مَے نوشی اور مَے فروشی کا فروغ کیا معانی رکھتا ہے… جی ایم عباس

مَے نوشی اور مَے فروشی کا فروغ کیا معانی رکھتا ہے… جی ایم عباس

٭…جی ایم عباس … بوٹینگو / زینہ گیر
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام دین فطرت ہے جو انسانیت کو پاکیزگی و پاک بازی ، عفت و پاک دامنی ، شرم و حیا اور راست گوئی و راست بازی جیسی اعلی صفات سے متصف اور مزین دیکھنا چاہتا ہے۔ اسکے احکامات انسانی فطرت سے مکمل ہم آہنگ ہیں۔ مامورات و عبادات ، منہیات و معاصی اسلام میں سب کھول کھول کر بیان کر دیے گیے ہیں۔اللہ تعالی نے انسانیت پر اپنی بے پنہا رحمتیں عطا کرکے وہ تمام چیزیں حرام قرار دی ہیں جن سے انسانی فطرت از خود بغاوت کرتی ہے۔قرآن مجید کے احکامات اور سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصوص قطیعہ اور صحابہ کرام کی تصریحات سے حلال و حرام کی وضاحت ہوچکی ہے جنکی تفصیلات و تشریحات فقہاء عظام اجتہاد کے ذریعے اور علمائے کرام وعظ و بیانات کے ذریعے امت مسلمہ بلکہ عالم انسانیت کے سامنے پیش کراتے آیے ہیں۔ اسلام نے ہر اس چیز کے برتنے اور استعمال یہاں تک کہ تجارت اور خرید و فروخت سے منع کیا ہے جس سے صحت ایمانی اور صحت جسمانی کی خرابی، عقل و شعور جیسی نعمت کا زوال اور تہذیب و اخلاق جیسے اعلی اوصاف کے بگڑنے یا بدلنے کا اندیشہ اور شائبہ تک پایا جاتا ہو. چونکہ شراب ام الخبائث ہے اور اسکا عقلی و معاشرتی مفسدہ واضع ہے۔ شراب کا نقصان انسان کی عقل کے ساتھ ساتھ انسان کی صحت پر بھی زبردست ہوتا ہے۔ شراب کا نشہ جب تک رہتا ہے انسانی عقل کام نہیں کرتی ہے۔علم طب سے ثابت ہوا ہے کہ شراب مجموعی حیثیت سے انسان کے تمام اعضائے رئیسہ کو بگاڈ دیتی ہے۔موجودہ سائنس نے شراب پر research کرکے واضع کیا ہے کہ شراب کئی خطرناک امراض کی جڑ ہے جسے انسان اخلاقی طور پر اور جسمانی طور پر تباہ اور برباد ہوجاتا ہے۔شراب کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں یہاں بیان کرنا ممکن نہیں۔آج کی دنیا میں لاتعداد جرائم کا ذریعہ شراب کو ہی بتایا گیا ہے کیونکہ شراب نوشی اور شراب فروشی اکثر لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے بلیغ کلام میں شراب کی حرمت اور شراب کے نقصانات بیان کیے ہیں۔ اسکی تفصیل تفاسیر میں موجود ہے اور علماء کرام وقت وقت پر بیان کرتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں شراب نوشی اور شراب فروشی کے بارے میں زبردست وعیدیں اور ممانیت بیان ہوئی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شراب مت پیو، بیشک یہ ہر بْرائی کی چابی ہے۔(سنن ابن ماجہ) ایک اور حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ جو شخص ایک بار شراب پیئے اللہ تعالی چالیس دن تک اسکی نماز قبول نہیں فرمائے گا(مشکواۃ)۔دوسری جگہ فرمایا ہے: چار اشخاص کا داخلہ جنت میں ممنوع ہے ، والدین کا نافرمان، جوئے باز ، صدقہ جتلانے والا اور شرابی۔ (مشکواۃ)
شراب نوشی اور شراب فروشی کے نقصانات جب دین اور صحت کے حوالے سے واضع ہیں تو پھر بھی ارباب اقتدار وادی گلپوش میں بین الاقوامی ائرپورٹ جیسے اہم مرکز پر شراب کی دوکان کھولنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ مسلم اکثریت والے خطہ میں اور وہ بھی ہوائی اڈے جیسے اہم مرکز پر شراب کی خرید و فروخت کا تجارتی مرکز کھولنا وہ بھی محض سیاحت کو فروغ دینے کے خاطر ، ایک عام آدمی کے جذبات اور احساسات سے سراسر جارحت کا مظاہرہ ہے۔ کیا سیاحت کو فروغ دینا عام آدمی کے مذہبی اقدار سے بالا تر ہے؟ کیا اسطرح کے فیصلے عام آدمی کے اخلاقی اقدار کو زک پہنچانے کی بنیاد نہیں ہے؟ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر بالخصوص وادی کشمیر کے لوگوں کی غالب اکثریت پوری ریاست میں شراب نوشی پر مکمل پابندی چاہتی ہے پھر بھی ائرپورٹ جیسے حساس ادارے پر شراب فروشی کی اجازت دینا کونسی دانشمندی اور عقلمندی ہے؟ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کیا شراب فروشی کی تجارت کے سوا حکومت وقت کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے؟ باقی امورات بالخصوص ہارٹیکلچر کی طرف حکومت توجہ کیوں نہیں دیتی ؟ شراب کے بجائے سیب کی تجارت کو اگر فروغ دیا جائے اور باضابطہ اسکو صنعت کا درجہ دیاجائے تو کیا اسے وادی کے غریب عوام مستفید نہیں ہونگے۔تجربے شاہد ہیں کہ سیب اور باقی میواجات کی تجارت کا پیسہ پوری ریاست کی تجارت میںریڑھ کی ہڈی کا رول ادا کرہا ہے لیکن افسوس ! اس اہم صنعت کو ہر وقت اور ہر حکومت نے نظرانداز کیا۔
شراب فروشی کے حوالے سے تقریباً سبھی لوگ باخبر ہیں کہ بھارت میں قومی شاہراؤں کے آس پاس بھارتی عدالت عالیہ کے حکمنامے کے مطابق شراب کی خرید و فروخت پر پابندی ہے پھر بھی ارباب اقتدار میں رہ رہے لوگوں ائرپورٹ جیسی اہم جگہ پر شراب کی تجارت کی اجازت دینے کی کوشش کی۔! وائے افسوس! یہ عام لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے؟
حکومت وقت کو چاہیے کہ اخلاقی اقدار کی پاسداری کرکے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرکے ایسے تجارتی مراکز کو کھولنے کے بجائے بند کرنے کے احکامات صادر کریں جو معاشرے کے بگاڑ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ خدائے حکیم و خبیر نے شراب نوشی کو حرام اسی لیے قرار دیا کیونکہ شراب انسان کی جسمانی اور روحانی صحت کے لیے بہت ہی ضرررساں ہے اور انسانی معاشرے کے لیے ناسور ہے۔شراب نوشی اور شراب فروشی کے اتنے سارے نقصانات جاننے کے باوجود بھی محض ذریعہ آمدانی کے بڑھاوے کے لیے اسکی تجارت کی کھلے عام اجازت اور کاروبار کے لیے حوصلہ افزائی نہایت افسوناک ہے۔ایک طرف حکومت وقت عام لوگوں کی فلاح و بہبود اور ریاست میں امن و ترقی کے بلندبانگ دعوے کرتی ہے دوسری طرف مَے خانے کھولنے کی اجازت دے کر لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ یہ حکومت کے قول و فعل کے تضاد کی واضع مثال ہے۔یہاں عام آدمی کی یہی جائز مانگ ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر نظررثانی کرکے اور عام لوگوں کے جذبات کا احترام کرکے متعلقہ اجازت نامے کو منسوخ کرنے کے احکام صادر کرے اور سابقہ حکومت میں سیاحت اور تجارت کے فروغ کے خاطر کھولے گئے تمام شراب فروشی کے دوکان و مراکز بند کروائیں تاکہ عام آدمی راحت اور امن و سکون سے زندگی گزار سکے. یہی وقت کا تقاضا بھی ہے.
رابطہ: 9797082756

Leave a Reply

Your email address will not be published.