مفلسی کا گھروندا۔۔۔۔۔۔۔غازی سہیل خان

مفلسی کا گھروندا۔۔۔۔۔۔۔غازی سہیل خان

فاروق آج بڑی فرصتوں کے بعد تبسم کے بغل میں بیٹھا تھا اور دونوں اپنے نئے وجود کو بار بار تک رہے تھے ۔فاروق نے اپنی زندگی کا طویل حصّہ بالکل سادگی سے گزارا تھا اور اسی لئے شاید اسے دبیز باتوں کا علم نہیں تھا ۔باتوں باتوں میں فاروق کی بیوی نے خوشی بھرے لہجے میں کہا۔

”آپ مولوی صاحب کے پاس جائیں نا “

”کیوں …؟“ فاروق نے جواب میں کہا ۔

”گڑیاکےلئے اچھے نام کا انتخاب کرنا ہے“۔شبنم نے واپس کہہ دیا۔

”اچھا ٹھیک ہے“ فاروق نے اپنی شریک حیات کی آواز کے ساتھ ہاں میں سر ہلایا۔

فاروق اگلے دن صبح سویرے مولوی صاحب کے دروازے پر کھڑے تھے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔

”کون ہے جی “ وہاں سے کسی نے پوچھا ۔

”میں فاروق ،مولوی صاحب سے ملنا تھا “۔فاروق نے کہا۔

السلام علیکم ۔۔۔۔مولوی صاحب“فاروق نے دبے لہجے میں سلام کہی۔

”وعلیکم سلام …..کیسے آنا ہوا…“۔مولوی صاحب نے بڑی خوش الحانی سے کہا۔

”اصل میں مولوی صاحب مجھے میری بیٹی کے لئے کوئی اچھا سا نام چاہئے اسی لئے یہاں تشریف لایا ہوں“۔فاروق نے بڑے ہی مودبانہ لہے میں کہا۔

بڑی گفتگو اور علیک سلیک کے بعد مولوی صاحب نے مبارک باد یکر کہا کہ گڑیا کے لئے’ شبنم ‘نام اچھا رہے گا یہ نام زیادہ بھاری بھی نہیں ہے اور فاروق ہنسی خوشی میں دعائیں دیتے ہوئے گھر کی اور لوٹ گئے ۔

 گڑیا کے ساتھ دن یونہی گزرنے شرو ع ہو گئے اور دونوں میاں بیوی اسی عالم میں پل شبنم کے ساتھ کھیلنے میں مست ہوگئے۔

 فاروق صبح کا م کے لئے نکلنے سے پہلے شبنم کو دھیر تک تکتاجو فارق کا معمول بن گیا تھا اورفاروق اپنی پیاری سی پری کا معصوم چہرہ دیکھ کر ہی اپنے کام کو جاتا تھا۔ ماں باپ کی لاڈلی شبنم ،والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ۔ فاروق شام کو تھک ہار کر گھر لوٹ کے معصوم بچی شبنم کے ساتھ توتلی زبان میں باتیں کر کے اپنے دن کی ساری تھکان دور کردیتا تھا۔ اسی دوران ایک دن اپنی شریک حیات تبسم سے باتوں ہی باتوں میں فاروق نے کہا: ۔

”آج میری کمر جواب دے گئی، سارا دن مجھے سیمنٹ کی بھوریاںایک ٹرک سے اُتار کر دوسری چھوٹی گاڑی میں لادھنی پڑیں،آج باقی دنوں کی نسبت مجھے کچھ زیادہ کرنا پڑا….“

 تبسم نے متفکر ہو کرکسی اور جگہ کام کرنے کا مشورہ دیا،جہاں پہ قدرے آرام ملے۔

فاروق کا یہی معمول تھا کہ دن بھر محنت اور مشقّت کرکے شام کو اپنے اہل و عیال کو کھلانا تھا اور اسی کشمکش میں اس کی زندگی گزر رہی تھی۔ماہ و سال گزرتے گئے اور فاروق کے گھر میں اور ایک ننھے پھول کا جنم ہوا جس کا نام مولوی صاحب نے ”ارشد“ رکھا۔اب فاروق کے تھکے ہارے شانوں پر اور زیادہ ذمہ داریاں آگئیں۔

ایک دن فاروق کام سے جلدی لوٹا تھا تو اپنے بچّوں سے کھیلنے لگا ۔

ابھی فاروق اپنی بیٹی شبنم کے ساتھ کھیل ہی رہا تھا کہ اچانک زور سے دروازہ کھل گیا۔

”اب بچوں کے ساتھ ہی دن بھر کھیلو گے یا گھر کا کام کاج بھی کرنا ہے ۔“تبسم نے بھرے لہجے میں کہا۔

”کیوں ایسی کون سی آفت سر پر کھڑی ہو گئی ۔“فاروق نے تبسم کو ہلکے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی ۔

”آپ کو گھر کے غسل خانے کی دیوار وں پر ایک بھی نظر نہیں پڑی ،دیواروں میں بھی درارڑیں پڑ گئی ہیں “۔ خدا نہ کرے اگر کبھی غسل خانے کی دیوار بچوں پہ گر گئی تو ہماری دنیا اُجڑ جائے گی ،تبسم نے فاروق کو یاد دلانے کی کوشش کی ۔

فاروق کے دل میں یہ بات نشتر کی طرح اتر گئی اور اسے احساس ہونے لگا۔اب فاروق کو اپنی مزدوری کے دوران بھی اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ کہیں گھر کی دیورا ہی کھسک نہ جائے۔ چنانچہ گھر آنے پر تبسم بھی آئے روز فاروق سے غسل خانے کی مرمت کے لئے کہا کرتی ہے۔

بار بار اسی بات کا اعادہ ہو رہا ہے اور کبھی کبھار چڑچڑے پن کے ساتھ بھی کہہ دیتی کہ آپ کو احساس ہے ۔۔۔؟؟؟

” مشکل سے دو وقت کی روٹی مسیر آتی ہے اور اوپر سے تمہاری اچانک بیماری کی وجہ سے بھی مجھے سیٹھ صاحب سے قرضہ لینا پڑا۔اب کروں تو میں کیا کروں..؟“ بار بار ایک ہی بات سن کر فاروق نے بے بسی کے اندازمیں بولا۔

گردش ایام اپنے آب و تاب میں تھی ۔شبنم اور ارشد بھی سکول جانے لگے ۔ان کے اخراجات وغیرہ بھی بڑھنے لگے تھے۔

چند دنوں بعد فاروق نے اپنے دونوں بچوں کو پاس ہی ندی کے بر لب ایک سرکاری اسکول میں داخل کردیا ۔ تبسم کا اب ایک ہی کام ہے کہ صبح سویرے بچوںکو بیدار کرنا اور انہیں مولوی صاحب کے پاس قرآن پڑھنے لے جانا ہے، اس کے بعد دونوں کو اسکول کے لئے تیار کرتی، دوپہر کے کھانے کے لئے اسکول میں ہی ایسا تیسا کھانا مل جاتا تھا مگر وہ نہ ہونے کے برابر کی وجہ سے” شبنم“ا ور” راشد“ گھر آیا کرتے تھے ۔یہ معمول ان کا ہائی اسکول لیول تک رہا۔راشد نے تو کسی طریقے سے انگریزی مضمون میں اسٹیچیو نمبرات لے کر ہائی اسکول پاس کیا لیکن شبنم نے اسکول میں ”فسٹ“پوزیشن حاصل کر کے اپنا لوہا منوایا….!

امتحانی نتائج کے بعد فاروق کے گھر میں پڑوسیوں کے علاوہ اپنے رشتہ داروں کی ایک قطارلگ گئی، کوئی شبنم کو مبارک باد دیتا تو کوئی فاروق کے ساتھ پیار ومحبت کا اظہار کرتا، شبنم کی خالہ نے مٹھایاں بطور مبارک ان کو پیش کیں ۔فاروق اور تبسم اپنے دونوں بچوں کے لیے بس کامیابی کی دعائیں کرتیں تھیں ، چنانچہ مہمانوں کا یہ سلسلہ کئی روز تک جاری ،مہمانوں کے آنے جانے سے گھر کی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مشکلات آگئیں ….!

شبنم اور راشد کو ہائر اسکنڈری میں داخلہ لینا تھا مگر ہاتھ کی تنگی کی وجہ سے فاروق اس پر تیار نہیںتھا، اگلے دن کام پر نکلنے سے پہلے فاروق اپنی بیوی بچوں سمیت کچن کی بوسیدہ دیوار سے لگے پھٹے تکیوں کے ساتھ ٹیک لگا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کس طرح شبنم اور راشد کی آگے کی پڑھائی کا انتظام کیا جائے ….؟

فاروق نے بے بسی کے عالم میںتبسم سے کہا کہ مجھے ان کو مزید پڑھانے کی طاقت نہیں…. کیوں نہ راشد میرے ساتھ دن میں میرا ہاتھ بٹائے، راشد کے کام کرنے سے سیٹھ صاحب بھی خوش ہو جائے گااور بقایا قرضہ بھی جلدی ادا ہو جائے گا،اس کے بعد ہی مالک سے ضرورت پڑھنے پر مزید اُدھار لے سکتے ہیں….!

راشد نے جلدی سے ابو کے ساتھ حامی بھر لی اور بہادری سے بولا….ابو میں آپ کے ساتھ چلوں گا، آپ کا ہاتھ بٹاو ¿ں گاپھر، اس کے بعد ہی ہم اپنے غسل خانے کی بوسیدہ دیوا رکو بھی ٹھیک کر پائیں گے ۔اس حوصلے اور ہمت کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی والدین تیار تو ہوگئے لیکن ماں نے اپنی بیٹی شبنم کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ اچھا پڑھتی ہے، اس لےے میں بھی کسی کے گھر ،گھریلوکام کیا کروں گی جس سے ہم اپنی بیٹی کو پڑھاسکیںگے۔ فاروق شرمسار ہو کر گردن جکا کر ہی ”ٹھیک ہے“ کہہ دیا….!

اگلی صبح تبسم نے راشد اور شبنم کو جگایا ٹھٹھر تی سردی میں ہاتھ مُنہ دھو کر ان کو مولوی صاحب کے پاس بھیج دیا اور یہ سلسلہ شبنم کی ہائر اسکنڈری لیو ل تک چلا۔ ایک دن فاروق نے اپنی معصوم اور ہونہار بیٹی شبنم سے کہا کہ ”بیٹا زمانہ خراب ہے اب درسگاہ اور اسکول جانا بند کر دو ہم کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے اب آپ کی شادی بھی تو کرنی ہے ۔“

نوجوانی کی عمر کی دہلیر پر پہنچنے کے باوجود بھی تبسم راشد اور شبنم کو صبح نیند سے جگاتی، ہاتھ منہ دھلاتی اورمولوی صاحب کے پاس بھیجتی تھی۔ دراصل تبسم کو شوق تھا کہ میری بچے پڑھیں ۔اب جیسے جیسے بچے جوان ہوتے گئے ویسے ہی فاروق اور تبسم کو ان کی شادی کی فکر لاحق ہو گئی….!

فجر کی نماز کے بعد سوکھی روٹیوں کے ساتھ چائے پی کر دونوں اپنے مکان کی باہر والی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے باتیں کرتے رہے اور فاروق بار بار تبسم سے اپنی بے بسی کا اظہار کرتا رہا،تبسم نے بھی دلاسا دلایا کہ راشد کی کوئی پرواہ نہیں ابھی بس آپ شبنم کی شادی کے حوالے سے ہی سوچیں، اب شبنم جواں ہو گئی ہے، ویسے بھی لڑکیوں کا شادی کے لئے انتظار ٹھیک نہیں ،زمانہ بہت ہی خراب ہے….!

فاروق نے آہ بھرتے ہوئے کہا کیا کروں سماج میں اتنے رسوم و رواج ۔۔۔۔گاووں میں رواں ماہ دو شادیاں ہوئیں، دونوں نے لاکھوں روپے خرچ کیا ، ہمارے پاس ایک پھوٹی کوڑھی بھی نہیں ہے۔

تبسم نے کہا کہ کوئی نہیں مولوی صاحب تو ہمیں ہر بار یہی بولتے ہیں کہ اسلام رسوم و رواج کا خاتمہ چاہتا ہے او ر برکت والی شادی بھی وہی ہے جو رسوم و رواج سے پاک ہو، تم فکر نہ کرو ہماری شبنم کی ایسی شادی ہو گی جس میں کسی رسم ورواج کا کوئی دخل نہیں ہو گا۔ ہم تو ایسے دین کے پیروکار ہیں جو ہمیں ہر بار اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔

پیچھے سے شبنم دیوار کی آڑ لئے چھپ کر یہ ساری باتیں سُن رہی تھی ، کچھ دیر بعد وہ کچن کے ساتھ ایک دوسرے کمرے کے کونے میں بیٹھ گئی اور سوچ میں پڑ گئی کہ خدا کیا میرے ہاتھ بھی پیلے ہو پائیں گے….؟ کیا ایسا بھی ہوگا ؟؟؟؟

اتنے میں شبنم کی ماں تبسم اندر آئیں اور سب کے لیے کھانا پروسا اور کھانا کھا کر سب سو گئے ۔اگلے روز جمعہ تھا ،سب صبح اُٹھے اور دوپہر کے ساتھ ہی جمعہ کی نماز کی تیاری کر نے لگے۔ موذن مولوی صاحب کے لئے مائک ٹھیک کر رہے تھے ….بار بار ”ہیلو ہیلو“ کی آوازیں نکال کر اسی کوشش میں تھے کہ کہیں مائک اچانک سے بیٹھ نہ جائے اور بعد میں مولوی صاحب کی دانٹ دپٹ نہ سُننی پڑے، ابھی موذن مائک کاٹیسٹ ہی کر رہے تھے کہ فاروق اور راشد مسجد میں داخل ہوئے۔ مولوی صاحب ان سے چند لمحے قبل ہی مسجد آگئے تھے ۔

اس دن مولوی صاحب نے شادیوں میں رسوم و رواج کے خاتمے کے لئے واعظ فرمایا ،زبر دست طریقے سے مولوی صاحب نے لوگوں کو سمجھایا کہ شادی کو آسان بناﺅ ،بُرائیاں خود بہ خود ختم ہو جائیں گی ۔مولوی صاحب کی نصیحتیں سننے کے بعد فاروق گھر آیا اور تبسم ،شبنم اور خدیجہ آپا جو پاس میں ہی رہتی تھیں کے سامنے وعظ کو دہرایا کہ ہمیں چاہےے کہ شادیوں میں رسوم و رواج کا خاتمہ ہو تبھی جا کر غریب اور بے سہارہ لڑکیوں کے ہاتھوں میں مہندی لگ سکتی ہے ۔ یہ بات سُن کر تبسم کو تو خوشی ہوئی کہ اب ہم اپنی بیٹی کی شادی شریعت کے مطابق کر سکتے ہیں، ہمیں کوئی رشتہ دار یا پڑوسی اب تانے نہیں دے سکتا کہ ہم غریب اور مفلوک الحال ہیں….!

پاس ہی بیٹھی شبنم نے بھی چپ کے سے خوشی کے آنسو بہا کرابو کودیکھا اور دل ہی دل میں یہ سوچتی رہی کہ یا اللہ اب میرے ہاتھوں میں بھی مہندی لگ سکتی ہے کیا….؟ میرے ہاتھ بھی پیلے ہوںگے کیا….؟؟؟یا دنیا میں ایسے ہی حق پرست علماءکو پھیلا دے۔ یہی سوچ سوچ کر آخر کار شبنم کی آنکھ لگ گئی ۔

نومبر کا مہینہ تھا کہ شبنم نے اچانک سے غسل خانے کی بوسیدہ دیوار سے نظریں جیسے ہی باہر دوڑائیں تواچانک سے ایک چیخ نکلی…. امی نے یہ دیکھا کہ کہیں بوسیدہ دیوار شبنم کے اوپر تو نہیں گر گئی….!لیکن اندر جاتے ہی شبنم نے امی کو ہاتھ سے اشارہ کر کے باہر نظریں رکھنے کو کہا….لمبر دار صاحب یعنی مولوی صاحب کے گھر کو چاروں طرف سے چراغاں کیا گیا تھا…. ابھی یہ اسی کا نظارہ ہی کر رہے تھے کہ اچانک سے ڈول اور پٹاخوں سے سارا محلہ گونج اُٹھا….پاس ہی آگ کے الاو ¿ بھی جلتے دیکھے جہاں ۳۰ کے قریب دیگ اور دیگچوں کو گرمایا جا رہا تھا….یہ منظر دیکھنے کے بعد دونوں ماں بیٹی اندر آگئیںاورکبھی مولوی صاحب کے گھر کے چراغاں کی طرف اور کبھی اپنی بوسیدہ دیواروں کی طرف دیکھتے رہے اور دیکھتے ہی رہ گئے ۔۔۔!!!!

٭٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.