پیر, اکتوبر ۱۳, ۲۰۲۵
22.1 C
Srinagar

ہائی کورٹ نے 25 کتابوں پر پابندی کی درخواستوں پر نوٹس جاری کر دیا

سری نگر: جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے محکمہ داخلہ کو ان چار عرضیوں پر نوٹس جاری کیا ہے جن میں 25 کتابوں پر پابندی کو چلینج کیا گیا ہے تاہم عدالت نے اس معاملے میں دائر کی گئی ایک مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ پی آئی ایل سی پی آئی (ایم) کے لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے دائر کی تھی جس کو عدالت نے قرار دیا کہ یہ ‘عوامی مفاد’ میں نہیں ہے۔

چیف جسٹس ارون پالی، جسٹس راجنیش اوسوال اور جسٹس شہزاد عظیم پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے حکومت کی اس نوٹیفکیشن کو چلینج کرنے والی چار عر ضیوں پر نوٹس جاری کیا جس کے تحت 25 کتابوں کو ‘غلط بیانی اور علاحدگی پسندی’ پھیلانے کے الزام میں ضبط کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

بینچ نے کہا کہ عوامی مفاد کی عرضی (پی آئی ایل) میں با ضابطہ نوٹس جاری نہیں کیا جا رہا ہے لیکن اسے دیگر مقدمات کے ساتھ اگلی تاریخ پر دلائل کے لئے سنا جائے گا۔

یہ عرضیاں محکمہ داخلہ کی اس اطلاع کے خلاف دائر کی گئی ہیں جو ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ 95 کے تحت ان کتابوں کی ضبطی سے متعلق ہیں۔

یہ درخواستیں صحافی ڈیوڈ دیو داس، ریٹائرڈ ائیر وائس مارشل کپل کاک، ایڈ وکیٹ شاکر شبیر اور سواتک سنگھ کی جانب سے الگ الگ طور پر دائر کی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ جموں وکشمیر کے محکمہ داخلہ نے 5 اگست کو کشمیر سے متعلق 25 کتابوں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔

درخواست گذاروں کا موقف ہے کہ ان 25 کتابوں کا موضوع زیادہ تر کشمیر کی سماجی و سیاسی زندگی اور اس کی تہذیبی تاریخ سے جڑی سیاسی جد وجہد پر مبنی ہے۔

ان کا کہنا ہے: ‘یہ کتابیں، جن میں سے اکثر علمی نوعیت کی ہیں، تاریخ کے شعبے میں ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہیں’۔
ان کتابوں کے مصنفین میں ارون دھتی رائے اور اے جی نورانی شامل ہیں۔ دیگر کتابوں میں سیاسی تبصرے اور تاریخی بیانات شامل ہیں جن میں معروف آئینی ماہر نورانی کی کشمیر ڈسپیوٹ 1947-2012، کشمیر ایٹ دی کراس روڈ اینڈ کنٹیسٹڈ لینڈز از سمنترا بوس، ان سرچ آف اے فیوچر: دی کشمیر سٹوری از ڈیوڈ دیوداس، ارون دھتی رائے کی آزادی اور اے ڈسمنٹلڈ اسٹیٹ: دی انٹولڈ سٹوری از انورادھا بھسین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اگست میں ان 25 کتابوں پر عائد پابندی کو چلینج کرتے ہوئے ایک عوامی مفاد کی عرضی (پی آئی ایک) عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی تھی تاہم عدالت عظمیٰ نے عرضی گذار کو جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

Popular Categories

spot_imgspot_img