عید الاضحی محض ایک مذہبی تہوار نہیں، بلکہ انسان کے باطن کو جھنجھوڑنے والی ایک روحانی اور سماجی تحریک ہے۔ یہ دن ہمیں حضرت ابراہیمؑ کی اس لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے، جس میں انہوں نے خالقِ حقیقی کی رضا کے لیے اپنی سب سے پیاری چیز کو قربان کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم، اس عظیم سنت کو نبھاتے ہوئے، آج کن چیزوں کو قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ کیا صرف جانور ذبح کر کے ہم سنتِ ابراہیمی کی روح کو پا لیتے ہیں؟ یا اصل قربانی وہ ہے جس میں ہم اپنے آرام، اپنی خودغرضی، اپنے تعصبات اور اپنے مفادات کو دوسروں کی بھلائی کے لیے ترک کرتے ہیں؟عید کے دن جب شہروں میں قیمتی جانوروں کی نمائش ہوتی ہے، جب سوشل میڈیا پر قربانی کے مظاہرے ہوتے ہیں، تو سادگی اور کچی بستیوں کی خاموشی ایک الگ کہانی سناتی ہے۔ وہ بیوائیں، جن کے سروں سے سایہ چھن چکا، وہ یتیم بچے، جن کی آنکھیں عید کے کپڑوں کے خواب میں نم ہو جاتی ہیں اور وہ مزدور طبقہ، جو مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر صرف گوشت کی خوشبو سے گزارا کرتے ہیں ۔ان کے لیے بھی عید ہے، لیکن شاید صرف نام کی۔
اسلام نے عید الاضحی کو خوشی کے اظہار کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف، مساوات اور دوسروں کی فلاح کا ایک جامع درس بنایا۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم میں غریب و مسکین کا پہلا حق ہے، لیکن کیا ہم واقعی اس حق کو ادا کرتے ہیں؟ کیا ہمارے محلّے کے یتیم بچوں کو بھی وہی گوشت میسر آتا ہے جو ہمارے دسترخوان کی زینت بنتا ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنی عید کی خریداری میں ایک بیوہ کا خیال رکھا؟ کیا ہم نے کبھی عید کے نئے لباس کے بجائے کسی اور کے پرانے کپڑے تبدیل کروانے کا جذبہ اپنایا؟یاد رکھیں، وہ گوشت جو کسی بھوکے کے پیٹ میں جائے، وہ مسکراہٹ جو کسی مجبور چہرے پر ہماری بدولت آ جائے، وہ دعا جو کسی ماں کے لبوں سے نکلے، یہی اصل قربانی ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے:’اگر تم کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو کم از کم اس پر اپنا بوجھ نہ ڈالو۔‘ اور عید کے دن، اگر ہم صرف اتنا ہی کر لیں کہ کسی کے چہرے سے غم کا سایہ کم کر دیں، تو یہ خود ایک عبادت سے کم نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عید کو رسم و رواج کے دائرے سے نکال کر ایک احساس کی شکل دیں۔ اپنے قرب و جوار میں ان چہروں کو تلاش کریں جن کے لیے عید صرف دوسروں کی خوشی کا نظارہ بن کر رہ گئی ہے۔ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ عید صرف نئے کپڑے اور کھانے کا نام نہیں، بلکہ کسی یتیم کو گلے لگانے اور کسی غریب کے ہاتھ میں گوشت کا تھیلا رکھنے کا نام بھی ہے۔ اپنے گھروں سے نکل کر دلوں میں جھانکیں، شاید کہیں کوئی ماں، بہن یا بچہ ہماری توجہ کا منتظر ہو۔اس عید الاضحی پر آئیے ہم صرف جانور نہیں، اپنے رویے بھی قربان کریں۔ صرف گوشت نہیں، اپنی بے حسی، بے رخی اور غفلت بھی بانٹیں۔ یہ عید صرف آپ کی نہیں، ان سب کی ہونی چاہیے جن کے پاس صرف آنکھیں ہیں، جو ہماری طرف امید سے دیکھتے ہیں۔
