دورِ حاضر میں جہاں دنیاوی کامیابیوں کو خوشی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے، وہیں تحقیق اور تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا، عطیات دینا اور رضاکارانہ طور پر نیکی کے کاموں میں حصہ لینا نہ صرف روحانی تسکین کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ یہ ایک پرتعیش زندگی اور بڑی تنخواہ سے بھی زیادہ خوشی اور سکون فراہم کرتا ہے۔حالیہ تحقیق کے مطابق، جو افراد باقاعدگی سے سماجی خدمات میں حصہ لیتے ہیں، عطیات دیتے ہیں یا رضاکارانہ سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں زیادہ اطمینان اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق، دنیا کے خوش ترین ممالک کی فہرست کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان ممالک میں 70 فیصد افراد نے ایک مہینے میں کم از کم ایک بار کسی کی مدد کی، عطیہ دیا یا سماجی بھلائی کے کسی کام میں حصہ لیا۔
ماہرین نے پایا کہ جو لوگ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ دوسروں کے لیے وقف کرتے ہیں، وہ خود غرضی کے بجائے ایثار کو ترجیح دیتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں زیادہ ذہنی سکون اور خوشی حاصل کرتے ہیں۔ اس تجربے کے تحت ایک گروپ کو رقم دی گئی اور انہیں اختیار دیا گیا کہ وہ اسے اپنی ضرورت پر خرچ کریں یا کسی اور کو دے دیں۔ بعد ازاں کیے گئے تجزیے سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اپنی رقم کسی ضرورت مند کو دی، انہوں نے زیادہ خوشی اور سکون محسوس کیا۔یہ تحقیق محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی شواہد پر مبنی ہے۔ اقوام متحدہ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ سماجی فلاح و بہبود کے کاموں میں شرکت کرنے والے افراد ذہنی دباو اور پریشانی سے کم متاثر ہوتے ہیں اور ان میں مثبت طرزِ زندگی اپنانے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔دوسری جانب، کارپوریٹ دنیا میں بڑے عہدوں پر فائز اور زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے افراد اکثر دباو، بے چینی اور عدم اطمینان کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی کا محور زیادہ سے زیادہ مادی وسائل کا حصول ہوتا ہے، لیکن ان کی اندرونی خوشی اور اطمینان ان افراد کے مقابلے میں کم ہوتا ہے جو سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔دینِ اسلام بھی اسی جذبے کی ترغیب دیتا ہے۔
زکٰوة، صدقات، خیرات اور مستحقین کی مدد کو دینِ اسلام نے نہ صرف ایک نیکی قرار دیا ہے بلکہ اسے فرد اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری بھی ٹھہرایا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر صدقہ و خیرات کی تلقین کی گئی ہے اور پیغمبر اسلام حضرت نبی کریم ﷺ نے بھی ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنے پر زور دیا ہے۔یہ تحقیق ہمیں ایک بہت بڑا سبق دیتی ہے کہ خوشی کا دار و مدار صرف مادی وسائل پر نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت میں پوشیدہ ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں دوسروں کی مدد کو شامل کر لیں، اپنی آمدنی کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کے لیے مختص کریں اور وقتاً فوقتاً کسی کی مدد کے لیے آگے بڑھیں، تو ہم نہ صرف دوسروں کے لیے راحت کا سامان بن سکتے ہیں بلکہ اپنی روحانی اور ذہنی صحت میں بھی نمایاں بہتری لا سکتے ہیں۔لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی میں دوسروں کی مدد کو ترجیح دیں اور اپنے وسائل میں سے کچھ حصہ ان لوگوں کے لیے وقف کریں جو واقعی اس کے مستحق ہیں۔ یہ نہ صرف ایک سماجی فریضہ ہے بلکہ ہماری اپنی خوشحالی اور ذہنی سکون کے لیے بھی ایک موثر نسخہ ہے۔
