اتوار, جون ۱, ۲۰۲۵
16 C
Srinagar

کووڈ کا سایہ ایک بار پھر، کیا ہم تیار ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔

پوری دنیا کو2020 کا وہ بھیانک منظر آج بھی یاد ہے جب کورونا وائرس نے زندگی کا پہیہ جام کر دیا تھا۔ دنیا کی بڑی سے بڑی معیشتیں ساکت ہو گئیں، اسپتال بھر گئے، آکسیجن سلنڈرز نایاب ہو گئے اور انسانی سانسوں پر خوف کی چادر تن گئی۔ لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں، تعلیم، تجارت، سفر اور روزگار سب تعطل کا شکار ہوئے۔ کورونا کی اس عالمی وبا نے ہمیں یہ سبق دیا کہ صحت کا بحران جب بھی آئے، صرف دوا یا اسپتال نہیں، بلکہ مکمل ریاستی مشینری اور سماجی شعور بھی متحرک ہونا چاہیے۔اور اب، ایک مرتبہ پھر وہی وائرس، ایک نئے ویرینٹ ”جے این۔1“ کی صورت میں بھارت میں سر ا±ٹھا رہا ہے۔ حالانکہ مرکزی وزارت صحت کی جانب سے عوام کو تسلی دی گئی ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، مگر احتیاطی تدابیر کو ترک کرنا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، بھارت بھر میں کووڈ کے ایکٹو کیسز کی تعداد1010 تک پہنچ چکی ہے، جن میں سب سے زیادہ کیرالہ، مہاراشٹر اور دہلی متاثر ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے تمام صحت اداروں کو الرٹ رہنے، ضروری وسائل تیار رکھنے اور علاج کی سہولیات مہیا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ لیکن محض اعلانات کافی نہیں ، زمینی سطح پر نگرانی، ٹیسٹنگ، ویکسینیشن اور عوامی بیداری سب سے اہم عوامل ہیں۔جموں و کشمیر جیسے خطے میں، جہاں طبی انفراسٹرکچر کی کئی جگہوں پر کمی ہے، وہاں عوامی حکومت کو چاہیے کہ وہ ماضی کی طرح کسی بحران کا انتظار کرنے کے بجائے پہلے سے حفاظتی اقدامات کرے۔ مقامی سطح پر ہسپتالوں کی تیاری، طبی عملے کی تربیت، اور ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانا اب محض انتظامی تقاضا نہیں، بلکہ عوامی فلاح کی ترجیح ہونی چاہیے۔ماضی میں جب لاک ڈاو¿ن نافذ ہوا تو غریب، مزدور، طلبہ اور چھوٹے کاروباری طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ تعلیمی ادارے بند، معاش رک گیا اور ذہنی دباو¿ بڑھ گیا۔ اس بار اگر حکومت وقت پر قدم اٹھاتی ہے، اگر عوام احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہیں، اگر میڈیا سنجیدہ آگاہی مہم چلاتا ہے، تو ہمیں کسی بندش یا لاک ڈاو¿ن کی نوبت نہیں آئے گی۔
صرف حکومتیں نہیں، بلکہ ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر خاندان اس جدوجہد میں شامل ہے۔ ماسک، ہینڈ سینیٹائزر، سماجی فاصلہ، ویکسین کی بوسٹر ڈوز ، یہ سب معمولی احتیاطی تدابیر ہیں، مگر ان کا اجتماعی اثر بڑا ہوتا ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ سنسنی خیزی کے بجائے سائنسی بنیاد پر عوام کو مسلسل آگاہ کرے اور جعلی معلومات یا افواہوں سے پرہیز کرے۔یہ سچ ہے کہ اس وقت کورونا کے نئے ویرینٹ کی شدت کم ہے اور اسپتال میں داخلے کی شرح معمولی ہے۔ لیکن وائرس کی فطرت ہے کہ یہ خود کو بدلتا رہتا ہے۔ اگر ہم نے لاپروائی دکھائی تو ایک چھوٹی سی لہر ایک بڑے طوفان میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے، کورونا صرف ایک طبی بحران نہیں، بلکہ یہ معاشی، نفسیاتی اور سماجی چیلنج بھی ہے۔ اگر ہم نے اس بار بھی اتحاد، شعور اور تیاری کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا، تو ہم نہ صرف اس خطرے کو شکست دے سکتے ہیں بلکہ ایک باشعور، صحت مند معاشرہ تشکیل دینے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img