہم اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے) عقیدہ آخرت پہ ایمان ہے کہ دکھ اور مصیبت ایک دن ختم ہو جائے گی اور اگر کچھ ساتھ رہے گا تو صرف آپ کے صبرکا اجر۔“ (صفحہ،۲۴۹)

ناول میں نمرہ احمد کا طرز اسلوب دلچسپ اور موثر ہے۔ اسلوب سادہ اور عام فہم اختیار کیا گیا ہے تاکہ عام قاری بھی اسے بآسانی پڑھکر سمجھ سکے۔ناول میں ’محمل‘ اور ’فرشتے‘ کے علاوہ بھی کئی دوسرے کردار ہیں جس میں مسرت( محمل کی ماں)آغا فواد، ہمائیوں، ، تائی مہتاب، آغا جان، غفران چچا، تیمور وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کئی ضمنی کردار ناول میں جابجا نظر آتے ہیں۔ ناول کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہو تی ہے کہ مصنفہ کو قرآن ، احادیث اور تفسیر کی کافی معلومات حاصل ہیں۔

الغرض”مصحف“ ایک اصلاحی وتذکیری ناول ہے۔ یہ ان مسلمانوں کو احسن عمل اختیار کرنے کی یاد دہانی کراتی ہے جو زندگی کی تیز رفتاری میں اُلجھ کر قرآن سے ہدایت لینے کی روایت ترک کر چُکے ہیں، نتیجتاً زندگی مسائل کے انبار میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ناول میں جابجا اِس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اِس وقت دنیا کو جتنے بھی مسائل درپیش ہیں اُن تمام مسائل کا حل ” مصحف“ میں ہی موجود ہے۔ یہ ناول اِس راز کا بھی’انکشاف‘کرتی ہے کہ قرآن صرف چندجزوی احکامات یعنی نماز ، روزہ، حج اور زکوة کے مجموعے کا نام نہیں ہے، بلکہ اِس میںاِن احکامات کے علاوہ ہر دکھی انسان کے دکھوں کے مداوے کا سامان بھی موجود ہے اور اِس میں ہر انسان کی کہانی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں خود فرماتے ہیں:

” لقد انزلنا الیکم کتٰبا فیہ ذکر کم، افلا تعقلون۔“

لوگو ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟( الانبیائ: ۱۰)

نمرہ درجنوں ناول تحریر کر چُکی ہیں، لیکن ”مصحف“ نمرہ کی پہچان بن گئی ہے۔ایسی ہی پہچان کہ جیسی مرزا ہادی رسوا کو” امراءجان ادا“،پریم چند کو ”گﺅدان“ اور قرة العین حیدر کو ” آگ کا دریا“جیسی ناولوں کے توسط سے حاصل ہوئی ہے۔” مصحف“ پہلی دفعہ۲۰۱۱ءکو پاکستان میں”خواتین ڈائجسٹ “ نامی رسالے میں سلسلہ وار شائع ہوتی رہی۔علاوہ ازیں پاکستان میں متعدد پبلشرز نے اِسے مختلف قیمتوں اور ڈیزائن کے تحت چھاپا ہے جب کہ ہندوستان میں منشورات پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرزجامعہ نگر نئی دہلی نے اِس کی چھپائی کا بیڑا اپنے ذمہ لیا ہے اور اب تک اِس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چُکے ہیں۔ ۳۴۴ صفحات پر مشتمل اِس ناول کا سرورق سادہ لیکن پُرکشش ہے۔ ناول پروف کی غلطیوں سے پاک ہے، ناول کا انتساب نمرہ احمدنے اپنی دوست اور ٹیچر ”سومیہ عزیز “کے نام کیا ہے۔

”مصحف“ سے فیض اُٹھانے کے متمنی اشخاص کو اِس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے اور یقینا وہ فیض اُٹھائے بغیر نہیں رہیںگے۔ (انشاءاللہ)

صابیہ ظہور آہنگر

شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی

([email protected])

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.