رات پوری طرح کالی چادر اوڑھ چکی تھی۔ آسمان سے بوندھا بوندھی شروع ہو چکی تھی ۔ خاموشی جو پوری طرح چھا چکی تھی، لیکن بارش کے ٹپ ٹپ والے سریلے گیت ہنوز جاری و ساری تھے۔ ذاکر اور عدنان بھی اپنے کام میں مگن تھے۔ دونوں دوست اپنے سالانہ امتحان کی تیاری میں راتوں کو سحر کئے ہوئے تھے۔ رات سفر کرتے کرتے اپنی جوبن پر آچکی تھی۔ دو بج چکے تھے۔ عدنان نے کھڑا ہوکر کھڑکی سے جانکا تو بارش کی بوندھا بوندھی بند ہوچکی تھی۔ عدنان نے جلد ہی کھڑکی بند کی اور ذاکر سے کہنے لگا۔
یار ذاکر۔ عجیب سکوت سی ہے باہر۔
کیوں ؟ کیا دن ہے کہ شور ہوگا، یہ رات ہے رات میرے یار۔
ذاکر جو اپنی نظریں کتابوں پر مرکوز کئے ہوئے تھا جواب دے گیا۔
عدنان نے بلند لہجے میں بات کرتے ہوئے ذاکر کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے بولا۔
دوست ایسا لگتا ہے جیسے قبرستان کی خاموشی چھائی ہوئی ہے !
ذاکر عدنان کی اس بات پر جیسے گھبرا گیا۔ وہ ٹکٹکی نظروں سے عدنان کو دیکھتا رہا، لمحہ بھر کے بعد کہا۔
عدنان کیا ہوا۔ آپ ٹھیک تو ہے، یہ کیسی باتیں کرنے لگے ؟
جی ذاکر میں ٹھیک ہوں لیکن ڈر لگ رہا ہے۔ عدنان دھیمی آواز میں بولا۔
کیا۔۔ کیا ہوا۔۔ ذاکر اپنے دوست عدنان کا ہاتھ پکڑنے لگا۔ کچھ نہیں ہے دوست۔ کیسا ڈر۔ کسے ڈر رہے ہو آپ ؟
ذاکر کے سوالوں کے بیچ ہی عدنان بول اٹھا۔
ذاکر کہیں وہ لوگ آگئے تو ہمیں بھی پکڑ کے لے جائیں گے۔
ذاکر بولا۔ نہیں عدنان تمہیں کیا ہوا۔ آپ یہ کیا سوچنے لگے۔ ہم "سٹوڈنٹس” ہیں۔ ان کے "شرپسند” نہیں۔
نہیں نہیں ذاکر۔ عاقب۔۔۔ عدنان فوراََ بول اٹھا۔
ذاکر عدنان کا نام سنتے ہی دم بخود ہو کے رہ گیا۔
ذاکر ہمت کر کے کچھ بولتا لیکن عدنان پھر کہنے لگا۔ دوست عاقب بھی تو سٹوڈنٹ تھا۔ کوئی مجرم تو نہیں تھا۔ پھر بھی اسے جیل میں بھر کر اس پر جنگل چوروں کا ایکٹ لگا دیا گیا۔
ذاکر حواس باختہ ہو کر عدنان کی طرف برابر دیکھتا رہا۔ عدنان بول رہا تھا۔ ذاکر ہمارا کلاس میٹ اویس۔۔۔ پیلٹ جس کی روشنی لے گئی۔ یار وہ بھی تو گھر سے سکول ہی نکلا تھا ؟
ذاکر یہ باتیں غور سے سنتا رہا۔ وہ کچھ کہتا لیکن زبان جیسی گنگ ہوگئی ۔ وہ عدنان کی باتوں میں اچھی طرح کھو چکا تھا۔ عدنان کی باتیں سنتے سنتے آنکھوں میں اشکوں کا سیلاب اُمڈ آیا جو رواں ہوگیا۔
ذاکر بھی ضبط نہ کر سکا اور یوں دونوں آنسوں بہاتے رہے۔
دونوں دوستوں پہ غم دوراں کے واقعات ایسے طاری ہوچکے کہ وہ اپنے اصلی کام کو بھول گئے ۔ غم جب اشکوں کے دریا میں کچھ چھلک کے کم ہوا۔ تو ذاکر عدنان سے مخاطب ہوا۔
دوست۔ کس کس پر رویا جائے۔ ہر طرف اور ہر گھر کی یہی کہانیاں تو ہے، کہ کوئی مارا گیا، تو کسی کی آنکھوں کی بینائی گئی۔ کوئی چھلنی بدن کے ساتھ ہسپتال میں کراہ رہا ہے، تو کسی کو زنداں میں ڈال کے شدید عذاب کیا گیا۔
بالکل دوست۔ عدنان بولا
یار آخر کب تک ہماری بستی میں خون کی بارش ہوتی رہے گی۔ عدنان بول اٹھا ۔
پتا نہیں دوست۔ البتہ یہ ان ہی لمحوں کی خطا ہے۔ جو ہماری صدیاں ڈھا رہی ہے۔
دونوں دوست ہنوز اپنوں پہ گزری داستانوں کا اعادہ کر رہے تھے کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔دونوں کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ شک حقیقت میں ڈھلتے ہوئے نظر آنے لگا۔ ڈر کے مارے دونوں سہم کے رہ گیے۔
دروازہ کھولو۔ باہر سے آواز آئی۔ اجنبی آواز کو بھانپتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کو خوف کے مارے تکنے لگے۔
دروازہ کھولو۔ ایک بار پھر باہر سے آواز آئی۔ ذاکر نے ہمت کر کے اندر سے آواز دی۔ آپ کون ؟
دروازہ کھولو۔ باہر سے گرجتی آواز میں جواب ملا۔ دونوں کا دل ڈوبنے لگا۔ بے بسی کے عالم میں ذاکر اٹھا اور دروازہ کھولا۔
دروازہ کھلتے ہی تین ہتھیار بند وردی پوش اندر آدھمکے۔
ایک گرجتی آواز میں بولا۔ اے شر پسندو۔۔۔کون سا پلان بنا رہے تھٹ؟
باقی دو آناَ فاناَ اِدھر اُدھر تلاشی کاروائی میں مگن ہوگئے۔
دونوں دوست انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں تھے۔ ذاکر نے ہمت کر کے پھسلتی آواز میں جواب دیا۔
س۔۔ سر۔ ہم شرپسند نہیں ہیں۔ ہم تو سٹوڈنٹ ہے۔ امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔
وہ اہلکار جو شاید ان دونوں کا آفیسر تھا پھر سے بولا۔
چپ ہو جاو۔ ابھی دیکھتے ہیں۔ تمہارا امتحان کہاں ہوگا۔ اندر یا باہر !
اور پھر ایک بار گرجتی آواز میں بولا۔ نام کیا ہے تمہارا۔
دونوں دوست بول اٹھے۔ سر میرا نام ذاکر اور سر میں عدنان۔
آفیسر ایک سپاہی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے بول اٹھا۔ ڈائری میں یہ نام چیک کرو۔
جب تک سپاہی نام تلاش کرتا رہا۔ عدنان اور ذاکر کو تب تک ہزاروں سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں جیسے بڑے مجرم پکڑے گئے تھے اور اب ان کی انویسٹیگیشن سنٹر میں باریک بینی سے تفتیش چل رہی تھی۔ تب بیچ میں سپاہی بولا۔ سر یہ نام لسٹ میں نہیں مل رہے ہیں۔ سپاہی کو سنتے ہی آفیسر نیچے ہو کے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ عدنان اور ذاکر کے کندھوں پہ اپنے ہاتھ ڈال کر کہنے لگا۔
اے۔۔ سنو۔ تم خوش قسمت ہو۔ تمہارا نام ہماری ڈائری میں نہیں ملا۔ ورنہ۔۔۔ (ہلکی سی گھمبیر مسکراہٹ چہرے پہ نمودار ہوئی )۔۔ اور بات روک لی۔
ذرا تامل کے بعد۔ اور ہاں جو مزے کی داستانیں تم ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔ وہ ہم نے بھی باہر سے سن لی۔
بڑے دھمکی آمیز لہجے میں۔۔ یہ بات کان کھول کر سن لو۔ ایسی داستانیں سنانا بند کردو۔ چپ سادھ لو چپ۔ زبان اس سمت میں کبھی باہر نکلی تو ہمیشہ کے لیے بولتی بند ! لہذا امتحان کی تیاری کرو مگر خاموشی کے ساتھ۔
اسی کے ساتھ تینوں وردی پوش کمرے سے باہر نکل پڑے۔ عدنان اور ذاکر پر اس قدر ڈر وخوف طاری ہوگیا تھا کہ نیم جان ہو کے وہ ایک دوسرے کو ٹکٹکی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لمحہ بھر کے بعد جب انہوں نے تھوڑی راحت کی سانس لی۔ تب عدنان دھیمی آواز میں بولا۔ ذاکر۔۔ خاموشی ہے۔۔؟
ذاکر جواباَ بولا۔” ہاں یار بالکل قبرستان جیسی !!”
٭٭٭