آئی پی ایل2025 کے فائنل میں ایک کہانی مکمل ہوئی اور ایک کہانی پھر سے ادھوری رہ گئی۔ پنجاب کنگز کی طرح جو برسوں سے چیمپئن بننے کا خواب دیکھتی آئی ہے، ہماری عوامی حکومت بھی ایک خواب لیے چل رہی ہے۔جموں و کشمیر کے عوام کو ا±ن کے مکمل جمہوری حقوق لوٹانے کا خواب۔ لیکن خواب صرف بیان سے پورے نہیں ہوتے، ان کے لیے عزم، اقدام اور عوامی رابطہ درکار ہوتا ہے۔ وہی جذبہ جو رائل چیلنجرز بنگلور نے دکھایا، جو برسوں کے ناکامی کے بعد آخرکار چیمپئن بنی۔ایک فائٹر ٹیم، جس نے خود کو لیجنڈ میں بدل دیا۔2024 میں منتخب ہونے والی حکومت کو آٹھ ماہ ہو چکے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حکومت ہے، کیونکہ یہ یوٹی اسٹیٹس کے بعد پہلی عوامی منتخب حکومت ہے۔ عمر عبداللہ نے ایک نئے سیاسی باب کا آغاز کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس باب میں عوام شامل ہیں؟ لیفٹیننٹ گورنر بازاروں میں گھومتے ہیں، دکانداروں سے ملتے ہیں، زمین پر نظر آتے ہیںاور عوامی وزیر اعلیٰ؟ وہ شاید فائلوں اور بیوروکریسی کی دیواروں میں گم ہو چکے ہیں۔
جمہوریت محض الیکشن جیتنے سے مکمل نہیں ہوتی۔ یہ مسلسل عوام کے درمیان رہنے، ا±ن کی آواز سننے اور اپنے وعدے نبھانے سے مکمل ہوتی ہے۔ اگر انتخابی منشور میں عوام کو مفت بجلی، گیس اور روزگار کا وعدہ کیا گیا تھا، تو آج صرف بہانے پیش کرنا ا±س عوام کے ساتھ ناانصافی ہے جس نے ووٹ کی طاقت سے آپ کو ایوان تک پہنچایا۔ اگر ایم ایل اے فنڈ نہیں ملتے تو اسمبلی کے فلور سے لے کر عوامی احتجاج تک، ہر راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔بشرطیکہ ارادہ ہو۔سیاحت کے فروغ کے لیے سائیکلنگ ایونٹس کی تصویر کشی سے زیادہ ضروری ہے کہ ٹرانسپورٹ، بنیادی ڈھانچے، اور پالیسی سطح پر کام کیا جائے۔ نوجوانوں کو روزگار، کسانوں کو قیمت اور عام شہری کو تحفظ اور وقار چاہیے۔ یہ وہ حقیقی مطالبات ہیں جن کے لیے عوام نے مینڈیٹ دیا تھا۔
جموں و کشمیر میں تین طاقت کے مراکز ہیں۔مرکز، لیفٹیننٹ گورنراور عوامی حکومت۔ لیکن ان تینوں میں ہم آہنگی تبھی ممکن ہے جب عوامی حکومت اپنی اصل حیثیت کو سمجھے اور یہ سمجھے کہ عوام نے ا±سے صرف انتظامی کارروائیوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے مستقبل کے فیصلوں میں شریک بنانے کے لیے چ±نا ہے۔اس وقت ہمیں ضرورت ہے ایک ایسے لیڈر کی جو عوام میں گھل مل جائے،ایک ایسے فائٹر کی جو مرکز کے ساتھ نظریں ملا کر بول سکے اور ایک ایسے لیجنڈ کی جو تاریخ بدلنے کی ہمت رکھتا ہو۔جموں و کشمیر کا چیمپئن بننے کے لیے خواب دیکھنا کافی نہیں، میدان میں اترنا ہوگا اور میدان میں صرف وہی اترتا ہے جس میں یقین ہو، جرات ہو، اور جذبہ ہو۔لیڈر، فائٹر اور لیجنڈ بننے کا۔
