پہلگام کے دہشت گرد حملے میں 26 بے گناہ جانوں کا ضیاع، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی، نہ صرف ایک قومی المیہ ہے بلکہ یہ ہندوستان کی داخلی سلامتی، سیاحت اور علاقائی استحکام پر ایک کاری ضرب بھی ہے۔ اس سانحے کے بعد ملک کی سیاسی فضا میں جس طرح کا اتفاقِ رائے اور عزم ابھر کر سامنے آیا ہے، وہ غیرمعمولی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے آندھرا پردیش کے امراو¿تی میں اپنی تقریر کے دوران ایک واضح پیغام دیا کہ آج بھارت کی طاقت صرف اس کے ہتھیاروں میں نہیں، بلکہ اس کی یکجہتی میں بھی ہے۔ ا±نہوں نے بجا طور پر کہا:’آج ہماری طاقت ہمارے ہتھیار ہی نہیں۔۔۔ ہماری ایکتا یعنی یکجہتی(اتحاد) بھی ہے۔‘ ان الفاظ نے ایک ایسی قومی فضا پیدا کی ہے جہاں عوام اور قیادت دونوں ایک صفحے پر نظر آتے ہیں۔وزیر اعظم کی تقریر سے قبل ریاستی وزیر اعلیٰ چندر بابو نائیڈو اور نائب وزیر اعلیٰ پون کلین نے بھی حملے کے خلاف مرکز کے موقف کی کھل کر حمایت کی۔ یہ اتفاق رائے بھارتی جمہوریت کے ا±س پہلو کو اجاگر کرتا ہے جہاں سلامتی اور قومی وقار پر کوئی سیاست نہیں ہوتی۔
حکومتِ ہند کی فوری اور سخت سفارتی کارروائیاں، پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی تنزلی، انڈس واٹر ٹریٹی(سند ۔طاس معاہدے) کا معطل ہونا اور پاکستانی سفارت کاروں کی ملک بدری، اس امر کی غماز ہیں کہ اب الفاظ سے زیادہ عمل کی زبان بولی جا رہی ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ دفاعی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ،ڈی آر ڈی او کی نئی میزائل ٹیسٹنگ رینج اور جدید ہتھیاروں کی آزمائش اس عزم کو تقویت دیتی ہے کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف نہ صرف پ±رعزم ہے بلکہ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے مسلح افواج کو مکمل آپریشنل آزادی دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ اب وقت، مقام اور طریقہ کار کا تعین وردی والوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ پچھلے دس دنوں میں سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے دو مسلسل اجلاس اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ معاملہ اعلیٰ ترین سطح پر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
بھارت ایک کثیر لسانی، کثیر تہذیبی اور کثیر مذہبی ملک ہے۔ یہاں رنگ جدا، نسل جدا، زبانیں جدا، مگر دل ایک ہیں۔دشمن قوتیں اسی تنوع کو کمزوری سمجھ کر مذہب کے نام پر نفرت پھیلانا چاہتی ہیں، تاکہ ملک داخلی خلفشار کا شکار ہو اور ترقی کا پہیہ رک جائے۔نفرت کا بازار گرم رکھنے والے ٹی وی اینکرز جو قوم پرستی کے نام پر لوگوں کو بانٹ رہے ہیں، ا±ن کے خلاف سخت پالیسی اور اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔یہ وقت’ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ‘کا نہیں، قومی یکجہتی اور ہوش مندی کا ہے۔ہندوستان کی اصل طاقت اس کا اتحاد ہے اور اسی اتحاد کے ذریعے دہشت گردی اور نفرت کو شکست دی جا سکتی ہے۔ یہی وہ’یکجہتی ‘ہے جو دشمنوں کے لیے سب سے بڑا پیغام ہے، کہ ہم ٹوٹنے والے نہیں، بلکہ جوڑنے والے ہیں، ڈرنے والے نہیں، بلکہ مقابلہ کرنے والے ہیں۔پہلگام کے زخم شاید جلد نہ بھر سکیں، لیکن اگر قوم اسی طرح ایک آواز ہو کر چلتی رہی، تو ہر زخم ہمارے اتحاد کی مہر بن جائے گا۔
