جمعرات, جولائی ۳, ۲۰۲۵
24.2 C
Srinagar

یہ وقت جذبات کو بھڑکانے کا نہیں۔۔۔۔۔۔۔

پہلگام کے دل دہلا دینے والے حملے نے جہاں انسانیت کو جھنجھوڑا، وہیں اس کے بعد کچھ مخصوص میڈیا حلقوں نے جس طرح اس المیے کو ایک قوم یا مذہب کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی، وہ زیادہ تکلیف دہ ہے۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ تاریخی جامع مسجد سرینگر میں جاں بحق سیاحوں کے لیے دو منٹ کی خاموشی نہ صرف ایک پ±رامن خراجِ عقیدت تھا، بلکہ اس بیہودہ مہم کے خلاف ایک مہذب مگر پ±راثر جواب بھی ہے۔تاہم، المیہ صرف حملے تک محدود نہیں رہا۔ اس کے بعد کچھ معروف نیوز چینلز نے اپنی ریٹنگز کی ہوس میں وہ زہر گھولا، جس کے اثرات ملک بھر میں محسوس کیے گئے۔ ایک پورے سماج کو دیوار سے لگانے کی منظم کوششیں تھیں۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی کئی ریاستوں میں کشمیری طلبہ کو ہاسٹلز سے نکالا گیا، دکانوں پر حملے ہوئے، اور ملازمین کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ جب کوئی سانحہ دیگر ریاستوں میں پیش آتا ہے تو وہاں کے عوام کو اجتماعی طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا۔ مگر جب کشمیر کی بات آتی ہے، تو پورا بیانیہ ’ہم اور وہ‘ میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس دہرا معیار نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ خطرناک بھی، کیونکہ یہ ایک ایسے سماج کو مزید تنہائی کی طرف دھکیلتا ہے، جو پہلے ہی دہائیوں سے سیاسی اور سماجی بے یقینی کا شکار ہے۔ایسے میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا فوری ردعمل نہایت دانشمندانہ رہا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ کشمیری عوام کو اس حملے کا ذمے دار ٹھہرانا زیادتی ہے۔ انہوں نے کشمیریوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے، جیسے ہیلپ لائنز کا قیام، وزرا ءپر مشتمل ٹیموں کو متاثرہ ریاستوں میں بھیجنا، اور مقامی حکومتوں سے رابطے شامل ہیں۔
ان اقدامات کا مقصد صرف تحفظ فراہم کرنا نہیں، بلکہ اعتماد بحال کرنا بھی ہے۔لیکن اس اعتماد کو مکمل طور پر بحال کرنے کے لیے مرکز میں بیٹھے حکمراں، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو آگے آنا ہوگا۔ جس طرح غیر ملکی شہریوں کی سلامتی کو قومی ترجیح بنایا گیا، ویسا ہی جذبہ اپنے ہی شہریوں، یعنی کشمیریوںکے لیے بھی درکار ہے۔ کشمیر اور نئی دہلی کے درمیان پیدا ہوتی خلیج کو ختم کرنے کا واحد راستہ انصاف، احترام، اور مساوی سلوک ہے۔یہ وقت جذبات کو بھڑکانے کا نہیں، بلکہ زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب پورے ملک کو مل کر یہ پیغام دینا ہوگا کہ دہشت گردی ایک مجرمانہ فعل ہے، اور اس کا کسی مخصوص قوم، مذہب یا خطے سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کشمیریوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، تو یہ صرف ان کے خلاف نہیں بلکہ پورے بھارتی تنوع کے خلاف ایک طعنہ ہوگا۔سیاسی راہنماﺅں کو ٹی وی پر آکر نفرت کی بجائے محبت پھیلانے کا پیغام دینا چاہیے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img