جمعہ, دسمبر ۶, ۲۰۲۴
1.6 C
Srinagar

سیکولرازم کی جدید اسلامی تعبیریں۔۔۔۔۔ڈاکٹر خالد مسعود

موضوع بحث

مسلم دنیا میں سیکولرزم کی اصطلاح مختلف معانی میں استعمال ہوتی ہے۔ جدید دور کی مختلف فکری تحریکوں کا حصہ رہنے کی وجہ سے سیکولرزم کے مفہوم میں جدیدیت، انسان دوستی، قومیت اور جمہوریت کے بہت سے مطالب شامل ہو چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ معانی کے اس سفر میں یہ اصطلاح مقامی ملکی اور ثقافتی خصوصی حالات سے بھی متاثر ہوئی ہے۔ حالیہ ارتقا میں جمہوریت اور مذہبی سیاست کے مابین مسلم ملکوں میں مقامی اختلافات میں سیکولرزم کو نظریاتی چہرہ بھی مل گیا ہے۔ اس طرح اس کی متعدد اسلامی تعبیریں سامنے آئی ہیں جن میں مندرجہ ذیل تصورات کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت سے اہم مباحث کے گیارہ سے زیادہ مفہوم و معانی شامل ہیں: قومی ریاست، انسان دوستی، عقلیت، جمہوریت، فلاح و بہبود، ترقی، اصلاح اور بیداری، جدیدیت، اورمغربیت۔ مسلم ملکوں میں اس کے مندرجہ ذیل تاریخی حوالے بھی ہیں: عثمانی طرزِ حکومت، خلافت، ترک استبداد، نظام، اجتماعیت،عرب قومیت، اوراتاترک کی اصلاحات۔ مذہبی اقتدار کے حوالے سے مذہبی اقتدار سے نجات، مذہب بیزاری، اور عوام کی رائے کا اعتبار، عوام کی حاکمیت، آئین اورقانون کی حکمرانی، ملکی قوانین اور پارلیمنٹ کی قانون سازی کے مفا ہیم بھی سیکولرزم کی تفہیم کا حصہ بن گئے ہیں۔
مسلم ممالک میں مفاہیم کے اس اختلاف کو سمجھنے کے لیے ان تاریخی تجربات اور سماجی تبدیلیوں کا مطالعہ درکار ہے جن سے ان مختلف مسلم معاشرتوں کا سامنا رہا۔ اس مضمون میں ہم مسلم دنیا کے چار علاقوں ترکی، عرب ممالک، جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں سیکولرزم کی اسلامی تعبیروں کا مختصر جائزہ پیش کررہے ہیں۔ ان تعبیروں کے تجزیے سے پہلے چند بنیادی اصطلاحات سیکولرزم، آئیڈیالوجی اور سیکولرائزیشن کا تعارف ضروری ہے۔ یہ تعارف تعریف کی بجائے ان تعبیروں کے اس فکری پس منظر پر ایک سرسری نظر ہے جس کے بغیر ان تعبیروں کو سمجھنا مشکل ہے۔

سیکولرزم
سیکولرزم کا لفظ سب سے پہلے برطانوی مصنف جارج جیکب ہولی اوک نے ۱۵۸۱ میں استعمال کیا۔ اس سے مراد ایسا سماجی نظام تھا جس کا انحصارمذہب پر نہ ہو۔ اس کی ۱۸۹۶ میں شائع شدہ کتاب (انگلش سیکولرزم، اے کنفیشن آف بیلیف) کے عنوان میں یہ لفظ اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا۔ اس کتاب میں اس نے واضح کیا کہ سیکولرزم مسیحیت کا مخالف نہیں اور نہ ہی اس پر تنقید کا نام ہے۔ سیکولرزم کا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ سچائی صرف اسی کے پاس ہے۔اس کا کہنا تھا کہ سیکولر سچائی میں روشنی اور ہدایت ہے کیونکہ اس کے اصول اس سے باہر سے نہیں لیے گئے کہ ان کے تقدس کی وجہ سے ان تک رسائی نہ ہو سکے۔ یہ اصول قابلِ عمل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں علم کا مصدراس دنیا میں انسانی تجربات ہیں جن کو آزمایا جا سکتا ہے۔ یہ اسی دنیا کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی زندگی کی فلاح ان کا مقصود ہے۔
انگریزی زبان میں سیکولر کا لفظ لغوی طور پر قدیم لاطینی لفظ سیکولم سے اور قدیم فرانسیسی لفظ سیکولے سے آیا ہے۔ سیکولم کا مطلب عہد، زمانہ یا ایک نسل ہے۔ اس میں وقت کا مفہوم بھی شامل ہے جو زیادہ سے زیادہ ایک صدی کو محیط ہے۔ اس سے مراد انسان کی زندگی کی حد بھی ہے۔ اسی لیے سیکولر کا مطلب وقتی، عارضی، اور ہم عصری بھی ہے۔ نیازی برکس کے مطابق سیکولرزم اور لائیسزم کی دو اصطلاحیں بالترتیب لاطینی لفظ سیکولم یعنی زمانی، وقتی اور عارضی اور یونانی لفظ لائیکوس یعنی عوام سے جڑی ہیں۔ پہلی اصطلاح دنیوی کے مفہوم پر زور دیتیہے اور دوسری عام آدمی پر جو مذہب کا رسمی عالم نہ ہو۔ دونوں دوئی کے ایک خاص مفہوم پر مبنی ہیں جو باہم ایک دوسرے کی ضد اور برتری کی قائل ہیں۔ چرچ تقدس اور روحانی برتری کا اور ریاست سے اعلیٰ اختیار کے اصول پر قائم تھا۔ ابتدا میں اس کا تقابل دین یا مذہب سے نہیں تھا لیکن جب چرچ کی زبان میں اسے دین کے مقابل کے طور پر استعمال کیا گیا تو اس میں دین اور دنیا کی تفریق کا مفہوم شامل ہو گیا۔
سیکولرزم کی اصطلاح شروع میں خواص کے مقابلے میں عوام اور ان کی روز مرہ زندگی کے لیے بولا جاتا تھا۔ لیکن بہت جلد مذہب کے مقابل عام معاملات کے لیے اور آگے چل کر غیر مذہبی اور مذہبی معاملات میں غیر جانبداری کے مفہوم میں بولا جانے لگا۔ قومیت کی تحریکوں اور قومی ریاست کے سیاق میں اس کا استعمال سیاسی اقتدار کے حوالے سے مذہبی اور سیاسی یا ریاستی اختیار کا مفہوم اختیار کر گیا۔ بیسویں صدی میں سائنس ، ثقافت اور تہذیبی حوالوں سے مذہب اور سیکولرزم ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔ اس طرح سیکولرزم کے دو انتہائی رجحانات سامنے آئے۔ ایک متشدد رجحان ہے جس کا کہنا ہے کہ مذہب میں سیکولرزم کی مخالفت کا کوئی علمی جواز نہیں۔ دوسرا معتدل رجحان جس کا کہنا ہے کہ اصل سچائی اور حقیقت مطلقہ تک رسائی ممکن نہیں، نہ مذہب کی نہ سائنس کی۔ اس لیے علمی طور پر ایسے معاملات کو یقین کی بجائے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور انھیں غیر جانبداری کے اصول کے تحت برداشت کیا جائے گا۔
چارلس سمتھ کے مطابق یورپ کی تاریخ میں انگلستان میں سولہویں صدی میں سیاسی اقتدار چرچ سے ریاست کو منتقل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی قانون اور عدالتیں بھی مذہبی اقتدار سے آزاد ہوئیں۔ اس تبدیلی کا مطلب مذہب کے عقائد اور رسومات کا خاتمہ نہیں تھا۔ تاہم عملی طور پر اقتدار چرچ سے نکلنے کی وجہ سے عقیدے کی سیادت کمزور پڑ گئی۔ صنعتی انقلاب اور فرانس میں انقلاب کے بعد حالات مزید بدلتے گئے اور مذہب اور ریاست میں کشمکش عروج پر پہنچ گئی ( سمتھ ۱۹۹۵،۰ ۲)۔
مذہب اور ریاست میں کشمکش کے تجربات میں اختلافات کو تین زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاسی، ثقافتی اور مذہبی۔ سیاسی پہلو سے سیکولرزم اور مذہب کا مسئلہ پہلے تو اکثریت اور اقلیت کے تناظر میں ابھرتا ہے جہاں سیاسی طورپر سیکولرزم مذہب کی نفی نہیں کر سکتا بلکہ مذہبی آزادی کی حفاظت اپنا منشور بتاتا ہے۔ چنانچہ اقلیت اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مذہب کو حوالہ بناتی ہے۔ اس تناظر میں خرابی یہ ہے کہ ایک طرف تو اکثریت اپنے مذہب کی بالا دستی کو جمہوری حق سمجھنے لگتی ہے اور دوسرے اقلیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے بلکہ اکثریتی مذہب بھی فرقوں میں بٹ کر مذہبی آزادی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ ثقافتی حوالے سے تنوع اور تعددیت سیکولرزم کی شناخت اور ضرورت ٹھہرتی ہے۔ اسی لیے سیکولرزم کی سماجیات میں تعددیت یا پلورلزم کو مثبت قدر مانا جاتا ہے۔
اسلامی علم الکلام میں تعددیت کو شرک اور وحدت الوجود کو توحید کی نفی سمجھ کر ان نظریات کو رد کیا جاتا ہے۔ اسی تعددیت سے بچنے کے لیے اکثر مسلم مفکرین مرکزیت اور ثقافتی وحدت پر زور دیتے ہیں اور اسے اسلام کا مذہبی اصول بتاتے ہیں۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے ان مفکرین کی نظر میں سیکولرزم ایسا سیاسی اور سماجی نظام ہے جو خدا کے وجود کو نہیں مانتا۔ قدامت پسند غیر مذہبی سیاسی جماعتیں بھی سیکولرزم کے بارے میں یہی تصور پیش کرتی ہیں۔ اسلامی جماعتوں کو اسی نظریے کی بدولت عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ سب کچھ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ جدید دور میں اقتدار کا مسئلہ انھی تینوں زاویوں سے پیش آیا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اسلام کی دعوت کے لیے اکثر جماعتوں نے اپنے موقف کو ایک نظریہ حیات یا ضابطہ حیات کی شکل میں تشکیل دیا جس میں مذہب ہر پہلو سے مکمل، شامل اور ہولسٹک ہو۔ نظریہ حیات کا یہ مفہوم مغرب میں مقبول اصطلاح آئیڈیالوجی سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ اسی لیے اسلام اور سیکولرزم دونوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل مکمل مذہب اور آئیڈیالوجی کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔ ان میں سے صرف ایک کا انتخاب ہو سکتا ہے دونوں کو بیک وقت اپنانا ناممکن ہے۔

آئیڈیالوجی
آئیڈیالوجی یا نظریہ حیات ابتدا میں تو فلسفے کے کسی بھی مخصوص مکتب فکر یا نظری رجحان کے مرکزی اصول اور موضوع کا نام تھا۔ لیکن دورِ جدید میں مختلف سیاسی نظاما ت کی کشمکش کے دوران آئیڈیالوجی کا رشتہ اقتدار خصوصاً سیاسی اقتدار سے بہت گہرا ہو گیا۔ اس مفہوم میں آئیڈیالوجی غلبے اور اقتدار کا نظریہ بن گئی۔ ۱۹۶۵ تک سماجی علوم کے ماہرین کے نزدیک آئیڈیالوجی سے عقا ئد، افکار اور تصورات کا ایسا مجموعہ مراد لیا جانے لگا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے سماجی شعور میں رچ بس جائے (گولڈ، بحوالہ شریف المجاہد، ۲۰۰۱)۔
اس کے برعکس کمیونسٹ تعلیمات میں آئیڈیالوجی مادیت کے سائنٹفک مطالعہ کا نام قرار دیا گیا۔ آئیڈیالوجی کا کمیونسٹ تصور دراصل آزادی کی تحریکِ انقلاب کا بیانیہ تھا۔ انقلاب، اقتدار کی جنگ کا نظریہ تھا۔ مارکس کے ہاں ثقافت اور اقتدار میں گہرا تعلق ہے۔ ثقافت ایک ایسے سماجی عمل کا نام ہے جو اختلافات کو بتدریج کم کرکے اتفاق، اجماع اور اتحاد کی طرف لے آتی ہے۔ ثقافت بر سر اقتدار گروہ کو سماج میں تناؤ اور تصادم کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ برسر اقتدار طبقہ آئیڈیالوجی کی مدد سے اپنے اقتدار کے نظام، اس کی اقدار، نظریہ کائنات اور علامتی زبان کو رواج دیتا ہے۔ اس سیاسی عمل میں آئیڈیالوجی تین کام کرتی ہے: سیاسی اقتدار کی قوت اور نظم کی مضبوطی کے لیے اس اقتدار کو عام آدمی کے لیے فطری بناتی ہے، تاریخی جواز فراہم کرکے روایت کا حصہ بناتی ہے اور اس کی اقدار کو ابدی بنا کر پیش کرتی ہے۔
ایسے مطالعے کی علمی اہمیت کو دوسروں نے بھی تسلیم کیا۔ تاہم دو قطبی دور میں مغربی ممالک میں آئیڈیالوجی کا مفہوم منفی رہا۔ مغرب کی نظر میں غیر کمیونسٹ علمیات میں آئیڈیالوجی کا مقصد سیا سی اقتدار کے جبر کو سائنس اور علم کا سہارا فراہم کرنا تھا۔ اس دور میں آئیڈیالوجی کی اصطلاح سے نفرت اور دشمنی اتنی بڑھ گئی کہ ایڈورڈ شلس نے ۵۵ ۱۹کو اور ڈینیل بیل نے ۱۹۶۰ کو آئیڈیالوجی کے خاتمے کا سال بتایا۔ اس کے بعد مغربی علمی دنیا میں یہ اصطلاح تقریباً متروک ہو گئی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے تو اسے جبر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
مارکس کے نظریہ تضادات کے حوالے سے ماہرینِ سماجیات میں آئیڈیالوجی کی ضرورت کے بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں : مفاد کا نظریہ اور تناؤ کا نظریہ۔ یہ دونوں نظریات تصادم اور ٹکراؤ تو پیدا کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی معاونت بھی کرتے ہیں۔ مفاد کے نقطہ نظر سے آئیڈیالوجی ایک مصنوعی چہرہ بھی ہے اور ہتھیار بھی۔ تناؤ کے اعتبار سے یہ مرض کی علامت بھی ہے اور علاج بھی۔ امریکی اینتھروپالوجسٹ کلیفرڈ گیرٹز (انتقال ۲۰۰۶) کے ہاں بھی آئیڈیالوجی میں دوئی، علیحدگی، نظریاتی، مکمل اور مقصدیت کے معانی شامل ہیں۔ تاہم گیرٹز نظریہ مفاد سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ وہ اس نظریہ کے حامیوں کی طرح سماجی عمل کو اقتدار کی مسلسل جنگ اور سماج کو مفادات کی جنگ کا میدان نہیں مانتے (گیرٹز ۱۹۹۶، ۴)۔ ان کے نزدیک آئیڈیالوجی اور سائنس باہم متصادم نہیں۔گیرٹز کی رائے میں سائنس اور آئیڈیالوجی ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں لیکن نہ باہم متصادم ہیں اور نہ ایک دوسرے سے غیرمتعلق ہیں۔ نہ آئیڈیالوجی علم کے لحاظ سے کمزور ہے اور نہ سائنس آئیڈیالوجی سے باہر (گیرٹز۱۹۹۶، ۵۱)۔
اگرچہ آئیڈیالوجی اور سیکولرزم دونوں مغربی اصطلاحیں ہیں لیکن اسلامی دنیا میں سیکولرزم مذموم اور آئیڈیالوجی مقبول ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مسلم مفکرین آئیڈیالوجی کو علمی اور سائنٹفک مانتے ہیں اس لیے اسلام کو بطور آئیڈیالوجی پیش کرتے ہیں۔ بلکہ اس لیے کہ ان کے نزدیک سیکولرزم جو اسلام سے متصادم آئیڈیالوجی ہے۔ دیکھا جائے تو مسلم فکر میں ایک طرف تو اسلام کو آئیڈیالوجی بنا کر پیش کیا گیا جس میں یہ ساری باتیں شامل کی گئیں۔ دوسری جانب سیکولرزم کو ایک متصادم مذہب کی طرح پیش کیا گیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ مسلم تحریکوں نے آزادی اور سیاسی تشکیل نو کے لیے آئیڈیالوجی کے تصور کو فکری طور پربہت اہمیت دی کیونکہ اسلامی ریاست کے نظریے کی تشکیل کے لیے آئیڈیالوجی انقلاب کا فکری جواز فراہم کرتی تھی۔ اسی لیے لازمی تھا کہ سیکولرزم کو ایک مخالف آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کیا جائے۔ دو قطبی دور میں مغرب کے لیے اسلام کا کردار ایک مؤثر متبادل آئیڈیالوجی کا تھا۔ لیکن کمیونزم کے خاتمے کے بعد اسلامی آئیڈیالوجی کی غلبے اور اقتدار کی جدو جہد جاری رہی تو مغرب کے لیے اسلام خطرہ بن گیا۔ کمیونسٹ آئیڈیالوجی کی طرح اسلام بھی ٹوٹیلی ٹیرین، متشدد اور جبر دکھائی دینے لگا۔ ادھر اسلامی آئیڈیالوجی کو بھی جمہوریت میں سیکولرزم اور سیکولرزم میں لادینیت دکھائی دینے لگی۔ لبرلزم اورجدیدیت، سیکولرزم کے ہم معنی نظر آنے لگے۔

سیکولرائزیشن
سیکولرزم اور سیکولرائزیشن میں بہت فرق ہے جس کے نظر انداز کرنے سے نظری اور معاشرتی تبدیلیوں میں فرق اور اختلافات بلکہ تضادات کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ترکی کے ماہر عمرانیات نیازی برکس جن کا تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا کہتے ہیں کہ ان دونوں اصطلاحوں کے معنوں میں بڑا فرق یہ ہے کہ سیکولرزم کی نظریاتی نشو و نما میں افراد، اور ان کے خیالات، رویوں، اعتقادات اور مفادات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان افراد کے اکثر ایک دوسرے سے رابطے بھی ہوتے ہیں لیکن ان کے افکار لازمی طور پر ان رابطوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس سیکولرائزیشن کے سماجی عمل پر افراد کا اختیار نہیں ہوتا۔
ملائیشیا کے سید نقیب العطاس کا شمار علوم کو اسلامیانے کی تحریک کے سرکردہ مفکرین میں ہوتا ہے۔ سیکولرزم کے بارے میں ان کا ذکر بعد میں آئے گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مذہب اور سیکولرزم کے مقابلے میں سیکولرائزیشن ایک لامحدود اور مسلسل عمل ہے جس میں تاریخ میں پیش آنے والی انقلابی تبدیلیوں کے زیراثر اقدار اور نظریہ ہائے کائنات نظر ثانی کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ العطاس سیکولرزم کی طرح سیکولرائزیشن کو بھی رد کرتے ہیں۔ سیکولرائزیشن مجموعی طور پر ایک غیر اسلامی نظریہ کائنات ہی نہیں ، اس کا مقصد ہی اسلام کی مخالفت ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے لازمی ہے کہ معاشرت میں یا اپنے ذہنوں میں سیکولرزم اور سیکولرائزیشن کو جہاں بھی پائیں اسے دور کرنے میں پوری قوت صرف کریں کیونکہ یہ ایمان کے لیے زہرقاتل ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے سیکولرائزیشن کے عمل اور اسلام میں بعض نظریاتی عناصر میں مماثلت ضرور ہے لیکن دونوں کے نقطہ نظر میں بہت فرق ہے۔ مماثل عناصر میں فطرت (دنیا۔ مادی زندگی) سے عدم دلچسپی، سیاست کا غیر مقدس ہونا، اور اقدار کی عدم تقدیس شامل ہیں لیکن غور کریں تو اسلام میں وہ اسلامی تناظر کا حصہ ہیں۔ وہ حقیقت اور وجود کے اسلامی نقطہ نگاہ کا بنیادی عنصر ہیں۔ یہ تاریخ میں اسلام کی خصوصیت اور اس کے حقیقی اظہار کا اصول ہیں جس نے انسان کے نظریہ کائنات کو بدل دیا۔ اسلام سیاسیات کو سیکولرائزیشن کے عمل سے باہر نکالتا ہے کیونکہ اسلام حکم الٰہی پر اور رسول کریمؐ کی مقدس حاکمانہ حیثیت پر مبنی ہے۔

مغرب، سیکولرزم اور اسلام
مغرب میں یہ انقلابات یورپ میں شروع ہوئے، آہستہ آہستہ اور ایک طویل مدت میں آئے۔ لیکن مسلم دنیا میں استعمار کے بعد ریاست کے عمل دخل کی وجہ سے تبدیلیاں بہت تیزی سے آئیں۔ استعماری نقطہ نظر سے مقامی ثقافتیں اور مذہبی رسوم اور عقائد ترقی کی راہ میں رکاوٹ خیال کیے جاتے تھے۔ استعماری ریاستوں نے مذہبی آزادی کی ضمانت کے تحت اسلامی قانون کو شخصی حیثیت دے کر فقہی مذاہب کو سرکاری حیثیت دی۔ تاہم ان قوانین میں سرکاری اصلاحات اور عدالتی نظام نے مذہب کو ریاست کے ماتحت بنا دیا۔ مذہب کے تحفظ کے مسئلے پر استعماری سیکولرزم کو زیادہ گمبھیر مسائل کا سامنا اس وقت کر نا پڑا جب آزادی کے بعد مسلمانوں نے یورپ اور مغربی ممالک میں رہائش اختیار کی۔ اب مذہب ، ریاست اور اسلامی قانون کے تفصیلی مسائل سامنے آئے۔ مذہب کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے اصول کے تحت نکاح، طلاق، اور وراثت کے حقوق جو استعماری دور میں حا صل تھے وہ مذہبی اقلیتوں کے طورپر مغربی ممالک میں مسئلہ بن گئے۔ اب مذہب، ریاست اور سیکولرزم کی نئی بحثیں چھڑیں۔ سیکولرزم کی ان یورپی تعبیروں کا اسلامی تعبیروں پر گہرا اثر پڑا اس لیے ہم ان کا مختصر جائزہ ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم یہاں صرف فرانس کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔ اس کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ فرانس کی سیکولرزم کی تعبیر دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ متشدد اور غیر روادار تھی لیکن یہی تعبیر بتدریج سب مغربی ممالک میں مقبول بھی ہوئی۔ سیکولرزم کی مختلف اسلامی تعبیریں اسی سیاق و سباق میں ہی سامنے آئی ہیں۔

فرانس
اولیویر رائے (۱۹۴۹ ):
اولیویر رائے معروف فرانسیسی پولیٹیکل سائینٹسٹ ہیں جو فلورنس (اٹلی) میں یورپین یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب سیکولرزم اسلام کے مقابل (۲۰۰۷) میں اسلام اور مغرب میں تضاد کی تاریخ کے حوالے سے چار سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا اسلام اور مغرب ایک دوسرے کی ضد ہیں کہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے؟کیا اس تضاد کی وجہ مذہب ( مسیحیت اور اسلام) ہے؟ یا یہ تضاد سیکولرزم اور سیکولیریٹی (سیکولر معاشرت ) میں ہے؟ کیا سیکولیریٹی کی بنیاد مذہب (مسیحیت ) ہے یا ثقافت اور تہذیب؟ کیا سیکولرزم کی ایک ہی شکل ہے؟
رائے کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا مغرب سے رابطہ رسول اکرمؐ کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں جنگی، سیاسی، ثقافتی اور ماضی قریب میں استعماری تعلقات بھی رہے۔ جدید دور میں روابط زیادہ پیچیدہ ہو گئے۔ ان کے خیال میں اسلام اور مغرب میں تضاد یا تصادم کا بنیادی سبب اسلام اور مسیحیت دونوں میں مذہب اور سیکولرزم کا ایسا تصور ہے جس میں کہیں بھی کبھی بھی کوئی تبدیلی نہ آئے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں سیکولرزم کا منبع اور بنیاد مسیحیت ہے جو مذہب اور ریاست میں دوئی کی قائل ہے۔ ان کے نزدیک مغربیت اور جدیدیت کا مطلب بھی سیکولرزم ہی ہے۔ یورپ میں مسیحیت اور چرچ کی تاریخ میں فرق ہے۔ مسیحیت کی تاریخ میں مذہب اور چرچ میں پہلا تصادم مسیحیت اور کیتھولک چرچ میں ہوا۔ پروٹسٹنٹ ریفارم کیتھولک چرچ کے خلاف تھیں۔ تصادم کی پہلی شکل سائنس اور مذہب میں تضاد کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اس تضاد میں مذہب سے مراد بائبل اور سائنس سے مراد نئے اکتشافات تھے۔ تصادم کی دوسری شکل ریفارمیشن کے حوالے سے ہی سیکولرزم کی بنیاد پر پیش آئی۔ اس وقت ریفارمیشن یا اصلاح مذہب کا مطلب لائیسزم یعنی پادری کی جگہ عام آدمی کا حق تھا کہ وہ براہ راست بائبل کا مطالعہ کرے اور پادری کا مذہب پر سے اقتدار ختم ہو۔ تیسری شکل فرانس میں چرچ اور بادشاہت میں تصادم تھا جو چرچ کے وسیع اختیارات کے خلاف احتجاج تھا۔
مغرب میں بھی سیکولرزم کی کئی شکلیں ہیں جو مذہبی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے سیکولرزم کے تین پہلوؤں میں اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ سیاسی لحاظ سے تین ماڈل سامنے آئے: (1) امریکہ ، جہاں مذہب اور ریاست پرائیویٹ اور پبلک دونوں جگہوں میں موجود ہیں۔ (2) فرانس جہاں سیکولرزم لائیسزم کی شکل میں مذہب کو محض پرائیویٹ جگہ میں اجازت دیتا ہے، پبلک اور ریاست میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں۔ ریاست اور سماج دونوں سیکولر ہیں، صرف فرد مذہبی ہوتا ہے۔ (3) برطانیہ، جرمنی، سکینڈینیویا اور دوسرے کئی ملکوں میں ریاست کے اختیارات بہت وسیع ہیں۔ معاشرہ مذہبی بھی ہے لیکن ریاست کے ماتحت۔ ریاست مذہب اور سیکولر دونوں کی محافظ ہے۔ سول سوسا ئٹی بنیادی طور پر سیکولر ہے۔
اسلام کا معاملہ مختلف ہے اور اس کے کئی اسباب ہیں۔
۱۔ دینی اور کلامی لحاظ سے اسلام میں مذہب اور سیاست میں تفریق کا کوئی تصور نہیں۔
۲۔ ثقافت اور تہذیب کے نقطہ نظر سے مذہب کا تصور بہت وسیع ہے۔ اسلام مذہب ہی نہیں ثقافت بھی ہے۔
۳۔ تاہم نظریاتی اور روزمرہ زندگی کے لحاظ سے اسلام کو محدود اور غیر متبدل نہیں کہا جا سکتا۔ ’’مسلم سیکولر‘‘ مغرب میں اقلیت کے طورپر رہتے ہیں اور اس لحاظ سے ان کے روزمرہ زندگی کے تجربے نے انھیں مجبور کیا کہ وہ سیکولرزم کے ساتھ رعایت برتیں۔ وہ نئے معمولات میں مفاہمت اور گنجائش پیدا کرتے رہتے ہیں۔ تاریخ میں اسلام کو پہلے بھی سیکولرزم سے واسطہ رہا ہے۔ لیکن چند اِکا دُکا مسلم مفکرین اور استثنائی صورتوں کے علاوہ کبھی سیکو لرزم کو مسئلہ سمجھ کر باقاعدہ غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ مغرب میں اسلام کا مطالعہ کرنے والے مسلمانوں کی روزمرہ زندگی اور معمولات کو ان کی ثقافت کی ترجمانی نہیں سمجھتے۔ تہذیبوں میں تصادم کے حوالے سے ممکنہ خطرے کی بات تو کی گئی لیکن اس کو صرف نظری اور فکری حد تک لیا گیا۔ سوشیالوجی کے علم سے مدد نہیں لی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مہاجر مسلم گروہوں میں مذہبی معمولات (پریکٹس) کو مذہبیت کی ٹھوس شکل دینا سوشیالوجی کے لیے مشکل ہی نہیں ناگوار بھی تھا۔ سماجی علوم کے ماہرین کے لیے یہ سمجھنا بے حد مشکل تھا کہ مغرب کے سیکولر ماحول میں مسلمان اپنے عقیدے پر عمل کیسے کر سکتا ہے۔ یہی مشکل پہلے ہریڈی یہودیوں اور نیوبورن کرسچین (احیائے مسیحیت کے قائل لوگوں) کی مذہبیت کے بارے میں بھی پیش آتی رہی ہے۔
مسلم مہاجرین کو مغربی معاشرت کا حصہ بنانے کے بارے میں مغرب میں دو ماڈل زیر بحث رہے۔(۱) کثیر ثقافتی معاشرت یا (۲) مکمل ادغام۔ فرانس میں ادغام کوانٹیگریشن کا نام دیا گیا۔ اس کا مطلب ’’انفرادی اور ثقافتی ماضی اور پس منظر کو مٹا کر ، مذہب کو پرائیویٹ اور سیاسی کمیونٹی کو برتری دینا‘‘ بتایا گیا۔ اس کی بہترین مثال فرانسیسی یہودیوں کے بارے میں فرانس کی نیشنل اسمبلی کا فرمان ۷۹۱ ۱ ہے جس کی رو سے ’’انھیں بطور افراد سب کچھ حاصل ہوگا لیکن بطور قوم کچھ نہیں‘‘۔ فرانسیسیوں کے نزدیک کثیرالثقافتی طرز معاشرت قومی یکجہتی کے لیے خطرناک ہے۔ تصادم نہ بھی ہو لیکن اقلیتوں کو مخصوص علاقوں میں بسانے سے رہن سہن کی سہولتیں کم ہونے کی وجہ سے یہ آبادیاں گھیتو ( اقلیتی آبادی ، باڑہ ) کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اورعلیحدگی پسند طرزِ معاشرت کو فروغ دیتی ہیں۔ اس کے بر عکس دوسرے لوگ فرانسیسی ماڈل کو آمرانہ قرار دیتے ہیں جس سے ہم آہنگ معاشرت کی بجائے اقلیت کے احساس کو فروغ ملتا ہے۔

مسلم ممالک اور سیکولرزم

ترکی
عثمانی سلطنت میں اکثریتی مذہب کے اقتدار کا نظام تھا۔ ترکی میں سیاسی اور معاشرتی اصلاحات کا دور نظمِ نو سے شروع ہوا جسے نظام جدید یا تنظیمات کا نام دیا گیا۔ اس زمانے میں عثمانی سلطنت یورپ کے ساتھ مسلسل جنگوں میں پے بہ پے شکست سے دوچار تھی۔ اتاترک کی سربراہی میں جدیدیت کی صورت میں مغرب کے نظام کو اپنا لیا گیا۔ خلافت کا خاتمہ کرکے لاطینی رسم الخط اور یورپی لباس اختیار کیا گیا۔ یورپ کے قوانین کا اجرا ہوا۔ اور سیکولرزم کے اعتبار سے مذہبی اداروں میں اصلا حات جاری کی گئیں۔ سیکولرزم کی فرانسیسی شکل لائیسزم اپناتے ہوے اختیار مذہبی افراد اور اداروں کے بجائے عوام یا غیر مذہبی قوتوں کو دیا گیا۔ ترکی سے باہر کے مسلمانوں خصوصاً برصغیر میں خلافت کے خاتمے پر شدید احتجاج ہوئے۔ تاہم اس سے خلافت اور سیکولرزم پر بحث کا آغاز بھی ہوا۔ ان میں سے چند کا ذکر بعد میں آئے گا۔ مختلف اسلامی تعبیریں سامنے آئیں۔ ترکی میں سیکولرزم پر جاری بحث کو سمجھنے کے لیے ہم نیازی برکس کے تجزیے کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

نیازی برکس (۱۹۰۸۔۱۹۸۸)
نیازی برکس ترکی کے نامور مفکر ہیں جو ترکی کی سوشیالوجی کے ماہر شمار ہوتے ہیں۔ترکی سیکولرزم کے تجربے کے جن مختلف مراحل سے گذرا برکس ان کے عینی شاہد تھے۔ انہوں نے اس کا گہرا مطالعہ کیا اور ان کی کتاب ڈیویلپمنٹ آف سیکولرزم ان ٹرکی (۱۹۶۴) ترکی کے بارے میں ہی نہیں بلکہ سوشیالوجی کے نقطہ نظر سے بھی سیکولرزم کا بہترین تجزیہ شمار ہوتی ہے۔
برکس کی رائے میں سیکولرزم کی اس تعریف سے کہ یہ روحانی اور عارضی (مادی) اقتدار میں تفریق کا نام ہے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ سیکولرزم کے مسئلے کا تعلق صرف ان ملکوں سے ہے جہاں روحانی اور مادی کی تقسیم موجود ہے۔ در حقیقت یہ تعریف بہت محدود ہے کیونکہ اس نقطہ نظر کی بنیاد مسیحی دنیا کے محدود تجربے پر ہے۔ اسلام میں اس تعلق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ دوسرے یہ تجزیہ اس لیے بھی محدود ہے کہ اس طرز مطالعہ میں سیکولرزم کا مطالعہ محض ایک نظریے اور فلسفے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ عمرانیاتی طرز مطالعہ میں نظری اور لغوی پہلوؤں سے بھی بحث ہوتی ہے اور اس کے تعامل اور تجرباتی پہلو سے خصوصاً اس کے سماجی عمل سے جو تنوع اور اختلافات سامنے آتے ہیں وہ نظری تجزیے میں شامل نہیں ہوتے۔ سیکولرزم بطور نظریہ کا پس منظر مسیحی ہے۔ لیکن سیکولرائزیشن یعنی اس کی تطبیق کی سماجی ضروت کا پس منظر دوسری عالمگیر جنگ ہے۔ اس اعتبار سے یورپ اور مسلم دنیا میں سیکولرزم کی بطور نظریہ نشو و نما میں اور سماجی عمل میں بہت فرق ہے۔ برکس کے استدلال کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
سماجی عمل میں فکری انتشار، اضطراب اور اختلافات کی موجودگی معاشرے کی اندرونی کشمکش کا اظہار اور پیش آمدہ مسائل کا سامنا کرنے کی تیاری کی علامت ہے۔ مسلم دنیا میں سیکولرائزیشن کا عمل تاریخ تہذیب میں جدیدیت کے دور کا اثر ہے۔ اس میں بعض تجربات تو ویسے ہی ہیں جو دوسرے معاشروں کے ہیں کیونکہ تبدیلی کا عمل عالمگیر ہوتا ہے لیکن ہر قوم کی اپنی نسلی خصوصیات، تاریخی اورسماجی رویے وغیرہ بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ مشابہت ہوبہو نہیں ہوتی۔ مسلم دنیا میں جب ریاست، دین، قانون، تعلیم، اور معیشت کو سیکولر بنانے کا عمل شروع ہوا تو سب نے اسے قبول نہیں کیا۔ اکثر اسے اسلام سے متصادم سمجھتے تھے۔ ان کا استدلال تھا: ’’اسلام کو ایسے عقیدے میں محدود نہیں کیا جا سکتا جو محض ایک فرد کے شعور سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ پورے سماجی نظام کی بنیاد ہے۔ اسلام ہر سماجی ادارے میں اس طرح رچا بسا ہے کہ ان اداروں کو مذہب سے الگ کرنے سے ان کی بقا مخدوش ہوجاتی ہے‘‘۔
سیکولر سماجی عمل کی مخالفت میں مسلمانوں میں تین رجحانات نظر آتے ہیں۔ اوّل تو روایت پسند جو قرونِ وسطی کے اسلام کو مستند سمجھتے ہیں۔ دوسر ے اسلامی جدیدیت پسند جو قرون وسطی کے اسلام کو خالص نہیں سمجھتے۔ تیسرے وہ جدت پسند جو یورپ کی ثقافت کو پوری کی پوری اپنانے کے حق میں ہیں۔
ترکی میں ۱۹۲۷ سے ۱۹۳۷ کا زمانہ ایسا ہے جس میں عثمانی ترکی میں مروج قرونِ وسطیٰ کی روایت سے وابستگی میں دراڑ آئی۔ اس روایت میں معاشرے کا تشخص افراد، اقلیات یا گروہوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ مجموعی شکل میں بیان کیا جاتا تھا۔ پورا معاشرہ کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ شمار کیا جاتا تھا۔ معاشرے میں نظم و ضبط اور اتحاد بادشاہی نظام مہیا کرتا تھا۔ مسلمانوں میں مذہبی اور غیر مذہبی امور میں فرق بھی شرعی اور غیر شرعی کی اصطلاحوں سے ہوتا تھا۔ قرونِ وسطیٰ میں سیاسی اختیار کے لیے امارت اور امامت کی بجائے سلطان کی اصطلاح رائج ہو چکی تھی۔
معاشرے کی تنظیم کے چھ اصول مسلم تھے۔ (۱) سیاسی اقتدار کے اصول کے تحت خدا کے بعد سب سے اعلیٰ حیثیت بادشاہ یا سلطان کی تھی۔ اس کی نمائندگی صدر اعظم یا وزیر اعظم کرتا تھا جو تمام انتظامی امور کا ذمہ دار تھا۔ باقی سب لوگ عوام یا رعایا تھے۔ (۲) دوسرا اصول فرق مراتب یا طبقات کا تھا جو معاشرتی درجہ بندی کا نظام تھا اور فرق مراتب کے اصولوں کے مطابق کام کرتا تھا۔ (۳) تیسرا اصول ملت کا تھا۔ جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کا نظام تھا۔ ان کے مذہبی اور معاشی حقوق کی حفاظت ملت کے قواعد کے تحت ان کے مذہبی رہنما یا ترجمان کرتے تھے۔ (۴) چوتھا اصول حرفت کا تھا جس میں مختلف پیشوں کی تنظیمیں قائم تھیں جو مقررہ قواعد اور قوانین کے تحت بازار اور پیشوں کے نظام کو چلاتی تھیں۔ ان کے مابین جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے الگ سے منصف مقرر تھے۔ پیشوں کی اس تقسیم کا اطلاق فوجیوں پر نہیں ہوتا تھا۔ وہ براہِ راست پادشاہی نظام کے ماتحت تھے۔ (۵) پانچواں اصول نظام یا فطرت کہلاتا تھا۔ جو اس پورے نظام کی وجہ جواز تھا۔ یعنی نظم و ضبط قانون فطرت ہے اور اس نظام میں ہر شخص کے ساتھ اس گروہ اور حیثیت کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ (۶) چھٹا اصول حفظ نظام کا تھا۔ یعنی اس نظام پر عمل کو یقینی بنانے کے لیے ادارے اور قوانین کا اجرا۔
قرونِ وسطیٰ کے اس نظام میں شکست و ریخت اٹھارہویں صدی میں شروع ہوئی۔ بالآخر ۱۸۰۹ کا فرمان جاری ہوا جس میں مختلف معاشرتی طبقات کے مابین تعلقات کو معاہدات کی شکل دی گئی۔ ان طبقات میں علما، فوج، زمیندار وغیرہ شامل تھے۔ بادشاہ پر یہ معاہدات لاگو نہیں ہوتے تھے کیونکہ ان معاہدات کی ضمانت کا قانونی جواز بادشاہ تھا۔ اسے میگنا کارٹا یا آئین کا نام دینا صحیح نہیں کیونکہ اس کا تعلق بادشاہ کے اختیارات سے نہیں تھا۔
اس نظام میں اختیارات کی تقسیم مذہب اور ریاست کے اعتبار سے نہیں تھی۔ اس لیے جب تک مذہبی طبقات قرونِ وسطیٰ کی طرز زندگی سے وابستہ رہے انھیں سماج کے سیکولر بننے کے عمل سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ بلکہ اس تبدیلی کا احساس بھی نہیں ہوا۔ مسیحی دنیا میں قرونِ وسطیٰ کے طرزِ زندگی کے خاتمے کا مطلب مذہب اور ریاست میں اختیارات کی تقسیم کا خاتمہ تھا۔ جب قرونِ وسطیٰ کے طرزِ زندگی سے رشتہ ٹوٹا تو سیکولرزم کے اثرات شروع ہوئے۔ اسلام میں مذہب اور ریاست کی تقسیم دوئی کی بنیاد پر نہیں تھی، بلکہ مذہب اور ریاست دونوں کی بنیاد مذہب پر تھی اور دونوں مذہب سے جڑے ہوئے تھے۔ ریاست مذہب سے تشکیل پاتی تھی اور مذہب ریاست کا اصل الاصول تھا۔ اسی لیے سیکولرزم کو مذہب کا خاتمہ سمجھا گیا۔ مغربی جدیدیت پسندوں کا یہ استدلال کہ مسلم معاشروں کا سیکولرزم اور سیکولرائزیشن سے کوئی سروکار نہیں، صحیح نہیں۔ اسی طرح اسلامی جدیدت پسندوں کا یہ کہنا کہ مسیحی اور اسلامی تاریخ میں فرق یہ ہے کہ ان دونوں کے مذہبی اور ریاستی اداروں اور مذہب اور سیاست کی درجہ بندی مختلف تھی جس کا اثر ان کے سیکولرزم کے بارے میں تصورات پر پڑا۔ حالانکہ دونوں کے ہاں روحانی اور مادی کو ملانے اور انھیں روایت کے ماتحت رکھنے کی کوششیں ہوئیں۔
سیکولرائزیشن روحانی اور مقدس اختیارات کو غیر مقدس، دنیاوی اور عوامی نظام میں بدلنے کا نام تھا۔ غیر مسیحی ریاست میں مذہبی اختیار کو سیاسی شکل دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مسیحیت میں مذہب کی حیثیت استثنائی تھی۔ غیر مسیحی معاشروں میں سوال یہ تھا کہ کیا مذہبی قوانین زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ان کے نفاذ کا اختیار کس کو ہے؟
برکس اس بحث کا ماحصل یوں بیان کرتے ہیں:
سیکولرزم میں بنیادی تصادم دین اور دنیا میں نہیں، جیسا کہ مسیحیت میں بتا یا گیا۔ اصل میں تصادم روایت کی حامی قوتوں کے جو دین اور مقدس قوانین کا غلبہ چاہتی ہیں اور تبدیلی اور انقلاب کی قوتوں کے مابین ہے۔ یہ تصادم ان معاشروں میں بھی ملتا ہے جہاں چرچ جیسے ادارے موجود نہیں۔ اور ایسے معاشرے میں بھی جہاں روایت کو اکثریت کے مذہب کی حمایت حاصل ہو۔ دوسری قسم کے معاشروں کو سیکولرزم زیر و زبر کر ڈالتا ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں مسلم علما مذہب کے بارے میں گنجائش کا رویہ اپناتے تھے۔ مذہب میں نئے معمولات، اور ایسی کمی بیشی کے اضافے کا نام بدعت ہے جس کی سنت تائید نہ کرے۔ علما ہر بدعت کو رد نہیں کرتے تھے۔ ان میں بہت سی نئی باتوں کو وہ بدعت حسنہ کہہ کر جواز فراہم کرتے تھے۔علما کے وہ طبقے جو اقتدار کے مرکز سے دورتھے وہ اس گنجائش کے خلاف تھے۔ یہیں سے مذہب اور ریاست کے تعلقات میں دراڑ آنی شروع ہوئی۔ اس کشمکش کی علامات ۱۵۹۰ میں دوسرے ہجری ہزاریے کے آغاز میں ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ انیسویں صدی میں تنظیمات یا اصلاحات کے نظام کی مخالفت کے بعد تو مذہب اور ریاست پوری طرح علیٰحدہ ہوگئے۔

عرب دنیا
عرب دنیا میں مسیحی اور دوسرے مذاہب اقلیت میں تھے اورمسلم اکثریت میں۔ لیکن عربی زبان مشترکہ ہونے کی وجہ سے ثقافتی اشتراک مضبوط تھا۔ عربوں میں عرب قومیت سلطنت عثمانیہ کی مخا لفت کی تحریک کے طور پر ابھری۔ یہاں عثمانی سلطنت مذہبی اقتدار کی علامت تھی۔ مسلم اور مسیحی عرب دونوں عثمانیوں سے آزادی چاہتے تھے اس لیے سیکولرزم مقبول ہوا۔ چند اسلامی تحریکیں سیکولرزم کے خلاف تھیں لیکن عرب قومیت کے مقابلے میں ان کی آواز بہت کمزور تھی۔ عرب دنیا ویسے بھی اب متعدد قومی ریاستوں میں تقسیم تھی۔ پان اسلام کے مقابلے میں پان عرب یا وحدت عربیہ کا نعرہ زیادہ بامعنی تھا۔ پان اسلامزم یا وحدتِ ملتِ مسلمہ کا مطلب سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی بھی بنتا تھا اس لیے اس کو وہ قبولیت نہ مل سکی جو عرب قومیت کو حاصل تھی۔ عرب قومیت کو بڑا دھچکا ۱۹۶۷ میں رمضان کی چھ روزہ سے جنگ سے پہنچا اور بعد میں خلیج کی جنگ ۱۹۹۰ میں تو سیکولرزم اور قومیت کا بہت حد تک خاتمہ ہو گیا۔ پان اسلامزم کی تحریکیں زیادہ قوت کے ساتھ سامنے آئیں۔ان تحریکوں نے سیکولرزم کی تردید ان نئے حالات میں پیش کی تو وہ عوام میں مقبول ہو گئی۔

یوسف القرضاوی ( ۱۹۲۶ )
شیخ یوسف القرضاوی کا تعلق مصر سے ہے لیکن ایک عرصے سے قطر میں مقیم ہیں۔ ان کا تعلق اسلامی تحریکوں کے معتدل طبقے سے ہے۔ تاہم سیکولرزم کے بارے میں ان کا رویہ معتدل نہیں۔ ان کے نزدیک سیکولرزم کا مطلب لادینی اور دنیاوی طرز فکر ہے۔ سیکولرزم کے بارے میں شیخ کی اسلامی تعبیرات ان کی کتاب الاسلام و العلمانیہ (۱۹۷۶) سے لی گئی ہیں۔ اس کتاب کا تاریخی سیاق علی عبدالرازق کی کتاب الاسلام و اصول الحکم ہے جو ۵ ۱۹۲میں الازہر میں تحقیقی مقالہ کے طور پر پیش ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب ترکی میں خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ علی عبد الرازق کا کہنا تھا کہ ریاست اسلام کے قیام کے لیے ضروری نہیں۔ ۱۹۸۶ میں فواد زکریا نے علی عبدا لرازق کے حق میں لکھا تو شیخ قرضاوی نے اس کی سختی سے تردید کی جو اس کتاب میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور اس کا اردو سمیت دوسری کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔
شیخ قرضاوی کا اصرار ہے کہ دینی اور غیر دینی کی تقسیم کا اسلام سے تعلق نہیں بلکی یہ مغربی سوچ ہے (قرضاوی ۱۹۹۷)۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ لادینی اور غیر دینی کو ہم معنی بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیکولرزم اسلام سے متصادم ہے اور مسلم معاشرے میں کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ البتہ وہ سیکولرزم اور الحاد میں فرق کرتے ہیں۔ الحاد کا مطلب خدا کے وجود سے انکار ہے۔ لیکن سیکولرزم کا معنی خدا کے وجود سے انکار نہیں۔ مغرب میں بھی اس کا یہ معنی نہیں۔ مغرب میں اس کا مطلب یہ ہے کہ چرچ کو روزمرہ زندگی میں اور سائنس کے امور میں دخل کا کوئی حق نہیں۔ ان کے ہاں مذہب چرچ اور پادریوں کی شکل میں موجود تھا۔ اور انہیں حکومت، سیاست، معیشت، تعلیم ثقافت اور سماجی امور میں دخل دینے کا حق نہیں (قرضاوی ۱۹۹۷)۔ وہ مذہب اور سیاست کی تفریق کے قائل نہیں۔ اسلام اس تفریق کو قبول نہیں کرتا۔ سیکولرزم اس تفریق کا مطالبہ کرتا ہے اس لیے سیکولرزم کفر کی دعوت ہے۔ قرضاوی کی رائے میں سیکولرزم ارتداد ہے اور سیکولر کے لیے کفر اور ارتداد کی سزا ہے۔
القرضاوی نے لکھا ہے کہ مسیحیت اور اسلام میں سیکولرزم کے بارے میں اختلاف ہے اس لیے مسیحی معاشرہ سیکولرزم قبول کر سکتا ہے لیکن مسلم معاشرہ نہیں۔ ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت میں شریعت کا کوئی تصور نہیں۔ مسیحی ریاست کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہیں۔ قرضاوی کی رائے میں سیکولرزم کی حمایت کا مطلب شریعت سے، الوہی ہدایت سے، اور خدا کے وجود سے انکار ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ دہریت ہے اور ترکِ اسلام کے مترادف ارتداد ہے۔

راشد الغنوشی(۱۹۴۱)
شیخ القرضاوی کی طرح راشد الغنوشی بھی سیاسی اسلامی تحریکوں سے وابستہ تھے۔ تونس میں النہضہ پارٹی کے بانی سربراہ ہیں لیکن ۱۹۶۰ کے بعد سے تونس کے استبدادی نظام کے خلاف جدو جہد میں یہ آزادی رائے اور انسانی حقوق کی تحریک میں سرگرم ہو گئے۔عرب بہار کی تحریک جس کا آغاز تونس سے ہوا، آمریت کے خلاف تھی۔ النہضہ بر سر اقتدار آئی تو غنوشی نے آزادی کے موضوع پر بہت واضح موقف اختیار کیا۔
راشد الغنوشی نے ۲ مارچ ۲۰۱۲ میں سیکولرزم اور مذہب کے مابین تعلقات کے بارے میں اپنی جماعت کا مؤقف بیان کرتے ہوئے ایک مفصل تقریر کی جس کا خلاصہ یوں ہے:
سیکولرزم کا کوئی ایک واضح تصور نہیں۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اس وقت دنیا میں سیکولرزم کے متعدد تصورات رائج ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کی یہ کوئی فلسفیانہ یا نظریاتی تصور نہیں بلکہ اگر یورپ کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ ایک ’’ انتظامی بندوبست‘‘ کے طورپر ابھرا ہے۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر تو پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کی باہمی آویزش اور سولہویں اور سترہویں صدی میں حصولِ اقتدار کی جنگیں ہیں۔ جن میں آخر کار اس بات پر سمجھوتا ہوا کہ ریاست اس آویزش میں غیر جانبدار رہے۔ اس میں انتظامی بندوبست یہ تھا کہ ریاست اور مذہب نے دائرۂ اقتدار باہم تقسیم کر لیے۔ پبلک یعنی انتظامی امور ریاست کے پاس اور انفرادی مذہب کے پاس چلے گئے۔ لیکن اس تقسیم میں بھی عملی طور پربہت سے اختلافات باقی رہے۔
امریکہ میں چرچ کی طاقت اور یورپ سے امریکہ کی جانب ہجرت کی مذہبی نوعیت کی وجہ سے مذہب کا ریاست میں عمل دخل اب تک جاری ہے۔ ریاست پوری طرح غیر جانبدار نہیں۔ یورپ کے ملکوں میں بھی اسی طرح کے اختلافات اب بھی باقی ہیں۔ نمایاں فرق فرانس اور انگلستان کا ہے۔ برطانیہ میں ریاست اور مذہب کی سربراہی ملکہ یا بادشاہ کے پاس ہے۔ فرانس مذہب اور ریاست میں مکمل فرق کا قائل ہے۔ اس فرق کی ایک وجہ تو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کا اختلاف ہے۔ فرانس میں انقلاب کا مقصد بادشاہت اور کیتھولک چرچ کے اقتدار سے آزادی تھی۔ جیکوبین انقلابیوں کا نعرہ تھا کہ’’ آخری بادشاہ کو پاپائیت کی انتڑیوں سے گلا گھونٹ کر پھانسی دو‘‘۔ تونس میں مذہب اور ریاست میں مکمل تفریق کے رجحانات فرانس کے تاریخی تجربے سے متاثر ہوئے۔ ریاست غیر جانبدار تھی لیکن مذہب کو انفرادی زندگی میں مکمل آزادی تھی۔
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مذہب اور ریاست میں کبھی تفریق نہیں تھی۔ میثاقِ مدینہ میں ریاست کی سربراہی حضرت محمدﷺ کی تھی۔ نبی اکرمؐ اور مدینہ کے شہریوں کے درمیان معاہدے کی نوعیت بھی مذہبی تھی۔ لیکن یہ معاہدہ مذاہب میں تفریق نہیں کرتا تھا۔ اس میں مسلمان، یہودی اور مشرکین سبھی برابر تھے۔ سب کو مذہبی آزادی حاصل تھی لیکن سب مدینہ کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔ تبدیلی یہ تھی کہ یہ ریاست بدویت سے شہریت کی جانب منتقلی کی داعی تھی۔ یثرب کو مدینہ یعنی شہر میں تبدیل کیا گیا۔ بدوی قبائل کو مدنیت اور حضارت میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ یہ ایک ثقافتی اصول تھا۔ مسلمان جہاں بھی گئے وہاں سب سے پہلے شہر تعمیر کیے۔
دوسری تبدیلی تحریری معاہدے کا اصول تھا جو صحیفہ ( میثاق مدینہ) کی شکل میں متعارف ہوا۔ اس صحیفے میں ریاست کے دو اصول تھے :۱۔ ریاست اور شہریوں کے حقوق و فرائض اور۲۔ مذہب اور ریاست کے دائرۂ کار کی حد بندی۔ یہ حد بندی نبی کریمؐ کی سیرت میں اسوہ کے طور پر بھی موجود تھی جو وحی اور رائے یا حکم الٰہی اور انسانی قانون میں فرق پر مبنی تھی۔ رسول اللہ نے کھجور کے پیوند والے واقعے میں یہ اصول دیا کہ ان کا ہر مشورہ وحی نہیں۔ اسی لیے بعض اوقات صحابہ اور صحابیات رسول اللہ سے پوچھ بھی لیتے تھے کہ ان کا فرمان ذاتی رائے ہے یا وحی الٰہی۔
اسلامی روایت میں بھی اس حد بندی پر عمل رہا۔ فقہ میں عبادات اور معاملات میں فرق اس کی مثال ہے۔ عباسی دور کے کئی اہم واقعات سے بھی یہی پتا چلتا ہے۔ امام مالک نے خلیفہ منصور کی اس تجویز کو کہ ’’الموطا‘‘ کو ملک کا قانون بنا دیا جائے اس لیے مسترد کردیا کہ ریاست کسی ایک مذہب یا شخص کی رائے کو دوسروں پر مسلط کرکے اپنی غیر جانبداری سے دستبردار نہیں ہوگی۔ اسی طرح جب خلیفہ مامون نے معتزلی عقائد کو ریاست کے زور سے نافذ کر نا چاہا تو اہلِ مذہب نے شدید مزاحمت کی۔ جدید دور میں سیاسی جماعتوں نے اس اصول کو فراموش کیا تو امت انتہا پسندی کا شکار ہوئی۔ مسیحی دنیا میں بھی کیتھولک پوپ جان پال دوم اور روسی چرچ نے ’’ ریاست کو مذہب کا بوجھ اٹھانے اور یوں مذہب پر بوجھ بننے‘‘ سے منع کیا۔
راشد غنوشی کی رائے میں ریاست اور مذہب میں حد بندی کی ضرورت کے کئی اسباب ہیں۔ اوّل تو فرانس اور کمیونزم کے مذہب اور ریاست میں تفریق کے حالیہ تجربات سے ثابت ہے کہ ریاست اور مذہب میں دوری سے ریاست مافیا کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو کسی بھی قسم کی اقدار کی پابند نہیں رہتی۔ دوسرے ریاست کو مذہبی اقتدار دینے سے ریاست غیر جانبدار نہیں رہتی۔ یہ مذہبی اقتدار آئیڈیالوجی کے نام پر ہو یا کسی مخصوص مذہبی نظریے کے نام پر۔ حجاب کے مسئلے کو ہی لے لیں۔ ریاست کی جانب سے حجاب کی ممانعت بھی اتنی ہی جانبداری ہے جتنا کہ کسی ریاست کی جانب سے حجاب کا نفاذ۔
ریاست کی غیر جانبداری کے لیے مذہب اور سیاست میں توازن لازم ہے۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے جب ایک طرف تو مذہب اور سیاست کے دائرۂ کار میں حد بندی کی جائے اور دوسری جانب مذہب میں ابدی اور غیر ابدی یا غیر متبدل اور متبدل میں فرق رکھا جائے۔ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن کا قیام، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت، ان کو صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا ہے، ان کے افکار اور عقائد پر پابندیاں عائد کرنا نہیں۔
ریاست کے اسلامی ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ لوگوں کو اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی کو یقینی بنائے۔ اس کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کو کسی خاص مذہبی ادارے یا مسلک کی پابندی پر مجبور کرے۔ یہ حق عوام کا ہے کہ وہ یہ فیصلے عوامی اداروں کے ذریعے کریں۔ جہاں تک سیکولرزم کا تعلق ہے اس کے متعلق جھگڑے کی وجہ اس کے بارے میں لاعلمی اور غلط فہمیاں ہیں۔ ’’سیکولرزم نہ الحاد ہے نہ دہریت، یہ محض انتظامی بندوبست کی ایک شکل ہے تاکہ عقیدہ اور فکر کی آزادی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ شہریت کا اصول ہے کہ ملک کسی ایک سیاسی جماعت کی ملکیت نہیں۔ یہ سب شہریوں کا ہے جن میں مذہب، نسل اور جنس کی بنیاد پر امتیاز روا نہیں‘‘۔

جنوب مشرقی ایشیا
جنوب مشرقی ایشیا کی معاشرت دوسرے مسلم ممالک سے مختلف ہے۔ یہاں مسلم اکثریت کے باوجود اقلیتوں کو سیاسی اور سماجی آزادی حاصل ہے۔ ثقافتی اور معاشی اختلافات ہیں لیکن حصولِ آزادی میں مشترکہ سیاسی جد وجہد کی وجہ سے اسے مثبت تنوع کے طور پر اپنا لیا گیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں علما عرب دنیا اور جنوبی ایشیا سے مسلسل رابطوں میں رہنے کی وجہ سے ان علاقوں میں برپا علمی، سیاسی اور مذہبی تحریکوں میں مسلسل شریک رہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں جہاں انڈونیشیا میں سیکولرزم کو ناگزیر سمجھتے ہوئے رسمی طور پر اپنا لیا گیا ہے وہاں ملائشیا میں مذہبی تشخص کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ مطالعے کے لیے ہم نے سید نقیب العطاس کو لیا ہے تاکہ اس علاقے میں تنوع کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔

سید محمد نقیب العطاس (۱۹۳۱ )
سید العطاس کے مطابق ’’ سیکولر کا لفظ زمان اور مکان کے دہرے مفہوم میں بولا جاتا ہے یعنی اب اور اس جگہ۔ تصور کے اعتبار سے سیکولر کا مطلب دنیا کے وہ حالات ہیں جو کسی خاص وقت اور عہد سے تعلق رکھتے ہوں‘‘ (عطاس ۱۹۹۳، ۱۶)۔ سیکولرائزیشن اس عمل کا نام ہے جو انسان کی زبان اور عقل کو مذہبی اور مابعد الطبیعیاتی سوچ سے نجات دلائے۔ قرضاوی کی طرح العطاس بھی کہتے ہیں کہ سیکولرزم مسیحیت میں تو ممکن ہے اسلام میں نہیں۔ ان کے نزدیک سیکولرزم کی جڑیں بائبل کی نصوص اور عقائد میں نہیں بلکہ ان کی مغربی تعبیر میں ملتی ہیں۔ ان معنوں میں اسلام سے ان کا کوئی تعلق نظرنہیں آتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیکولرزم کا تعلق قرآن کریم میں مذکور دنیوی زندگی کے تصور سے جوڑا جاسکتا ہے جو زندگی کا اعلیٰ اور مثالی تصور نہیں۔
اسلام کی رو سے دنیاوی زندگی بھی قانونِ الٰہی کے ماتحت ہے اور سیاسی اور سماجی اداروں کا قانونی جواز بھی الٰہی قانون کی پابندی پر منحصر ہے۔ ’’چنانچہ مسلمان ذاتی حیثیت میں اور اجتماعی طور پر معاشرے، قوم اور امت کی حیثیت سے کسی شخص، حکومت اور ریاست کو شرعی طور پر اسی صورت میں جائز سمجھتے ہیں جب وہ سنت کے تابع ہو اور اللہ کی نازل کردہ شریعت پر عمل پیرا ہو‘‘۔ سیکولرزم ایک آئیڈیالوجی اور نظریۂ حیات ہے اور سیکولرائزیشن اس پر عمل کا نام ہے۔
عطاس اسلام اور سیکولرزم کو باہم متضاد نظریۂ حیات سمجھتے ہیں ، ایک کی موجودگی میں دوسرا پنپ نہیں سکتا۔ تاہم وہ اسلام اور مسیحیت میں اور اسلامی اور یورپی فکر میں فرق کرتے ہیں۔ان دونوں کے دینی کلامیاتی اور فلسفیانہ فکری معیارات الگ الگ ہیں۔ جدید سائنس چیزوں کو محض مادی چیز سمجھتی ہے اس لیے صرف ظاہر کے مطالعے کو علم کا مقصد قرار دیتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مادی فوائد یقیناً بہت ہیں لیکن اس طرزِ فکر کے ساتھ فطرت کو تباہ کرنے کی لامتناہی اہلیت اور کبھی نہ بجھنے والی پیاس بھی پیدا ہوئی ہے۔ کائنات اور فطرت کا کوئی مقصد یا اصول نہ ماننے سے انسان یہ سوچنے لگا ہے کہ وہ خدا ہے یا خدا کا شریک۔ کسی مقصد کے بغیر علم کا سفر حقیقت سے دور لے جاتا ہے۔ اسی وجہ سے خود علم کی تحصیل کا جواز مشکوک ہو گیا ہے۔
عطاس کی نظر میں مغربی تہذیب مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے لیکن کسی وجود میں آئے بغیر محض وجود پذیر رہتی ہے۔ مغرب کے اس تہذیبی رجحان کے زیرِ اثر بہت سی قومیں اور ادارے ترقی کے اہداف اور تعلیم کے مقاصد پر بار بار نظر ثانی کر رہے ہیں۔ اسلامی مابعد الطبیعیات میں حقیقت تغیر اور ثبات دونوں سے ترتیب پاتی ہے۔ ظاہری کائنات کے جن پہلوؤں کو ثابت سمجھا جاتا ہے وہ مسلسل بدل رہے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ اسلام بھی مسیحیت کی طرح انھی تبدیلیوں کے تجربات سے گزرے گا، غلط ہے۔ مسیحیت کی طرح اسلام بھی سیکولرائزیشن کے اس عمل سے گزرا ہے لیکن مغربی انسان کے بر عکس مسلمان اپنے ایمان پر قائم ہیں۔

جنوبی ایشیا
جنوبی ایشیا میں مسلمان اقلیت میں ہوتے ہوئے ایک طویل عرصہ بر سرِ اقتدار رہے۔ رعایا کی اکثریت غیر مسلم تھی۔ بادشاہ مسلمان تھے لیکن اکثریت مذہبی نہیں تھی۔ علما کو دہلی سلطنت اور مغل ادوار دونوں میں ریاست سے شکایت ہی رہی کہ وہ غیر مسلموں کو اسلامی شریعت سے زیادہ حقوق دے رہے ہیں۔ ضیاء الدین برنی نے فتاویٰ جہانداری میں شکوہ کیا کہ شافعی مذہب ہوتا تو غیر مسلموں کے لیے ضروری ہوتا کہ وہ اسلام قبول کرتے یا مسلسل جہاد کا سامنا کرتے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو بر صغیر میں مسلمان اقلیت میں نہ ہوتے۔ برطانوی استعمار کا ہندوؤں نے خصوصاً خیر مقدم کیا۔ استعمار کے دور میں مذہب اور سیاست کے نئے مفہوم سامنے آئے۔ روایتی علما کی اکثریت مذہب اور سیاست میں فرق کی قائل تھی۔ شاہی دربار وں میں حاضری ایک عالم کی شان کے خلاف سمجھی جاتی تھی۔ دِقت اس وقت پیش آئی جب آزادی کی تحریک میں علما کی شمولیت کی ضرورت پڑی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جب علما کو بہت مشکل سے سیاست میں لایا گیا تو اس وقت خلافت کی تحریک چل رہی تھی۔ شروع میں یہ تحریک برطانوی استعمار کے خلاف تھی جسے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں اتاترک کے سیکولرزم کی مخالفت میں برپا رہی۔ عالمگیر جنگ میں ترکی برطانیہ مخالف اتحاد کا حصہ تھا۔ اس لیے یہ تحریک بتدریج ختم ہو گئی۔
جنوبی ایشیا میں سیکولرزم کی بحث کے عام طور پر دو حوالے رہے۔ ایک کا تعلق ترکی میں سیکولرزم سے تھا جو فرانسیسی سیکولرزم سے متاثرتھا۔ اس کا ذکر اوپر ہو چکا۔ اس کا تفصیلی تجزیہ علامہ اقبال کے ہاں ملتا ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ دوسرا حوالہ بھارتی سیکولرزم کا ہے جو برطانوی سیکولرزم سے متاثر تھا۔ اس کا تجزیہ بھی آگے آ ئے گا۔ لیکن اس کا مختصر ذکر ضروری ہے۔
بر صغیر میں آزادی کی تحریک ایک طویل عرصے تک مشترک رہی جس کے لیے ہندو مسلم اتحاد ضروری تھا۔ اس اتحاد کی ایک صورت سیکولرزم کا نظریہ بھی تھا۔۔ اتحاد کے مخالفین کو کمیونل یا فرقہ پرست کا نام دیا جاتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگرس ہندو مسلم اتحاد اور سیکولرزم کی ترجمان تھی۔ اس میں شامل مسلم بطور اقلیت اس اتحاد میں خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔ کیونکہ برطانوی سیکولرزم میں ریاست مذہبی آزادی کو تحفظ دیتی تھی۔ اسی لیے جمعیت العلما ئے ہندنے کانگرس کا ساتھ دیا۔ مسلم لیگ کو مسلم اشرافیہ کی حمایت حاصل تھی۔ مسلم لیگ نے مسلم نیشنلزم کا دو قومی نظریہ پیش کیا۔ اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ سیاسی نظام کا مطالبہ کیا جو بتدریج پاکستان تحریک میں بدلتا گیا۔ قومیت کے بارے میں علما میں اختلافات تھے۔ جمال الدین افغانی جو پان اسلامزم کے حامی اور برطانوی استعمار کے مخالف تھے، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں بہت مقبول رہے۔ تاہم پاکستان کی تحریک پان اسلامزم کی بجائے ایک قومی تحریک بنی جو جنوبی ایشیا میں مسلم قومیت پر مبنی تھی۔ جن مسلم علما نے کانگریس کا ساتھ دیا وہ سیکولرزم کے حامی تھے۔ قاری طیب کی کتاب اسلامی حکومت میں سیکولرزم کے اسی مفہوم کو لیا گیا ہے۔
پاکستان میں سیکولرزم کی تعریف آئیڈیالوجی کے ضمن میں کی گئی۔ یہ اصطلاح مذہب کے مترادف معانی میں متعارف ہوئی۔۱۹۷۰ کی دہائی میں اسے سرکاری طورپر مذہبی نظریۂ حیات کے معنوں میں اپنا لیا گیا۔ اسلامی قانون کا آئینی ادارہ جو ۱۹۶۰ کے آئین میں مشاورتی ادارے کی حیثیت سے قائم ہوا تھا ۱۹۷۳ کے آئین میں اسے کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کا نیا نام دیا گیا۔ ۱۹۷۹ میں اسلام کے نظریاتی نفاذ کے دور میں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی افواجِ پاکستان کی ذمہ داری طے پائی۔ اسی تناظر میں نظریۂ پاکستان کی تشکیلِ نو بھی بطور آئیڈیالوجی مکمل ہوتی گئی۔۱۹۴۱ کی قراردادِ لاہورکی جگہ جو قراردادِ پاکستان بھی کہلاتی تھی، ۱۹۴۹ کی قرارداد مقاصد کو نظریہ پاکستان کا درجہ ملا اور۱۹۷۳ کے آئین میں یہ قرار داد پہلے اس کا مقدمہ اور اور بعد میں آئین کا حصہ بنی۔ اس قررداد میں مذہب اور ریاست کے بارے میں اٹھنے والے بہت سے سوالات کے جوابات اتفاق رائے سے طے کردیے گئے۔ اب یہ آئیڈیالوجی پاکستان کا آئین ہے۔

محمد اقبال (۱۸۷۷۔۱۹۳۸)
علامہ محمد اقبال کے ہاں سیکولرزم پر بحث بنیادی طور پر ترکی کے حالات کے حوالے سے ہے۔ ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے بعد نئی قومی ریاست پر گفت و شنید میں دو رجحانات غالب تھے جن کی ترجمانی نیشنلسٹ پارٹی اور ریلیجس ریفارم پارٹی دو سیاسی جماعتیں کر رہی تھیں۔ نیشنلسٹ پارٹی کی سیاسی فکر میں ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ قومی ریاست میں بنیادی کردار ریاست کا ہوتا ہے اور وہی دوسرے اداروں کے دائرۂ کار اور مناصب کا تعین کرتی ہے۔ اس لیے وہ مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کو قدیم تصور قرار دے کر رد کر رہے تھے۔ اس کے برعکس ریلیجس ریفارم پارٹی کے رہنما سعید حلیم پاشا کا اصرار تھا کہ جدید دور میں اسلام ہی عالمی تصور کے آئیڈ یلزم (مثالیت)اور قومیت کے محدود پوزیٹوزم (اثباتیت) میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے۔ اقبال مذہب اور ریاست کو روحانی اور مادی کے دو الگ دائروں میں تقسیم کرنے کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے ان میں تفریق یا ہم آہنگی کا سوال بے معنی تھا۔ اسلام میں یہ ایک ہی حقیقت ہے جو ایک زاویے سے چرچ اور دوسرے سے ریاست نظر آتی ہے۔
اقبال یہ وضاحت بھی کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا سیکولرزم کو دیکھنے کا زاویہ یورپ سے مختلف ہے۔تاہم چرچ کو سٹیٹ سے الگ رکھنے کا خیال اسلام کے لیے اجنبی نہیں۔ امام کی غیبت کبری کے عقیدے کی بنا پر شیعی ایران میں یہ تفریق بہت پہلے عمل میں آچکی تھی۔اسلام میں ریاست کے دائرہ کار میں دینی اور سیاسی مناصب کی تقسیم کو یورپ میں چرچ اور سٹیٹ میں تفریق کے ہم معنی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسلام میں یہ صرف ریاست کے کام اور دائرۂ کار کی تقسیم ہے۔ یورپ میں اس تقسیم کی بنیاد روح اور مادہ کی مابعد الطبیعیاتی دوئی اور امتیاز ہے۔ اقبال کا اصرار ہے کہ ’’اسلام ابتدا سے ہی ایک سول سوسائٹی ہے جہاں قانون اپنی نوعیت میں سول ہے اگرچہ عقیدے کی رو سے اس کا منبع وحی الٰہی ہے۔‘‘ ( اقبال:۱۹۷۶، ص۷۴۔۸۴)۔ ان عبارات میں سول کا وہی مفہوم ہے جو آج کل سیکولر کا ہے۔
جواہر لال نہرو نے ۱۹۳۷ میں جب مذہب اور قومیت کی بحث اٹھا ئی اور مذہب کو قومیانے کی بات کی تو اس نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اتاترک نے جب مذہبی امور میں دخل دیا اور مذہبی معاملات میں اصلاحات کیں تو کیا اس نے اسلام کو ترک نہیں کردیا ؟ اورکیا یہ اصلاحات بھی دائرۂ اسلام سے خارج نہیں تھیں؟
اقبال نے بہت تفصیل سے ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اتا ترک ترکی زبان، یورپی لباس اور یورپی قوانین کے اختیار کرنے سے اسلام سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ اسلام کا قانون سول اور معاشرہ اپنی اصل میں سول ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ ترکی نے ترقی کے لیے جو مادی سوچ اپنائی ہے، کیا وہ اسلام کے متضاد ہے ؟ اقبال نے لکھا کہ مسلمانوں نے ترک دنیا اور مادی ترقی سے بہت دیر منہ موڑ لیا اب وقت ہے کہ وہ حقیقت پسند بنیں۔ مذہب کے خلاف جنگ میں مادیت کا ہتھیار ناکارہ ہے لیکن ملائیت اور صوفیت کے خلاف بہت کار آمد ہے کیونکہ یہ دونوں عوام کی جہالت اور جلد یقین کر لینے کی عادت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جان بوجھ کر مادیت کے بارے میں غلط فہمی پھیلاتے ہیں۔ اسلام کی روح مادے سے تعلق پر خوفزدہ نہیں ہوتی۔ بلکہ قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھولو۔ جیسے اللہ نے تمھارے لیے اچھا کیا ہے تم بھی اچھائی کرو۔ زمین پر فساد نہ چاہو، اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا (۲۸: ۷۷)۔ غیر مسلم کے لیے اسلام کے یہ احکام نا قابلِ فہم ہیں کیونکہ پچھلی چند صدیوں میں مسلم دنیا کی تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی۔ مادی نقطہ نظر خودی کے اظہار کی ہی ایک شکل ہے (اقبال:۱۹۷۶)۔
کیا قدیم لباس ترک کرنا یا لاطینی رسم الخط اپنانا ترکِ اسلام ہے؟ اقبال جواب دیتے ہیں کہ بطور دین اسلام کا کوئی ملک نہیں۔ بطور معاشرہ مسلمانوں کا کوئی مخصوص لباس یا زبان نہیں۔ حتیٰ کہ قرآن کو عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں تلاوت کے بارے میں مسلم تاریخ میں نظائر موجود ہیں۔ ’’ فقہ اسلامی کے مطابق مسلم ریاست کے امیر کو اختیار ہے کہ اگر اسے یقین ہو کہ کوئی فعل جس کی قانون نے اجازت دی ہے فساد کا باعث بن رہا ہے تو وہ اسے ممنوع قرار دے سکتا ہے۔ جہاں تک سند یافتہ علما کے علاوہ باقی کو فتویٰ سے منع کرنے کا سوال ہے تو اقبال نے لکھا کہ مجھے اختیار ہو تو میں مسلم ہندوستان میں لازماً یہ قانون متعارف کرا دوں تاکہ قصہ گو ملا کی ایجادات کو روکا جا سکے جو اکثر عام مسلمان کی سادہ لوحی کا استحصال کرتا ہے۔ اتاترک نے ایسے ملا کو عام آدمی کی مذہبی زندگی سے خارج کر کے ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کے دلوں کو خوش کردیا ہے (اقبال: ۱۹۷۶، ۴۴)۔
علامہ اقبال کے نزدیک ریاست کو مذہبی اصلاحات کا حق ہے کیونکہ اسلام میں مذہبی تعلیمات کی اشاعت ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ حدیث نبوی کی رو سے صرف ریاست کے امیر یا اس کے مقرر کردہ افراد کو دین کی تبلیغ کا حق ہے۔ معلوم نہیں اتا ترک اس حدیث سے واقف تھا لیکن یہ معمولی بات نہیں کہ اس اہم معاملے میں اس کے اسلامی ضمیر نے اصلاحی اقدامات کو کس طرح روشنی فراہم کی (اقبال:۱۹۷۶، ۴۵)۔
مختصر یہ کہ اقبال کے ہاں سیکولرزم کی بنیاد اور مذہب اور سیاست کی یکجائی کا محرک سیاسی، قانونی اور سماجی اصلاحات کی ناگزیری کا اصول ہے۔ فکر اقبال میں سیکولرزم کا مطلب چرچ کے اقتدار کی نفی اور اس اختیار کو ریاست کو منتقل کر نا ہے۔ مولانا مودودی، شیخ القرضاوی اور نقیب العطاس ریاست کو یہ اختیار دینے کے حق میں نہیں۔ وہ اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ اسلامی قانون مکمل اور ناقابلِ تبدیل ہے اصلاحات کے سوال کو غیر واضح رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ یہ کہہ کر کہ اصلاح کا حتمی اختیار صرف علما کو ہے ریاست کو نہیں در اصل چرچ اور ریاست کی دوئی کی بات کرتے ہیں۔
اقبال اس ابہام کو دور کرنے کے لیے اجتہاد کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ تجویز کرتے ہیں کہ یہ اختیار ریاست کے پاس ہونا چاہیے۔ ان کا استدلال ہے کہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں اجماع کا اصول بتدریج علما کے لیے مخصوص ہو گیا۔ اقبال اجتہاد اور اجماع کو اداراتی طور پر یکجا کرنے اور اجتہاد کو ایک جدید جمہوری ادارے میں تبدیل کرنے کی تجویز دے کر اس ابہام کو دور کر تے ہیں۔ اسی طرح اللہ کی حاکمیت کے مبہم اور غیر واضح تصور کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال نے بتا یا کہ امت مجموعی طور پر اور کسی بھی ملک میں عوام خاص طور اللہ کے خلیفہ ہیں۔ جمہوریت در اصل اس خلافت کی ذمہ داری کو فرد کی ذات سے لے کر عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقبال کے ہاں علما یا چرچ کی بجائے ریاست کو اقتدار منتقل کرنے کا نام سیکولرزم ہے۔

سید ابوالاعلی مودودی ( ۱۹۳۹۔ ۱۹۷۹)
مولانا مودودی کے مطابق ’’اسلام ٹھوس اصولوں پر مبنی نظام کا نام ہے‘‘۔ اسلامی آئیڈیالوجی کا بنیادی اصول اللہ کی حاکمیت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قانون سازی کا اختیار انسانوں کے پاس نہیں۔ وہ اس میں ترمیم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ مولانا مودودی کی نظر میں سیکولرزم لا دینیت ہے۔ وہ صرف ایسی جمہوریت کے قائل ہیں جو حکومتِ الٰہیہ کے اصول کو تسلیم کرے۔ تھیا کریسی سے ممیز کرتے ہوئے وہ اسے الٰہی جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ اسلامی ریاست لا دینی جمہوریت نہیں ہو سکتی کیونکہ حاکمیت عوام کی نہیں ہو سکتی۔ وہ مغربی جمہوریت کو حقیقی جمہوریت نہیں مانتے تھے۔ اس جمہوری نظام کی علامت انتخابات کا عمل ہے جس میں کوئی بھی جماعت دولت اور پراپیگنڈے کے زور پر جیت کر اقتدار میں آجاتی ہے۔ اپنے ذاتی اور طبقاتی مفادات کی حفاظت کے لیے قانون بناتی ہے۔ اسلام عوام کو قانون سازی کی کھلی اجازت نہیں دیتا۔ شریعت کے احکام مقرر ہیں۔ سزاؤں کے لیے حدود اللہ کے احکام ہیں، معاشی زندگی کے لیے زکوٰۃ اور ربا اورمعاشرت کے لیے حجاب کے احکام ہیں۔ خواتین کے لیے ان کے مقام کے لحاظ سے حقوق و فرائض ہیں، مرد کی بالادستی، نکاح، طلاق اور تعدد ازواج کی مشروط اجازت اور دیگر اوامر ونواہی کی صورت میں اسلام نے مکمل قانون دیا ہے جو وحی پر مبنی ہے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ وہ دین اور ریاست کو ہم معنی قرار دیتے ہیں۔
قرآن لفظ ’دین‘ کو ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے اور اس سے ایک ایسا نظامِ زندگی مراد لیتا ہے جس میں انسان کسی کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرکے اس کی اطاعت و فرمانبرداری قبول کر لے، اس کے حدود و ضوابط اور قوانین کے تحت زندگی بسر کرے۔۔۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں کوئی اصطلاح ایسی جامع نہیں ہے جو اس پورے نظام پر حاوی ہو۔ موجودہ زمانہ کا لفظ ’’ اسٹیٹ‘‘ کسی حد تک اس کے قریب پہنچ گیا ہے لیکن ابھی اس کو ’’دین‘‘ کے پورے معنوی حدود پر حاوی ہونے کے لیے مزید وسعت درکار ہے (مودودی، ۰۰۰ ۲:۱۳۲)۔
مولانا کے مطابق حسبِ ذیل آیات میں دین اسی اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے:
اہلِ کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ کو مانتے ہیں (یعنی اس کو واحد مقتدر اعلیٰ تسلیم نہیں کرتے) نہ یوم آخرت (یعنی یوم الحساب و الجزا) کو مانتے ہیں، نہ ان چیزوں کو حرام مانتے ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے، ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہیں (توبہ:۹۲)۔
اس آیت میں دین کے چاروں مفاہیم (اللہ مقتدر اعلیٰ ، آخرت، حرام، دین ) کا ذکر ہے۔ قرآن میں قصہ فرعون و موسی کی جتنی تفصیلات آئی ہیں ان کو نظر میں رکھنے کے بعد اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ قرآن میں دین مجرد ’’مذہب‘‘ کے معنی میں نہیں آیا ہے بلکہ ریاست اور نظام تمدن کے معنی میں آیا ہے۔ فرعون کا کہنا یہ تھا کہ کہ اگر موسیٰ اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے تو اسٹیٹ بدل جائے گی۔
مختصر یہ کہ مولانا مودودی کے مطابق سیکولرزم ایک متوازی آئیڈیالوجی ہے جو اسلام میں بنیادی تبدیلیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ اسی بنیاد پر ان کے نزدیک اسلام اور سیکولرزم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام دین ہے اور سیکولرزم لا دینیت۔

فضل الرحمان (۱۹۱۹۔۱۹۸۸)
فضل الرحمان بھی سیکولرزم کی یورپی اور مسلم تفہیم میں فرق پر زوردیتے تھے۔ تاہم وہ اس کا رشتہ یورپ کی ریفارمیشن کی اصلاحِ مذہب کی تحریک سے جوڑتے ہیں۔ یورپی مفکرین یہ سمجھ نہیں پاتے کہ مذہبی معاملات میں اصلاح کا لازمی مطلب سیکولرزم نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے یورپی اور بعض مسلمانوں کی اس تفہیم میں کوئی فرق نہیں جو مذہب میں اصلاح کی ہر تجویز کو سیکولرزم سے جوڑتے ہیں۔ فضل الرحمان لکھتے ہیں کہ’’ مغرب میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ احکامِ شریعت میں کسی بھی تبدیلی کا مطلب سیکولرزم ہے۔ قدامت پسند مسلمان بھی عام طور پر ایسا ہی سوچتے ہیں ( فضل الرحمن:۱۹۷۰،۳۳۱)۔ فضل الرحمان لکھتے ہیں کہ بہت سے جدیدیت پسند اور اعتذاری مصنفین بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سیکولرزم جدیدیت کا اصول ہے۔ امیر علی کی کتاب ’’روحِ اسلام‘ ‘اور اس طرح کا اعتذاری ادب اسی لیے مقبول ہوا کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتا کر خود اعتمادی پیدا کر رہا تھا کہ مسلمانوں نے انھی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے یورپ سے پہلے ترقی کی اور جدیدیت کے لیے جوا زمہیا کیا۔ تاہم اس استدلال کی اعتذاری نوعیت نے ماضی کی ترقی کو کافی سمجھا اور جدیدیت کا کام آگے بڑھانے کی ضرورت نہ سمجھی (فضل ا لرحمان:۱۹۶۹، ۲۵۲)۔
فضل الرحمان برصغیر میں اعتذاری جدیدیت کے بہت بڑے ناقد تھے۔ وہ سرسید کی جدیدیت کو عقلی اور دانشورانہ تحریک قرار دیتے تھے۔ لیکن یہ سر سید کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ سرسید کے بعد جدیدیت دو مرحلوں سے گزری۔ ایک اعتذاری جس میں امیر علی اور دوسرے مصنفین کا استدلال تھا کہ نہ صرف اسلام اور جدیدیت میں کوئی تضاد نہیں بلکہ تاریخی طور پر اسلام انسانی تاریخ کا دورِ جدید ہے۔ جدیدیت کا دوسرا دور علامہ اقبال سے شروع ہوتا ہے جو سیاسی جدیدیت کا مرحلہ ہے۔ اس دور میں جدیدیت پسند مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ اسلام مسلم ریاست کا تقاضا کرتا ہے اور اسلامی قانون، جمہوریت اور قانونی اصلاحات کی تائید کرتا ہے۔ اس مرحلے پر اصلاحات کے ساتھ ساتھ اسلام میں بطور مذہب وسعت کی بات بھی ہوئی۔ فضل الرحمان کے مطابق اس دور میں ماڈرنزم کے اندر کے تضادات جو سرسید کے زمانے سے چلے آرہے تھے، ابھر کر سامنے آئے۔اس تضاد کا ایک شاخسانہ تو یہ استدلال تھا کہ سائنسی علوم کی برتری کی تعریف مغرب سے سیاسی وفاداری کا تقاضا کرتی ہے۔ اقبالی دور میں مغرب کے خلاف سیاسی جد و جہد اور سماجی اور اخلاقی سطح پر مغرب کی مذمت تو اختیار کی گئی۔ تاہم سائنسی علوم میں ان کی برتری کا اعتراف جاری رہا۔ مغرب کے بارے میں یہ تذبذب اسلامی جدیدیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی۔ مذمت اور مداحی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ تجربے سے پتا چلتا ہے کہ عقل اور سائنس سے محبت اس وقت تک آگے بڑھنے میں مدد نہیں دے سکتی جب تک زندگی پر مذہب کی گرفت شدید ہو۔ یہ بات خاص طورپر قابل توجہ ہے کیونکہ اسلام میں مذہب کی کوئی حد بندی نہیں اور پوری زندگی پر مذہب غالب ہے۔ غیر مذہبی خیالات کو الگ رکھنے کی وجہ سے نئے خیالات کو قبولیت نہیں ملتی۔ تاریخ اسلام میں سائنسی علوم اس لیے ترقی نہ کر سکے کہ ان کا اسلام کی عمومی تشکیل سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اس ثقافتی ماحول میں نئے خیالات جگہ نہیں بنا سکتے۔ اسلامی جدیدیت نے بھی اسلام کی ہمہ گیری پر زور دیا۔ اس لیے یہاں بھی نئے خیالات کی جگہ نہ بن سکی (فضل الرحمان، ۱۹۶۹ ،۲۵۳)۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ’’اس بات کا تو کوئی امکان نہیں کہ مسلمانوں پر اسلام کی گرفت کبھی کمزور ہو کیونکہ عام مسلمان تو شدید مذہبی رجحان رکھتا ہی ہے، حالیہ دہائیوں میں مسلم جدیدیت پسند بھی اسی عوامی رجحان کے اسیر ہوگئے ہیں۔‘‘( فضل الرحمان ۱۹۶۹، ۲۵۳)۔
اسلامی جدیدیت پسندوں نے یوں سیکولرزم کا دروازہ تو بند کردیا۔ لیکن علما نے اسلامی جدیدیت پسندوں کی اس بات سے کبھی اتفاق نہیں کیا کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، تاکہ اسلامی جدیدیت پسند اسلام کو ایک آئیڈیالوجی کا رنگ دے سکیں۔ اس بحث میں فضل الرحمان اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ علما کا رویہ ہے جو مسلم دنیا میں سیکولرزم کا دروازہ کھولے گا۔ علما کا یہ اصرار کہ روایتی عقائد جدید اثرات سے محفوظ ہیں اور رہیں گے، سیکولرزم کی راہ بنا رہا ہے۔ یہ بات عجیب لگتی ہے لیکن یہ ایسے علما کے بارے میں ہے جو فقہ اسلامی کو غیر متبدل سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ تو وہی رویہ ہے جو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات بتا تا ہے۔ فضل الرحمان کے تجزیے میں جدیدیت پسندوں کی تشخیص واضح نہیں۔ وہ مغربیت سے مرعوب جدیدیت پسندوں کو جو مغربی جدیدیت کو ہی حقیقی جدیدیت سمجھتے ہیں، اعتذاری جدیدیت پسندوں، اور سیاسی اسلام پسندوں اور اسلامی جدیدیت پسندوں میں فرق نہیں کرتے۔

ڈاکٹر فاروق (۱۹۵۶۔ ۲۰۱۰)
مرحوم ڈاکٹر فاروق، وائس چانسلر، یونیورسٹی آف سوات کے مطابق دنیا میں سیکولرزم کی تین بڑی تعبیریں ہیں۔
(۱) امریکہ اور برطانیہ کا سیکولرزم (۲) فرانس کا سیکولرزم اور (۳) بھارتی سیکولرزم۔ پہلی دو تعبیروں پر بات ہو چکی۔ ڈاکٹر فاروق کی نظر میں پہلی دو مغربی تعبیروں اور اسلامی تعلیمات کے درمیان بہت فرق ہے۔ مثلاً اسلامی تعلیمات کے مطابق اقامتِ صلاۃ اور ایتائے زکوۃ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح یہ بھی حکومت کا کام ہے کہ وہ بدکرداری، سود، جوئے اور شراب نوشی کو جرم قرار دے۔ ان دونوں تعبیروں میں یہ کام کسی سیکولر حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔
بھارتی سیکولرزم ان دونوں سے مختلف ہے۔ اس میں اکثریت کی دل آزاری روکنے کی خاطر ایسے قوانین بھی نافذ کیے گئے ہیں جو اپنی بنیاد کے اعتبار سے مذہبی ہیں۔ مثلاً بھارت میں گائے ذبح کرنے پر پابندی ہے اور اس کے لیے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ گائے ذبح کرنے سے عوام کے ایک بڑے طبقے کی دل آزاری ہوتی ہے۔ گویا یہ سیکولرزم کی ایک ایسی قسم ہے جس میں اکثریت کے مذہبی مفادات کا اِس طریقے سے خیال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے اقلیتوں کو کوئی بڑا نقصان نہ پہنچے۔ گویا اْسے ’’مطابقِ مذہب سیکولرزم‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ تیسری تعبیر کا موازنہ اسلامی تعلیمات سے کیا جائے تو اسلامی تعبیر زیادہ سیکولر دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً مسلمانوں کو ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں پر اپنے مذہبی قوانین نافذ کرنے کی اجازت نہیں۔ مسلمان غیر مسلموں کو شراب نوشی سے منع نہیں کرسکتے۔ اسلامی فوجداری قوانین غیر مسلموں پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔ اسلامی تعلیمات کے تحت غیر مسلم چاہیں تو اپنے پرسنل لاء کے معاملات حل کرنے کے لیے اپنی عدالتیں بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔ گویا ’’اسلام غیر مسلموں کے لیے ایک سیکولر مذہب ہے‘‘۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کسی مسلمان ریاست کے اندر بھی غیر مسلموں پر اپنے احکام مسلط نہیں کرتا اور وہ مذہب کے نام پر کسی کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

تجزیہ
مسلم مفکرین کے ہاں سیکولرزم پر بحث ایک مسلسل عمل ہے۔ اس کا کما حقہ‘ تجزیہ ممکن نہیں۔ تاہم اس مضمون میں سیکولرزم کی جن مختلف تعبیروں کا ذکر ہوا ان کے تجزیے سے چند نکات سامنے آتے ہیں جن پر مزید گفتگو کی ضرورت ہے۔
۱۔ یہ سیکولرزم کی مختلف تعبیریں جو اسلام کے نقطۂ نظر سے کی گئی ہیں۔ ان میں سیکولرزم اور اسلام دونوں کی تفہیم میں اختلاف سے یہ مختلف مؤقف سامنے آئے ہیں، ان کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۲۔ یہ تعبیریں دین اور مذہب کے مختلف تصورات پر مبنی ہیں۔ جن میں روحانی اور مادی کی تفریق یا عدم تفریق نظری لحاظ سے بے حد اہم ہے لیکن روزمرہ زندگی میں اس میں شدید فرق موجود ہے، اور اس سے دین اور سیکولرزم دونوں کی تفہیم مشکل ہو جاتی ہے۔ مسلم مفکرین عام طور پر عوام اور روز مرہ زندگی کی تفہیم کو غیر مستند اور غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان معاملات کی تفہیم نظری رہتی ہے۔ تاریخی طور پر تفہیم کی اسی تفریق سے یہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ مسائل نہ نئے ہیں نہ مغرب کے اثرات۔ اپنے طرزِ تحقیق اور مطالعہ میں ان کو نظر انداز کرنے سے ہم ان کی اہمیت نہیں سمجھ پائے۔ اب جب معاشرے کی تفہیم اور ہماری تفہیم میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں تو ان مسائل پر بات شروع ہوئی ہے۔
۳۔ دیکھا جائے تو سیکولرزم کی اسلامی تعبیروں کا محور آئیڈیالوجی اور اقتدار ہے۔ دونوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ قبض و بسط یعنی سکڑنے اور پھیلنے کے اصول کو نظر انداز کرتے ہیں۔ دونوں کلی، ہمہ گیر اور مکمل احاطے کے دعویدار ہیں۔ اقتدار مذہب کا ہو یا ریاست کا، دونوں حد بندی کے قائل نہیں۔ اس مضمون میں کئی مفکرین نے حد بندی، توازن اور نظام کی بات کی ہے۔ اسلام کی تاریخ سے بھی اس کی مثالیں دی ہیں۔ اقتدار کے بے کراں ہونے کا تصور غالباً خدائی اقتدار کے مذہبی تصور سے جدید ریاست کے تصور میں منتقل ہوا ہے۔
۴۔ حد بندی کے اعتبار سے اسلامی روایت میں سنت اور بدعت، شریعت اور سیاست، حد اور تعزیر، تشبہ بالکفار اور اسی طرح کے دوسرے مسائل پر فتاوی قابل مطالعہ ہیں جہاں ان میں فرق اور حد بندی کو ضروری سمجھا گیا ہے۔
۵۔ مذہبی اقتدار کا مسئلہ بھی قابل غور ہے۔ ان تعبیروں میں دو حوالے مزید غور کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک تو مذہبی اور سیاسی اقتدار کو الگ الگ اداروں میں تقسیم کرنے کی بجائے دونوں کو ریاست کے اقتدار کا حصہ بنایا جائے۔ مذہب اور سیاست میں حد بندی ہو لیکن مذہبی اقتدار کو وسیع تر اجماع سے مربوط کرکے عوام کو اس میں شامل کیا جائے۔
۶۔ پاکستان میں مذہب اور ریاست کے حوالے سے دو اہم سوالات تھے۔ اقتدار کا منبع اور قانون سازی کا اختیار۔ مذہبی جماعتیں اللہ کی حاکمیت اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کررہی تھیں۔ دوسری جماعتیں اس بات کی قائل تھیں کہ اقتدار کا منبع عوام ہیں اور قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ قرار داد مقاصد ۱۹۴۹ میں ان دونوں اصولوں کو اس طرح جمع کیا گیا کہ جمہور کا اختیار اللہ کی حاکمیت کا امین ہو اور مجلس دستور ساز جمہورکی نمائندہ ہو۔
’’اللہ تعالیٰ ہی کل کا ئنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکم مطلق ہے۔اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے،وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیاجائے گا۔ مجلس دستور ساز نے، جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے ،آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی‘‘۔

مصادر اور مآخذ
نیازی برکس ۱۹۹۸، ڈیویلپمنٹ آف سیکولرزم ان ٹرکی، لندن، ہرسٹ [۱۹۶۴]
اولیویر روئے ۲۰۰۷، سیکولرزم کنفرنٹس اسلام، نیو یارک : کولمبیا یونیورسٹی پریس
سید نقیب العطاس ۱۹۹۳، اسلام اینڈ سیکولرزم ، کوالا لمپور، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ اینڈ سویلیزیشن [۱۹۷۸]
طارق بشری ۱۹۹۶، الحوار الاسلامی العلمانی، قاہرہ، مکتبہ الشروق
جان ایل ایسپو سیٹو ۲۰۰۱، میکرز آف کنٹمپریری اسلام، آکسفرڈ: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس
کلیفرڈ گیرٹز ۱۹۹۶، آئیڈیالوجی ایز اے کلچرل سسٹم ( ویب سا ئٹ: ایکس روڈز۔ ورجینیا۔ ایڈی یو)
راشد غنوشی ۱۹۹۹۔’’مغرب میں سیکولرزم‘‘ مشمولہ عزام تمیمی، ایسپوسیٹو، اسلام اینڈ سیکولرزم ان دی مڈل ایسٹ، نیو یارک، نیو یارک یونیورسٹی پریس
جے گولڈ ۱۹۶۵، ’’آئیڈیالوجی‘‘ ، اے ڈکشنری آف سوشل سائنسز، نیویارک، فری پریس
البرٹ حورانی ۱۹۹۱، اے ہسٹری آف عرب پیپل، لندن: فیبر اینڈ فیبر
محمد اقبال ۱۹۸۶، ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام، لاہور، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر[۱۹۳۲]
محمد اقبال ۱۹۷۶، اسلام اینڈ احمدزم، لاہور: شیخ محمد اشرف
تارک جان ۳۰۰۲، پاکستان بیٹوین سیکولرزم اینڈ اسلام، آئیڈیالوجی، ایشوز اینڈ کنفلکٹ، اسلام آباد:
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز
سید ابوالاعلی مودودی ۱۹۶۴، اسلام کا نظریہ سیاسی، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز [۱۹۳۹]
سید ابو الاعلی مودودی ۲۰۰۰، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز
زکی میلاد ۱۹۹۱، الفکر الاسلامی، قرا ء ات و مراجعات، لندن: موسسہ الانتشار العربی
شریف المجاہد ۲۰۰۱، آئیڈیالوجی آف پاکستان، اسلام آباد: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ
شیخ یوسف القرضاوی ۱۹۹۷، اسلام اور سیکولرزم، اردو ترجمہ، اسلام آباد: انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ
فضل الرحمان ۱۹۶۹۔ دی امپیکٹ آف ماڈرنٹی آن اسلام، مشمولہ ایڈورڈ جے جرجی (مرتب)، ریلیجس پلورلزم اینڈ ورلڈ کمیونٹی، انٹرفیتھ اینڈ انٹر کلچرل کمیونیکیشنز، لائیڈن: برل
فضل الرحمان ۱۹۷۰، اسلامک ماڈرنزم، اٹس سکوپ، میتھڈ اینڈ آلٹر نیٹوز، انٹر نیشنل جرنل آف مڈل ایسٹرن سٹڈیز، جلد اول، ص۳۱۷۔۳۳۳
چارلس ڈی سمتھ، ۱۹۹۵، سیکولرزم، آکسفرڈ انسائیکلوپیڈیا آف دی ماڈرن اسلامک ورلڈ، نیویارک: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ 

Popular Categories

spot_imgspot_img