سورہ محمد
نام سورہ
آیت نمبر 2 کے فقرے و آمنو بما نزل علی محمد سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسم گرامی آیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک اور مشہور نام "قتال” بھی ہے جو آیت 20 کے فقرے و ذکر فیھا القتال سے ماخوذ ہے۔
زمانۂ نزول
اس کے مضامین یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں اس وقت نازل ہوئی جب جنگ کا حکم تو دیا جا چکا تھا مگر ابھی جنگ عملاً شروع ہوئی نہ تھی۔
تاریخی پس منظر
جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت صورتحال یہ تھی کہ مکہ معظمہ میں خاص طور پر اور عرب کی سرزمین میں بالعموم ہر جگہ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ مسلمان ہر طرف سے سمٹ کر مدینہ طیبہ کے دار الامان میں جمع ہو گئے تھے، مگر کفار قریش یہاں بھی ان کو چین سے بیٹھنے دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ مدینے کی چھوٹی سی بستی ہر طرف سے کفار کے نرغے میں گھری ہوئی تھی اور وہ اسے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے لیے اس حالات میں دو ہی چارہ کار باقی رہ گئے تھے۔ یا تو وہ دین حق کی دعوت و تبلیغ ہی سے نہیں بلکہ اس کی پیروی تک سے دست بردار ہو کر جاہلیت کے آگے سپر ڈال دیں، یا پھر مرنے مارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ہمیشہ کے لیے اس امر کا فیصلہ کر دیں کہ عرب کی سرزمین میں اسلام کو رہنا ہے یا جاہلیت کو۔ اللہ تعالٰی نے اس موقع پر مسلمانوں کو اسی عزیمت کی راہ دکھائی جو اہل ایمان کے لیے ایک ہی راہ ہے۔ اس نے پہلے سورہ حج (آیت 39) میں ان کو جنگ کی اجازت دی، اور پھر سورہ بقرہ (آیت 190) میں اس کا حکم دے دیا۔ مگر اس وقت ہر شخص جانتا تھا کہ ان حالات میں جنگ کے معنی کیا ہیں۔ مدینے میں اہل ایمان کی ایک مٹھی بھر جمعیت تھی جو پورے ایک ہزار مردان جنگی بھی فراہم کرنے کے قابل نہ تھی، اور اس سے کہا جا رہا تھا کہ سارے عرب کی جاہلیت سے ٹکرا جانے کے لیے تلوار لے کر کھڑی ہو جائے۔ پھر لڑائی کے لیے جس سر و سامان کی ضرورت تھی وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی ایک ایسی ہستی مشکل سے ہی فراہم کر سکتی تھی جس کے اندر سینکڑوں بے خانماں مہاجر ابھی پوری طرح بسے بھی نہ تھے اور چاروں طرف سے اہل عرب نے معاشی مقاطعہ کر کے اس کی کمر توڑ رکھی تھی۔
موضوع اور مضمون
یہ حالات تھے جن میں یہ سورت نازل فرمائی گئی۔ اس کا موضوع اہل ایمان کو جنگ کے لیے تیار کرنا اور ان کو اس سلسلے میں ابتدائی ہدایات دینا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام سورہ قتال بھی رکھا گیا ہے۔ اس میں ترتیب وار حسب ذیل مضامین ارشاد ہوئے ہیں
آغاز میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دو گروہوں کے درمیان مقابلہ درپیش ہے۔ ایک گروہ کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ حق سے ماننے سے انکار کر چکا ہے اور اللہ کے راستے میں سدِ راہ بن کر کھڑا ہو گیا ہے اور دوسرے گروہ کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ اس حق کو مان گیا ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا۔ اب اللہ تعالٰی کا دو ٹوک فیصلہ یہ ہے کہ پہلے گروہ کی تمام سعی و عمل کو اس نے رائیگاں کر دیا اور دوسرے گروہ کے حالات درست کر دیے۔
اس کے بعد مسلمانوں کو ابتدائی جنگی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان کو اللہ کی مدد اور رہنمائی کا یقین دلایا گیا ہے۔ ان کو اللہ کی راہ میں قربانیاں کرنے پر بہترین اجر کی امید دلائی گئی ہے اور انہیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ راہ حق میں ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک وہ ان کا اچھے سے اچھا پھل پائیں گے۔
پھر کفار کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی تائید و رہنمائی سے محروم ہیں۔ ان کی کوئی تدبیر اہل ایمان کے مقابلے میں کارگر نہ ہوگی اور دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بہت برا انجام دیکھیں گے۔
انہوں نے اللہ کے نبی کو مکہ سے نکال کر یہ سمجھا کہ انہیں بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے حالانکہ دراصل یہ کام کر کے انہوں نے اپنی تباہی کو خود اپنے اوپر دعوت دے دی۔
اس کے بعد منافقین کی طرف روئے سخن پھرتا ہے جو جنگ کا حکم آنے سے پہلے تو بڑے مسلمان بنے پھرتے تھے، مگر یہ حکم آ جانے کے بعد ان کے ہوش اڑ گئے تھے اور وہ اپنی عافیت کی فکر میں کفار سے ساز باز کرنے لگے تھے تاکہ اپنے آپ کو جنگ کے خطرات سے بچا لیں۔ ان کو صاف صاف خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقت اختیار کرنے والوں کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ یہاں تو بنیادی سوال جس پر تمام مدعیان ایمان کی آزمائش ہو رہی ہے یہ ہے کہ آدمی حق کے ساتھ ہے یا باطل کے ساتھ؟ اس کی ہمدردیاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہیں یا کفر اور کفار کے ساتھ؟ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کو عزیز رکھتا ہے یا اس حق کو جس پر ایمان لانے کا وہ دعویٰ کر رہا ہے؟ اس آزمائش میں جو شخص کھوٹا نکلتا ہے وہ مومن ہی نہیں ہے، کجا کہ اس کی نماز اور اس کا روزہ اور اس کی زکوٰۃ خدا کے ہاں کسی اجر کی مستحق ہو۔
پھر مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنی قلت تعداد اور بے سر و سامانی اور کفار کی کثرت اور ان کے سر و سامان کی فراوانی دیکھ کر ہمت نہ ہاریں، ان کے آگے صلح کی پیشکش کر کے کمزوری کا اظہار نہ کریں جس سے ان کی جراتیں اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں اور زیادہ بڑھ جائیں، بلکہ اللہ کے بھروسے پر اٹھیں اور کفر کے اس پہاڑ سے ٹکرا جائیں۔ اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے، وہی غالب رہیں گے اور یہ پہاڑ ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔
آخر میں مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی ہے۔ اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی معاشی حالت بہت پتلی تھی، مگر سامنے مسئلہ یہ درپیش تھا کہ عرب میں اسلام اور مسلمانوں کو زندہ رہنا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے کی اہمیت و نزاکت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں اپنے آپ کو اور اپنے دین کو کفر کے غلبہ سے بچانے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنی جانیں بھی لڑائیں اور جنگی تیاری میں اپنے مالی وسائل بھی پوری امکانی حد تک کھپا دیں۔ اس لیےمسلمانوں سے فرمایا گیا کہ اس وقت جو شخص بھی بخل سے کام لے گا وہ دراصل اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ خود اپنے آپ ہی کو ہلاکت کے خطرے میں ڈال لے گا۔ اللہ تو انسانوں کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے دین کی خاطر قربانیاں دینے سے ایک گروہ اگر جی چرائے گا تو اللہ اسے ہٹا کر دوسرا گروہ اس کی جگہ لے آئے گا۔
اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ
"جن لوگوں نے کفر کیا” "اور اللہ کے راستے سے روکا” "اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کردیا”
یعنی اس تعلیم و ہدایت کو ماننے سے انکار کر دیا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش فرما رہے تھے۔
اصل میں صَدُّ وْ ا عَنْ سَبِیلِ اللہِ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ صَدّ عربی زبان میں لازم اور متعدی، دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خود اللہ کے راستے پرآنے سے باز رہے، اور یہ بھی کہ انہوں نے دوسروں کو اس راہ پر آنے سے روکا۔
دوسروں کو خدا کی راہ سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی زبردستی کسی کو ایمان لانے سے روک دے۔ دوسری صورت یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور دوسروں کے لیے ایسے خوفناک حالات میں ایمن لانا مشکل ہو جائے۔ تیسری صورت یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے دین اور اہل دین کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ایسے وسوسے دلوں میں ڈالے جس سے لوگ اس دین سے بدگمان ہو جائیں۔ اس کے علاوہ ہر کافر اس معنی میں خدا کی راہ سے روکنے والا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کفر کے طریقے پر پرورش کرتا ہے اور پھر اس کی آئندہ نسل کے لیے دین آبائی کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر کافر معاشرہ خدا کے راستے ہیں ایک سنگ گراں ہے، کیونکہ وہ اپنی تعلیم و تربیت سے، اپنے اجتماعی نظام اور رسم و رواج سے، اور اپنے تعصبات سے دین حق کے پھیلنے میں شدید رکاوٹیں ڈالتا ہے۔
اصل الفاظ ہیں اَضَلَّ اَعْمَا لَہُمْ۔ ان کے اعمال کو بھٹکا دیا۔ گمراہ کر دیا۔ ضائع کر دیا۔ یہ الفاظ بڑے وسیع مفہوم کے حامل ہیں۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ توفیق سلب کر لی کہ ان کی کوششیں اور محنتیں صحیح راستے میں صرف ہوں۔ اب وہ جو کچھ بھی کریں گے غلط مقاصد کے لیے غلط طریقوں ہی سے کریں گے، اور ان کی تمام سعی و جہد ہدایت کے بجائے ضلالت ہی کی راہ میں صرف ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کام اپنے نزدیک وہ خیر کے کام سمجھ کر کرتے رہے ہیں، مثلاً خانۂ کعبہ کی نگہبانی، حاجیوں کی خدمت، مہمانوں کی ضیافت، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، اور ایسے ہی دوسرے کام جنہیں عرب میں مذہبی خدمات اور مکارم اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ضائع کر دیا۔ ان کا کوئی اجر و ثواب ان کو نہ ملے گا، کیونکہ جب وہ اللہ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کا طریقہ اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پر آنے سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتا۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ راہ حق کو روکنے اور اپنے کافرانہ مذہب کو عرب میں زندہ رکھنے کے لیے جو کوششیں وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں کر رہے ہیں، اللہ نے ان کو رائگاں کر دیا۔ ان کی ساری تدبیریں اب محض ایک تیر بے ہدف ہیں۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے مقصد کو ہر گز نہ پہنچ سکیں گے۔