ممبئی: ہندی سنیما کے معروف نغمہ نگار اور اداکار گلشن باورا کا اصل نام گلشن کمار مہتا تھا، ان کی پیدائش 12 اپریل 1937 کو غیر منقسم ہندوستان کے شیخوپورہ (اب پاکستان) میں ہوئی۔ان کے والد کا تعمیرات کا کاروبار تھا اور ان کے اس وقت کے خاندان میں مسٹر لابھ چند مہتا، روپ لال مہتا اور چمن لال مہتا کے والد شامل تھے، اتفاق سے ان کے دونوں خاندان تقسیم کے فسادات کا شکار ہوگئے جہاں نوجوان گلشن نے اپنے والد اور اپنے چچیرے بھائی کو لابھ چند مہتا کی حویلی میں اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ان کی بڑی بہن جے پور میں رہتی تھیں لہذا انہوں نے بھائیوں کو جے پور بلا لیا اور ہیں ان کی پروش ہوئی۔ ان کے بھائی کو ملازمت ملنے کے بعد، وہ دہلی چلے گئے، جہاں انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی۔ کالج کے زمانے میں ہی انہوں نے نظمیں لکھنا شروع کر دیں۔
وہ فلموں میں آنا چاہتے تھے اور انہوں نے ریلوے میں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی۔ راجستھان کے کوٹا میں ان کی پوسٹنگ بھی ہوگئی تھی، لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو خالی جگہ بھر چکی ہے۔ خوش قسمتی سے ان کی اگلی کال ممبئی میں کلرک کے عہدے کے لیے آئی اور وہ 1955 میں شہر پہنچے۔
گلشن کو فلموں میں کام حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی، ابتدا میں انھوں نے اپنی ملازمت جاری رکھی۔ کلیان جی (کلیان جی- آنند جی کے)، جو اس وقت کلیان جی ویرجی شاہ کے نام سے جانے جاتے تھے، نے انہیں پہلا گانا فلم چندر سینا (1959) میں’’میں کیا جانو کہاں لگے یہ ساون متوالا رے‘‘ لکھنے کا موقع دیا، جسے لتا منگیشکر گایا تھا۔
کلیان جی آنند جی نے ایک ساتھ کام کرتے ہوئے انہیں مینا کماری اور بلراج سہانی کی اداکاری سے سجی فلم’سٹہ بازار‘میں انہیں کام کرنے کا موقع دیا۔ اس کیلئے انہوں نے ’تمہیں یاد ہوگا، کبھی ہم ملے تھےلکھا جسے لتا منگیشکر اور ہیمنت کمار نے گایا تھا۔ اس کے علاوہ محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہونے والاگانا’آکڑےکا دھندہ‘ اور ہیمنت کمار کی آواز میں ’چاندی کے چند ٹکڑوں کے لیے‘ لکھا تھا جو بہت ہٹ ہوا۔ اس فلم کے ڈسٹری بیوٹر شانتی بھائی پٹیل نے انہیں باورا کا عرفی نام دیا تھا۔ بعد میں پوری فلم انڈسٹری انہیں اسی نام سے پکارنے لگی۔ انہوں ہندی فلم انڈسٹری میں اپنی 49 سالہ خدمات کے دوران تقریباً 250 گانے لکھے۔
انہوں نے کلیان جی آنند جی کی موسیقی کی ہدایت کاری میں 69 گانے لکھے جبکہ آر ڈی برمن کے ساتھ 150 گانے لکھے ۔انہوں نے کھیل کھیل میں (1975)، قسم وعدے (1978) اور سےن پہ سہئ (1982) ،’صنم تیری قسم‘، ’اگر تم نہ ہوتے‘،’یہ وعدہ رہا‘، ’ہاتھ کی صفائی‘ اور ’رفو چکر‘جیسی فلموں کے لیے گانے لکھے۔ انہیں اپکار (1968) میں ’میرے دیش کی دھرتی‘ اور زنجیر (1974) میں ’یاری ہے ایمان میرا‘ جیسے گانوں کے لیے سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے، ان دونوں نغموں نے انھیں فلم فیئر کا بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ دلایا۔ بعد میں وہ 1973 کی بناکا گیت مالا کی سالانہ فہرست میں بھی سرفہرست رہے۔وہ تقریباً 23 فلموں میں معاون اداکار کے طور پر نظر آئے۔
ان کی آخری ہٹ فلم حقیت (1995) تھی ۔ جس کا ’لے پپیاں جھپیاں پالے ہم‘جیسا فحش گیت لکھنے کی وجہ سے وہ واحد تنازع میں آگئے۔ ان کی آخری ریلیز ظلمی (1999) تھی۔ ان کی دیگر فلموں میں قربانی رنگ لائے گی، حقیت، لاٹ صاحب، میدان جنگ، اندراجیت اور چور پہ مور شامل ہیں۔ انہوں سات برسوں تک انڈین پرفارمنگ رائٹس سوسائٹی کے بورڈ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا
گلشن باورا کا طویل علالت کے بعد 7 اگست کو پالی ہل، ممبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر دل کا دورہ پڑنے سے 72 برس کی عمر انتقال ہوا۔ ان کی خواہش کے مطابق ان کی لاش جے جے اسپتال کو عطیہ کی جائے گی۔