پیر, اپریل ۲۱, ۲۰۲۵
9.6 C
Srinagar

عالمی معیشت کا اضطراب…..

بین الاقوامی تجارتی منظرنامے میں اس وقت ایک گہرا انتشار چھایا ہوا ہے۔ امریکہ کی جانب سے چین سمیت ساٹھ ممالک پر نافذ کردہ نئے درآمدی محصولات نے عالمی منڈیوں میں بے یقینی کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ دنیا میں عالمی تجارتی جنگ چھیڑ گئی ہے جسکی لپیٹ میں ایک دو نہیں بلکہ پوری دنیا کے سبھی ممالک اس وقت زد میں ہیں ۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی ٹیرف نافذ کرنا عالمی تجارت پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہے ۔ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں ایشیا کی اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہوچکی ہیں، اور عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو زک پہنچی ہے۔ اس تجارتی کشمکش کے اثرات محض عالمی سطح تک محدود نہیں بلکہ اس کی بازگشت گھریلو معیشتوں، خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے عام شہریوں کے چولہوں تک سنائی دے رہی ہے۔ہندوستان، اگرچہ اپنی داخلی اقتصادی قوت اور پالیسی اصلاحات کی بنیاد پرایشین ڈیولپمنٹ بینک (اے ڈی بی)کے مطابق رواں مالی سال میں 6.7 فیصد شرح نمو حاصل کرنے کی توقع رکھتا ہے، مگر موجودہ عالمی حالات میں یہ اعداد و شمار محض اطمینان کا باعث نہیں ہو سکتے۔ جب رسوئی گیس کی قیمت میں پچاس روپے کا اضافہ ہو، پیٹرولیم مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی جائے اور عام شہری کے کچن کا بجٹ متزلزل ہونے لگے، تو شرح نمو کے اعداد و شمار عوام کے لیے محض ایک دور کی خبر بن جاتے ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ جب عالمی معیشت اضطراب میں ہو، تو اس کا بوجھ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ غریب اور متوسط طبقے پر کیوں پڑتا ہے؟ یہ وہ طبقہ ہے جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور محدود آمدنی کے مسائل سے دوچار ہے۔ رسوئی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ صرف روزمرہ زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ اشیائے خور و نوش کیساتھ کیساتھ روزمرہ زندگی کی چیزوںکی قیمتوں پر بھی دباو¿ ڈالتا ہے، جس سے افراط زر میں کمی کی تمام امیدیں دھندلا جاتی ہیں۔اس موقع پر مرکزی حکومت سے متوقع ہے کہ وہ ایک وسیع البنیاد حکمت عملی اپنائے جو محض اعداد و شمار کے گرد نہ گھومتی ہو، بلکہ عام انسان کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر وضع کی گئی ہو۔ وقتی مالی استحکام کی پالیسیاں اگر مہنگائی کو قابو میں رکھنے، روزگار پیدا کرنے اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو معتدل رکھنے میں ناکام ہوں، تو ایسی ترقی کا فائدہ صرف چند شعبوں یا افراد تک محدود رہتا ہے۔
اگرچہ اے ڈی بی نے اندرونی مانگ، بڑھتی دیہی آمدنی اور صارفین کے اعتماد میں اضافے کو معیشت کی مثبت علامت قرار دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہری متوسط طبقہ اور دیہی غریب اب بھی کئی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں۔ ٹیکس میں مراعات یا مالیاتی پالیسیاں تبھی مو¿ثر ہو سکتی ہیں جب ان کا براہ راست اثر عوامی فلاح وبہبود پر نظر آئے۔یہ وقت ہے کہ ہندوستان اپنی معاشی ترقی کی سمت کو اس انداز میں ترتیب دے، جو عالمی ہنگامہ آرائیوں سے بچاو¿ کی صلاحیت رکھتی ہو۔ زرعی اصلاحات، توانائی کی قیمتوں میں شفافیت، سبسڈی نظام کی بہتری، اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرنے جیسے اقدامات ہی عوام کے اعتماد کو بحال کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر، عالمی بازاروں کی مندی، گھریلو منڈیوں میں بے چینی اور عام آدمی کے چہرے پر مایوسی کا عکس ہمیں آئندہ کے بڑے بحرانوں کی خبر دے رہا ہے۔معاشی ترقی کا پیمانہ صرف جی ڈی پی نہیں، بلکہ ایک ماں کی کچن میں سکون سے جلتی آگ، ایک مزدور کے ہاتھ میں روزگار، اور ایک طالبعلم کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ بھی ہونا چاہیے۔ اور یہی اصل ترقی کا چہرہ ہے، جس کی تلاش آج بھی جاری ہے۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img