جمعہ, مئی ۱۶, ۲۰۲۵
17 C
Srinagar

جموں کشمیر: ہیلتھ سیکٹر میں بہتری؟

ملک کے دیگر حصوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی ہیلتھ سیکٹر روز بروز بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی آ رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں نئے ہیلتھ سینٹر قائم کیے جا رہے ہیں اور حاملہ خواتین کو مفت ادویات کے ساتھ ساتھ مالی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ جموں و کشمیر کے ہر ضلع اور تحصیل سطح پر اسپتال تعمیر کیے جا رہے ہیں جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بیماروں کا علاج و معالجہ کیا جا رہا ہے۔ ایک بات یہاں کہنا بے حد لازمی ہے کہ جموں و کشمیر میں میڈیکل اسٹاف کی بہت زیادہ کمی دیکھنے کو مل رہی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں میڈیکل اسٹاف کی کمی کے باعث لوگ مشکلات سے دوچار ہو رہے ہیں اور وہ مقامی ہیلتھ سینٹروں کو چھوڑ کر ضلع اسپتالوں یا شہر کے بڑے اسپتالوں کی جانب رخ کرتے ہیں جہاں پہلے سے ہی بہت زیادہ بھیڑ بیماروں کی لگی رہتی ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دیہی علاقوں میں موجود ان چھوٹے اسپتالوں میں اتنی زیادہ سہولیات میسر نہیں ہیں جتنی درکار ہیں۔
جہاں تک بڑے اور مرکزی اسپتالوں کا تعلق ہے، ان میں بھی اتنی سہولیات مریضوں کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ اگر ہم وادی کے سب سے بڑے اسپتال، صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کی بات کریں تو وہاں تحقیقی اور تشخیصی مراکز یا لیبارٹریوں کی کمی نظر آ رہی ہے۔ سی ٹی اسکین کے لیے ایک مریض کو ہفتوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس دوران کچھ بیماروں کی حالت نہ صرف ابتر ہو جاتی ہے بلکہ کچھ لوگ بغیر علاج کے ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے مہلک امراض میں مبتلا اکثر لوگ جموں و کشمیر سے باہر علاج کے لیے یہ کہہ کر جاتے ہیں کہ یہاں ڈاکٹر لاپرواہی سے کام لے رہے ہیں۔ گزشتہ ایام کے دوران اس طرح کی کئی خبریں میڈیا میں آ چکی ہیں کہ مریض کی ٹانگ کے بدلے زبان کاٹ دی گئی اور ایک مریضہ کا غلط آپریشن کر کے اس کا ’یوٹرس‘ نکال دیا گیا تھا۔
غرض یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ سنجیدگی سے کام نہیں کرتے جبکہ انہیں اچھی خاصی تنخواہ ملتی ہے۔ جہاں سرکار نے شعبہ صحت کو بہتر بنانے کے لیے بہت کچھ کیا ہے، وہاں بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔ دیہی علاقوں میں تعمیر کیے گئے چھوٹے اسپتالوں میں علاج و معالجہ کی وہ تمام سہولیات دستیاب رکھی جائیں جو بہتر علاج کے لیے درکار ہوتی ہیں، ایکسرے مشینیں اور ای سی جی سینٹر نصب کیے جائیں اور دن رات ڈاکٹروں اور طبی عملے کی تعیناتی یقینی بنائی جائے تاکہ دیہی علاقوں کے یہ لوگ شہروں یا قصبوں میں موجود بڑے اسپتالوں میں آنے کے لیے مجبور نہ ہوں، جہاں پہلے سے ہی مریضوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ بڑے اور مرکزی اسپتالوں کا جہاں تک تعلق ہے، وہاں بھی جدید قسم کی تحقیقی اور تشخیصی مشینیں زیادہ سے زیادہ دستیاب رکھی جائیں تاکہ مریضوں کو ٹیسٹ کرانے کے لیے ہفتوں کا انتظار نہ کرنا پڑے اور نہ ہی وہ جموں و کشمیر سے باہر کے اسپتالوں میں جانے کے لیے مجبور ہوں۔ یہاں یہ خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ جموں و کشمیر میں چل رہے پرائیویٹ اسپتالوں پر بھی نظر رکھی جائے جہاں بیماروں کو مختلف بہانوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ تب جا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح جموں و کشمیر کے ہیلتھ سیکٹر نے ترقی کی ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img