این آئی ائے : کشمیریوں کی سیاسی آواز کو ختم کیا جارہا ہے
٭…ابو سلیقہ
بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارہ’’ این آئی اے‘‘ نے گزشتہ ہفتے حریت کانفرنس کے سات لیڈروں کو گرفتار کرکے راتوں رات دلی پہنچایاہے ، جہاں این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت میں پیش کرکے پندرہ دن کے لیے اُن کا ریمانڈ حاصل کرلیا گیا۔ سات لیڈروں کی گرفتاری کے اگلے ہی روز ایک اور سینئر حریت لیڈر شبیر احمد شاہ کو بھی اپنی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا گیااور اُنہیں بھی این آئی ائے اہلکار دلی لے گئے۔ گرفتار شدہ لیڈران کے خلاف مبینہ طور پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ بیرون ممالک سے حوالہ چینلوں کے ذریعے فنڈس حاصل کرتے ہیں ۔ بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق مذکورہ لیڈران اور اُن کی تنظیمیں اس رقم کو یہاں سنگ بازوں اور عسکریت پسندوں میں تقسیم کرکے حالات کو بگاڑ رہے ہیں۔شبیر احمد شاہ کے خلاف ۲۰۰۵ء کا ایک کیس کھولا گیا جس میں اُنہیں مبینہ طور پرحوالہ چینلوں سے رقم وصول کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔اخباری اطلاعات کے مطابق این آئی اے گرفتاریوں کے اس سلسلے کو پھیلانا چاہتے ہیں اور یہ بھی باتیں ہورہی ہیں کہ متعلقہ ایجنسی اتحاد ثلاثہ کے تین اہم لیڈروں سے بھی پوچھ تاچھ کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ اس کے علاوہ این آئی اے نے مزید 28 افرادکو حوالہ فنڈنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں دلی طلب کرلیا ہے۔دوسری جانب تین لیڈروں پر مشتمل اتحادنے این آئی اے کی اس کارروائی کو استعماری حربہ قرار دے کر اِسے تحریک آزادی کشمیر اور کشمیری قوم کی آواز کو دبانے کی ایک سوچی سمجھی چال قرار دیا ہے۔حریت نے بھارت سرکار کی اس کارروائی پر ایک دن ہڑتال کی کال بھی دی، جس کے نتیجے میں وادی میں معمولات زندگی متاثر رہی۔
بھارت سرکار کی جانب سے این آئی اے کے ذریعے کروائی گئی ان گرفتاریوں نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ دلّی سرکار کشمیر کی ابتر صورتحال سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکی۔ ہزار ہا وعدوں کے باوجود وہ کشمیرمسئلہ کو سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور اب بھلا کیوں کر کشمیری عوام ہندوستانی سیاست دانوں پر یقین کرے گی۔2008 ، 2010 اور 2016 میں جب حالات نے کروٹ لی تو حکومت ہند نے ایک اعتبار سے منت سماجت کرکے مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کے لیے کشمیریوں کو بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی، یہاں وفود بھیجے گئے، حریت لیڈران سے بات چیت کرنے کے لیے ٹریک ٹو ڈپلومیسی چلائی گئی، کئی سرکاری و غیر سرکاری وفود اُن کی خدمت میں روانہ کیے گئے لیکن جوں ہی حالات میں تھوڑا بہت سدھار آجاتاہے، یہ لوگ نہ صرف مکر جاتے ہیں بلکہ بے جا الزامات کا سلسلہ شروع کرکے دلی اپنی اُسی پرانی روش پر رواں دواں ہوجاتی ہے۔کشمیریوں کے اس واحد سیاسی پلیٹ فارم کی اہمیت ، افادیت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ ابھی کل ہی بی جے پی کے ایک اہم لیڈر اور وزیر جنرل وی کے سنگھ نے کہا ہے کہ اُن کی حکومت پاکستان اور حریت لیڈران سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ فسطائی طرز عمل ہے، ایک جانب بات چیت کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے دوسری جانب جن لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنی ہے اُنہیں ’’مجرم‘‘ قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا جارہا ہے۔بھارت سرکار کے اس طرز عمل سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بات چیت کے حوالے سے یہ لوگ کبھی بھی مخلص نہیں رہے ہیں ۔ سیاسی پلیٹ فارم کی ساخت متاثر کرنے کی گھناؤنی کوششیں خود دلی کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں، کیونکہ بالآخر سیاسی سطح پر ہی مسائل حل ہوجاتے ہیں اور جہاں کوئی مؤثر سیاسی پیلٹ فارم موجود ہی نہ رہنے دیا جائے وہاں پھر عوامی تحریک کو کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔
جہاں تک بیرونی فنڈنگ کا تعلق ہے، دنیا جانتی ہے کہ آج کے زمانے میں آر پار کشمیر سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ مختلف ممالک میں مقیم ہیں، جہاں وہ اچھی خاصی کمائی کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے فلاحی اداروں کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف موقعوں پر وہاں چندہ وغیرہ جمع کرکے اپنی رقومات کشمیربھیجتے ہیں۔ 2005 ء کا زلزلہ ہو یا پھر 2014 کا بھیانک سیلاب مختلف ممالک میں مقیم کشمیریوں نے دل کھول کر اپنی قوم کی مدد کی۔ یہ کشمیر کی بات نہیں بلکہ ہندوستان کے لاکھوں لوگ بھی بیرون ممالک سے اپنے ملک کے غریبوں ، ناداروں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے وہاں سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے سے اپنے ملک میں پیسے بھیجتے ہیں۔ ہندوستان کی معیشت کو عرصہ دراز سے عرب ممالک کی جانب سے بھیجے گئے امدادکے پیسے نے خوف سہارا مل رہا ہے۔آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مسلم ورلڈ کے کئی اہم ممالک یہاں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی مالی معاونت کرتے ہیں۔یہ جو اقوام متحدہ کی سربراہی میں کام کرنے والی مختلف تنظیمیں جن میں ڈاکٹر بغیر سرحد،Save the Children ،Red Cross اور دیگر درجنوں مشینری تنظیمیں شامل ہیں اُن کا پیسہ کہاں سے آتا ہے، وہ ہندوستانی حکومت تو نہیں دے رہی ہے بلکہ یہ پیسہ بھی بیرون ممالک سے آتا ہے۔بیرونی ریاست مقیم کشمیری بھی مشکلات کی گھڑیوں میں اپنی قوم کی مدد کرتے ہوں گے تو اس میں ایسی کون سی بات ہے جس کا بہانہ بناکر ہندوستان کے تمام میڈیا ہاوسز چوبیسیوں گھنٹے منفی پروپیگنڈہ کرکے کشمیر ، کشمیری قیادت اور یہاں کی تحریک کو بدنام کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اُن کے سیاست دان بیان بازیاں کرتے رہتے ہیں اور این آئی اے گرفتاریاں عمل میں لاکر ہندوستانی عوام میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ جیسے اُنہوں نے ہمالیہ کی چوٹی سے سر کرلی ہو۔یہ سب اُس ڈرامے کا حصہ ہے جس کا پلاٹ 2016 کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران دلی کے ایوانوں میں تیار کیا گیا ہے۔ ہندوستانی ہوم منسٹر مسٹر راج ناتھ سنگھ کا بیان سب کو یاد ہوگا جس میں اُنہوں نے تین ماہ کے دوران تک حالات سدھارنے کی بات کی ہے، اُسی وقت یہاں کے سیاسی پنڈتوں نے کہا تھا کہ یہ لوگ طاقت کی زبان میں بات کرکے حسب روایت وہی طریقہ کار اختیار کریں گے جس کا مظاہرہ فوجی طاقت استعمال کرکے اُنہیں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کیا ہے۔ حریت لیڈروں کو بے بنیاد کیسوں میں پھنسانا، زمینی سطح پر پولیس اور فوج کو کھلے اختیار دینا، میجر گوگوئی اور مژھل فرضی انکاونٹر میں ملوث فوجی اہلکاروں کو باعزت بری کرنا وہ واضح پیغامات ہیں جن کے ذریعے سے ایک جانب وردی پوشوں کا مورال بلند کرنے اور اُنہیں انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑانے کا لائنس دیا جارہا ہے تو دوسری جانب کشمیریوں میں نااُمیدی پیدا کرنے کے لیے بھی یہ ایک داؤ ہے۔
حریت کانفرنس(یہاں حریت کانفرنس سے مراد متحدہ حریت کانفرنس کی وہ تمام اکائیاں ہیں جو تحریک حق خود ارادیت کے لیے شروع سے آج تک مسلسل جدوجہد کرتی چلی آرہی ہیں ) میں شامل لوگوں میں بشری کمزوریاں ہوسکتی ہیں، اُن سے غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی لیکن حریت کانفرنس تحریک حق خود ارادیت کا ایک قلعہ ہے، یہ ایک Ideologyہے ، یہ ایک واحد پلیٹ فارم رہ گیا ہے جہاں سے کشمیری عوام کی بات کی جارہی ہے، یہاںکشمیریوں کی سوچ اور امنگوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اس پیلٹ فارم کے سوا یہاں ہندنواز سیاسی جماعتوں کا ٹولہ ہے جو کشمیریوں کے جذبات کا صرف استحصال کرتے آئے ہیں۔کشمیریوں کا یہ سیاسی پلیٹ فارم بھارتی حکمرانوں اور ایجنسیوں کے لیے آنکھ میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔گزشتہ تین دہائیوں میں اس پلیٹ فارم پر کئی مرتبہ وار کیا گیا۔ اس میں اختلافات پیدا کیے گئے، اس میں شامل جماعتوں کے درمیان بداعتمادی پیدا کروائی گئی، جس کے لیے غیروں کی سازشوں سے زیادہ اپنوں کی حماقتوں نے کام کیا ہے۔ اس کے دو پھاڑ کروایا گیا۔2016 کے بعد شروع ہونی والی عوامی تحریک اورکشمیری قوم کی مجموعی مزاحمتی جدوجہد کی کمر توڑنے کے لیے سب سے پہلے اس تحریک کو سیاسی سرپرستی سے محروم کیے جانے کی کوششیں ہونے لگی ہیں۔ حریت کو بدنام کیا جارہا ہے، حریت نواز افراد کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس عمل میں کچھ ایسے عناصر سرگرم ہیںجنہوں نے بظاہر آزادی پسندہونے کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہے۔یہ لوگ حریت کانفرنس کو غیر ضروری پیلٹ فارم قرار دے کر کشمیریوں کی مقامی جدوجہد کو گلوبل رنگ دینے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ حریت کے خلاف چھیڑی گئی اس مہم میں اور کشمیری تحریک کو عالمی سطح کی تحریکات سے جوڑنے کی کوششوں میں چند وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہر ہمیشہ یہاں قوم پرستی کے پرچارک رہے ہیں۔مطلب ذاتی اغراض او رمفادات کے لیے حریت جیسے فورم کو بدنام کرکے دلی کے ایجنڈے کی آبیاری ہورہی ہے۔ حریت کانفرنس سے وابستہ لیڈروں کے ساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن حریت کانفرنس کے مقصد وجود کا انکار کوئی عقل کا اندھا ہی کرسکتا ہے۔ یہ فورم گزشتہ تین دہائیوں کی مسلسل جدوجہد کا ثمر ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں تبھی ہوگا جب یہاں سیاسی انارکی اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔جب ہماری بات سامنے رکھنے کے لیے کوئی لیڈر یا جماعت موجود نہیں رہے گی۔قوم کے ذی شعور لوگوں میں بحث اس بات پر ہونی چاہیے تھی کہ این آئی اے کس اختیار سے کشمیر میں کارروائی عمل میں لاسکتی ہے، جبکہ دلی کی اس ایجنسی کا دائرہ کار جموںو کشمیر میں نہیں ہے۔ کشمیر سے گرفتار ہونے والے کسی بھی شخص کو انڈین پینل کوڈ کے تحت گرفتار نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ یہاں رنبیر پینل کوڈ رائج ہے، اس ایجنسی نے جن افراد کو سرینگر سے گرفتار کیا ہے اُنہیں انڈین پینل گوڈ کے تحت نظر بند کردیا گیا۔یہاں کے لوگوں کو برسراقتدار جماعت اور ہند نواز سیاست دانوں کا گریباں پکڑ کر اُن سے جواب طلب کرلینا چاہیے کہ دفعہ370 کا سودا کیوں کیا گیا، کس اختیار سے این آئی اے اہلکار کھلے عام یہاں کارروائیاں کرتے پھرتے ہیں؟بجائے اس کے کہ ہم آستین کے سانپ کو ڈھونڈ نکال کر اُس کی زہر سے بچنے کی سبلیں کرتے ، ہم اپنے سیاسی وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا کر اپنی جدوجہد پر شب خون مارنے کے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔
نااتفاقی اس قوم کی سب سے بڑی کمزوری ہے، بداعتمادی اور عوامی بھروسے پر پورا نہ اُترنا بھی بدقسمتی سے ہی تعبیر ہوگا۔ یہاں عوام اور لیڈران دونوں کو کافی ہوشیاری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی صورت میں اتحاد کو پارہ پارہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔اتحاد کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔ حریت کانفرنس کی تمام اکائیوں کو بھی اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہیے۔ مفاد پرست عناصر جہاں بھی موجود ہوں اُنہیں اپنی اپنی جماعتوں سے باہری کا راستہ دکھانا وقت کا تقاضا ہے۔ تنظیموں ، جماعتوں اور اکائیوں کے درمیان تال میل پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ باقی ہم جس طاقت کے زیر تسلط ہیں وہ اپنی طاقت اور اپنے وسائل کو استعمال میں لاکر وقتی طور اس مظلوم قوم کو دباسکتے ہیں البتہ قوم کی سوچ اور آرزو کو این آئی اے کی کارروائیاں اور گرفتاریاں ٹھنڈا نہیں کرسکتی ہیں۔