منگل, مئی ۶, ۲۰۲۵
26.2 C
Srinagar

ہماری عزت، پہچان اور شناخت ۔۔۔۔۔

وادی کشمیر، جسے صوفیوں، سنتوں، ریشیوں اور منیوں کی سرزمین مانا جاتا ہے، جہاں عام لوگ معمولی سے معمولی گناہ کرنے سے کتراتے تھے اور مرغ حلال کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔ یہ ا±ن ہی بزرگوں کی تعلیم و تربیت کا اثر تھا، جو حقیقی معنوں میں انسانیت کے علمبردار تھے، جو انسان کو اعلیٰ مرتبت اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا سب سے خاص تصور کرتے تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ دنیا کے بڑے بڑے لوگ یہاں کی مہمان نوازی، یہاں کی شرافت و سادگی، یہاں کی مذہبی رواداری اور بھائی چارے کو دیکھ کر اس خطہ ارض کو جنت کا خطاب دینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہاں کی مثالیں پیش کرتے تھے اور یہاں کے لوگوں کو عزت و توقیر کی نظر سے دیکھتے تھے۔بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ آج اس وادی میں ایسے انسانیت سوز واقعات پیش آ رہے ہیں جن سے انسانیت شرمسار ہو رہی ہے اور انسانی اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ حالیہ دنوں پہلگام واقعہ رونما ہوا، جس میں درجنوں مہمان، جو وادی کی سیر کرنے کی غرض سے یہاں آئے تھے، موت کے حوالے کیے گئے۔ اس واقعہ کو انجام دینے والوں نے نہ صرف وادی کے لوگوں کے چہرے پر کالک پوتی ہے بلکہ دو ہمسایہ ممالک کو جنگ کے میدان میں لا کر کھڑا کر دیا۔
ابھی پہلگام کے زخم تازہ ہی تھے کہ ایک اور بری خبر سننے کو ملی کہ نشاط علاقے میں ایک خانہ بدوش عورت کی اجتماعی عصمت دری کا واقعہ پیش آیا، جس دوران مذکورہ عورت شدید زخمی ہو گئی اور اسپتال پہنچتے ہی وہ جاں بحق ہو گئی۔ اس حوالے سے جموں و کشمیر پولیس نے باضابطہ ایک کیس درج کر کے چار لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے اور قصورواروں کو سزا دینے کا عزم بھی دہرایا ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ مجرموں کو سزا ملے گی، بلکہ سوال یہ ہے کہ وادی کے لوگ کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح کے جرائم کرنے میں یہاں کے لوگوں، خاص کر نوجوانوں میں، ہمت کہاں سے آ گئی ہے؟ 1990 میں آزادی کے نام پر شروع ہوئی دہشت گردی نے یہاں کے ا±س نظامِ تربیت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، جس کے بل بوتے پر ہم نہ صرف فخر محسوس کرتے تھے بلکہ ہمیں دنیا بھر میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ جو شرافت و سادگی، مہمان نوازی اور مذہبی ہم آہنگی ہماری پہچان اور شناخت تھی، ا±سے ایک منصوبے کے تحت مسخ کیا گیا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی میں15 لاکھ کے قریب لوگ نشے میں براہِ راست ملوث ہو چکے ہیں، جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں، اور ان میں نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے۔
یہ ڈرگ کون سپلائی کرتا ہے اور اس کے پیچھے کون لوگ کام کر رہے ہیں؟ اہلِ وادی کو ان باتوں پر گہرائی سے سوچنا چاہئے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ ہم کن لوگوں پر بھروسا کرتے ہیں؟ کون لوگ ہمارے محسن اور کون ہمارے دشمن ہیں؟ کون ہماری بھلائی چاہتے ہیں اور کون ہمارے اسلاف کی دی ہوئی تعلیمات سے ہمیں دور کرنے میں لگے ہیں؟وادی کے زی حس لوگوں کو ان باتوں پر غور کرکے ہر حال میں آگے آنا چاہئے اور سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر ا±ن سازشی عناصر کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنا تعاون پیش کرنا چاہئے، اور اپنے بچوں کو بہتر ڈھنگ سے اپنے اسلاف کی تعلیمات سے روشناس کرنا چاہئے، جن میں ملک و سماج میں عورت کی قدر و منزلت اور وطنیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہمیں اپنی نئی پود کو واپس اپنی پ±رانی ڈگر پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہماری عزت، پہچان اور شناخت دوبارہ قائم ہو سکے، جو ہم سے چھین لی گئی ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img