بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

عوامی بجٹ، ملی جلی رائے۔۔۔۔

جموں کشمیر (یوٹی)کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنا پہلا سالانہ بجٹ ایوان اسمبلی میں پیش کیا۔ اس بجٹ کو جہاں اپوزیشن جماعتوں نے جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ دھوکہ قرار دیا، وہیں عوامی حلقوں میں ایک طبقے نے اس بجٹ کی زبردست تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ عوام دوست ہے۔ کل ملا کر اس بجٹ پر ملا جلا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا جہاں تک تعلق ہے، ا±ن کا ماننا ہے کہ اس بجٹ سے جموں کشمیر کے لوگوں کو کوئی خاص راحت نہیں مل سکتی ہے، تاہم غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں اور عورتوں کے لئے اس بجٹ میں رقومات مختص رکھنے سے انہیں فائدہ اور راحت ملے گی۔ اس بجٹ میں عورتوں کو سرکاری بسوں میں مفت سفر کرنے، عمر رسیدہ بزرگوں کی ماہانہ امداد میں 500 روپے کا اضافہ اور غریب لڑکیوں کی شادی کے لئے دی جا رہی امدادی رقم میں 25 ہزار روپے کا اضافہ ایک بہتر قدم نظر آ رہا ہے کیونکہ جموں کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں غربت و افلاس کی وجہ سے لڑکیاں شادی کی عمر پار کرنے کے قریب ہیں، جنہیں اس اقدام سے براہ راست فائدہ مل جائے گا۔
جہاں تک سطح افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کو200 یونٹ مفت بجلی اور 10 کلو مفت چاول فراہم کرنے کا تعلق ہے، یہ ا±ن لوگوں کے لئے سراسر ناانصافی ہے جو محنت مزدوری کر کے مشکل سے اپنا گھر چلانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو پورے جموں کشمیر میں اس زمرے میں آنے والے افراد کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔ جہاں تک راشن اور بجلی کا تعلق ہے، یہ سب لوگوں کی ضرورت ہے اور خود وزیر اعلیٰ نے انتخابات کے دوران اعلان کیا تھا کہ ہم جموں کشمیر کے عوام کو200 یونٹ مفت بجلی اور راشن کی مقدار میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ رسوئی گیس کے سلنڈروں میں بھی اضافہ کریں گے، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ جموں کشمیر میں اے پی ایل زمرے میں جو لوگ آتے ہیں، ا±ن کی آمدنی اتنی نہیں ہو رہی ہے جتنا ا±ن کا ماہانہ خرچ ہے۔ بچوں کی اسکول فیس، بجلی فیس، پانی کا بل اور کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ درمیانے درجے کا انسان بھی یہ بوجھ برداشت کرنے سے قاصر نظر آ رہا ہے۔مڈل کلاس یعنی متوسطہ گھرانوں کا اللہ ہی حافظ ہے ۔پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کے روزگار کے حوالے سے موجودہ بجٹ میں کوئی خاص چیز دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ جہاں تک جموں کشمیر کے مختلف سرکاری محکموں میں کام کر رہے ڈیلی ویجروں کا تعلق ہے، ا±ن کی مستقل نوکری یا روزانہ اجرت کے حوالے سے بھی کوئی بات مدنظر نہیں رکھی گئی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں درمیانے درجے کا انسان بھی روزانہ اخراجات برداشت کرنے سے قاصر نظر آ رہا ہے۔ا±ن کی آمدنی میں اضافہ کس طرح ہوگا، کس طرح اور کہاں سے وہ زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں، اس کے لئے بھی موجودہ بجٹ میں کوئی خاص بات دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔
ان حالات میں عمر عبداللہ کی حکومت اپنے عوام کو کس طرح اپنے ساتھ جوڑ کر رکھ سکتی ہے، خاص طور پر ا±ن پارٹی ورکروں کو جنہوں نے یہ سوچ کر انہیں بھرپور انداز میں ووٹ دیا تھا کہ آنے والے وقت میں عمر عبداللہ کی حکومت ہی ا±ن کے لئے نجات دہندہ بن جائے گی۔ جموں کشمیر کے عوام کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ ا±ن کی قیادت میں موجودہ حکومت نہ صرف سیاسی اعتبار سے انہیں اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلا سکتی ہے بلکہ وہ انہیں معاشی و اقتصادی سطح پر بھی مضبوط بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔اس بجٹ میں موجود کمزوریاں نیشنل کانفرنس کو آنے والے پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات میں کس طرح بھاری پڑ جائیں گی، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن ایک بات صاف اور واضح ہے کہ بجٹ سے جموں کشمیر کا عام انسان ہرگز خوش نہیں ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img