جمعہ, اگست ۱, ۲۰۲۵
25.9 C
Srinagar

کشمیر: ضلع اننت ناگ کا اشر چکی داس علاقہ ‘واٹر میلن ولیج آف کشمیر’ کے نام سے مشہور کیوں

سری نگر: یوں تو وادی کشمیر کے گوشہ و کنار میں ہائی ڈینسٹی سیب کے باغات لگانے کا رجحان بام عروج پر ہے تاہم جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا ایک گاؤں وسیع اراضی پر تربوز کی فصل اگانے کے لئے ‘واٹر میلن ولیج’ کے نام سے مشہور ہے۔

ضلع اننت ناگ کے اشر چکی داس علاقے میں 5 سو کنال وسیع و عریض اراضی پر تربوز کی فصل اگائی جاتی ہے جس کو کشمیر کے کونے کونے میں سپلائی کیا جاتا ہے۔

اس علاقے کے 50 فیصد کسان یہی فصل اگا کر نہ صرف تسلی بخش پیسہ کماتے ہیں بلکہ سینکڑوں مزدوروں کی روزی روٹی کی بھی سبیل کرتے ہیں۔

محمد اسلم خان نامی ایک کسان جن کا تعلق چکی اشر داس گاؤں سے ہے، نے یو این آئی کو بتایا: ‘میں 55 کنال اراضی پر تربوزکی فصل لگاتا ہوں،ہم مئی کے مہینے میں بیج بونے کا کام شروع کرتے ہیں، جولائی میں فصل تیار ہوتی ہے جو پھر وادی کے بازاروں میں پہنچتی ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘امسال بھی اچھی فصل تھی، اچھی خاصی آمدنی ہوئی، نہ صرف میری اچھی کمائی ہوئی بلکہ 6 سے 7 مزدور جو روزانہ میری کھیت پر کام کرتے ہیں، ان کی روزی روٹی کی بھی سبیل ہوئی’۔


ان کا کہنا تھا: ‘ایک تربوز کا وزن 15 سے 18 کلو ہوتا ہے اور جو تربوز جس قدر زیادہ وزنی ہوتا ہے وہ اسی قدر میٹھا اور ذائقہ دار بھی ہوتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ہم کھیت سے 40 روپیہ فی کلو کے حساب سے تربوزفروخت کرتے ہیں۔

اراضی پر سیب کے باغ لگانے کے بجائے تربوز کی فصل اگانے کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف کسان نے کہا: ‘میں دلی میں فروٹ کا کام کر رہا تھا ایک دن وہاں میں نے ایک تربوزکھایا جو بہت ہی میٹھا تھا، میں نے اس تربوز کے کچھ بیج اپنے ساتھ گھر لائے اور ان کو یہاں بویا’۔

انہوں نے کہا: ‘یہ تربوز تیار ہوئے تو بہت ہی میٹھے تھے، اگلے برس میں نے مزید اراضی پر تربوز کے بیج بوئے فصل تیار ہوئی، میرا شوق بڑھتا گیا اور اسی کے ساتھ فصل میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور بات آج تک پہنچ گئی، یہی کام میرا مستقل پیشہ بن گیا’۔

ان کا کہنا تھا: ‘سیب کے باغ سے یہ کاشتکاری بہتر ہے، کیونکہ جس اراضی پر ہم تربوز کی فصل تیار کرتے ہیں اسی پر ہم سال میں دیگر تین فصل جن میں سبزیاں شامل ہیں، تیار کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس سیب کی فصل کا سال بھر انتظار کرنا پڑتا ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘در اصل میں نے یہ کام سال 2008 میں شروع کیا تھا جو آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا’۔
محمد اسلم کے کھیت سے تیار ہونے والے تربوز پر ایک لیبل لگا ہوا ہوتا ہے جس پر ان کا نام، فون نمبر، کیو آر نمبر لکھا ہے۔
انہوں نے کہا: ‘ہم اس فصل کے لئے کسی قسم کی کھاد کا استعمال نہیں کرتے ہیں، یہ قدرتی طریقے سے تیار کی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ ذائقہ دار ہوتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا: ‘وادی میں لوگ ان تربوز کو شوق سے کھاتے ہیں، اور ان کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے’۔
موصوف کسان نے بتایا: ‘ایک تربوز اگر گھر میں رکھا جائے تو اس عمر کم سے کم ایک ماہ ہے جبکہ کولڈ سٹور میں یہ 6 ماہ تک ٹھیک رہ سکتا ہے’۔

انہوں نے کہا : ‘ہم چایتے ہیں کہ ہمارا یہ مال نہ صرف ملک کے باقی حصوں میں بلکہ بیرون ملک بھی پہنچ جائے اس کے لئے ہم نے حکومت کی طرف رجوع کیا ہے’۔
ان کا کہنا تھا: ‘ایگریکلچر زون تیل ونی اس فصل کو تیار کرنے میں ہمیں ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے’۔
انہوں نے کہا: ‘یہ پیدوار ماہ ستمبر تک رہتی ہے’۔

Popular Categories

spot_imgspot_img