ہفتہ, دسمبر ۱۳, ۲۰۲۵
10 C
Srinagar

یا د اسلاف:روحانی پیشوا حضرت شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی صلاح و فلاح کیلئے کسی ایسی صالح و برگزیدہ ہستی کا ظہور فرما دیتا ہے ۔ جن سے رشد و ہدایت کی شمع فروزاں ہو جاتی ہے۔ جس کی نورانی کرنیں دور دور تک پھیل جاتی ہیں اور مستنِیر اور لمعات رسالت سے منور کر دیتا ہے۔ برصغیر میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا سہرا صوفیائے کاملین کے سر جاتا ہے کیونکہ انہوں نے مصائب و آلام کو نہایت صبر سے برداشت کیا اور پیغام حق عام لوگوں تک پہنچا کر ان کو کفرو ضالت کی زندگی سے نکال کرایمان کی نعمت سے مالا مال کیا۔ان صوفیائے کرام نے اپنے علم و عمل سے تاریخ اسلام میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔جب ہم باغ سلیمان یعنی کشمیر کی بات کریں تو حضرت عبدالرحمن بلبل صاحبؒ نے یہاں اسلام کی اشاعت کی مہم شروع کی اور حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ نے اس باغ سیلمان کشمیر کو نور اسلام سے مہکایا۔ یہ حکم الہی تھا کہ اس باغ سلیمان کشمیر کو نور توحید اور سنت رسول ﷺسے بھر نے کےلئے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی عابد، زاہد، عالم، فاضل، محدث، مفسر، مفکر سیدالسّادات، سالار عجم،حضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کا انتخاب کیا ۔اس مرد عابدنے اپنی عملی زندگی اور افعال و کردار سے انسانیت کی بجھی ہوئی شمع روشن کرکے ان کے دلوں کو نورایمان اور عشق رسول ﷺسے منور کر دیا۔ حضرت شاہ ہمدان ؒ نے باغ سلیمان کشمیرکی زمین پر ایسے ثمردار باغ لگائے جن سے روزے آخر تک یہاں کے لوگ مستفید ہوتے رہیں گے۔ آج بھی وادی کشمیر میںحضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کا اسم مبارک سورج کی طرح چمکتا ہے اور چمکتارہے گاانشا اللہ
اسی مرد حق حضرت شاہ ہمدان ؒ کے ہمراہ سادات کا ایک عظیم کاروان تھا ۔ اسی کاروان حق میں میر شمس الدین شامیؒ بھی شامل تھے جنہوں نے یہاں پر مستقل سکونت اختیار کرکے شاہ ہمدان ؒ کے نقش قدم پر دینی خدمات بخوبی احسن انجام دیتے رہے اور اپنی پوری زندگی رشد و ہدایت میں بسر کی ہے۔آپؒ کی ذرِیت میں سے وادی کے مشہور معروف عا بد، زاہد، ولی کامل حضرت میر سید شاہ قاسم حقانی ؒ ہے،اور لطالف الحقانی کے مطابق میرشمس ؒ کاشجرہ نسب حضرت علی مرتضیؓ سے ملتا ہے۔ یہ خاندان آج بھی ودای کشمیر میں خاندان حقانیہ سے مشہور معروف ہے ۔ اور سویہ بگ بڈگام میں سکونت پزیر ہے۔


حضرت میر سید شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق تاریخ واقعات کشمیر اور تاریخ حسن رقم طراز ہیں کہ حضرت میر سید شاہ قاسم حقانی ؒ میر شمس الدین شامی کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ کے ہمراہ کشمیر آئے اور یہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ شاہ ممدوح کو ملا قاسم کہا جاتا تھا۔ حاجی کے لفظ سے بھی مشہور تھے جب حضرت ایشاں ؒکے ایمان پر ‘ عین انکار اور ارادہ احتساب میں جذبہ سے سرشار ہوئے اور میر محمد خلیفہ کی خدمت میں پہنچے تو شاہ کے لفظ سے مخاطب ہوئے۔ مجاہدات میں اپنے ہم عصروں سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ علم وہنر دونوں میں عجیب مہارت رکھتے تھے ۔نیک کام کرنے اور بُرے کاموں کو چھوڑنے کےلئے بڑی کوشش کرتے تھے ۔اس زمانے میں میر محمد خلیفہ ؒ سماع اور وجد میں سرمست رہتے تھے۔شاہ صاحب ؒ ان سے اس بارے میں پوچھ تاچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کے مریدوں میں سے ایک ایک کو سو سو درئے ماروں گا۔ انہی ایام میں حضرت شیخ یعقوب صرفی ؒ اکبر آباد میں تھے ۔ خلیفہ کو وہاں ہی سے لکھا کہ ملا قاسم ؒ آپؒ سے باز پرسی کا ارادہ رکھتے ہیں۔انثاءاللہ قید میں ایسا پھنس جائے گا کہ دوسروں کو عبرت ہوگی۔ایک دن میر محمد خلیفہؒ نے پانپور میں محفل سماع منعقد کی تھی۔ملاقاسم ؒ غصے میں مجلس میں گئے۔جونہی خلیفہ کے چہرے پر نظر پڑی، تھرتھر کا پننے لگا۔ خلیفہ نے شیخ یوسف شوقی کو اشارہ کیا کہ شکار کا وقت ہے ، یوسف نے شعر پرنم کے ساتھ پڑھنا شروع کیا: ۔ خنجر کشیدہ برسر قتلم شتاب چیست۔ خود کشتہ میشو یم وترا اضطراب چیست۔ ترجمہ۔ (میرے قتل کےلئے خنجر نکالنے میں جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم خود ہی قتل ہوجائیں گے ۔تجھے کس بات کی بے چینی ہے؟۔) ملا قاسم وجد میں آکر بے ہوش ہوکر گرے جب ظہر کی نماز کا وقت نزدیک آیا ۔شیخ یوسف نے یہ بیت پڑھنی شروع کی: اے گرفتار وصالش تابہ کے گردی بروں۔ اندر آتا گو یمت اسرار راز دروں۔ترجمہ( اس کا وصل چاہنے والے کب تک باہر پھرتے رہوگے ۔اندر چلے آﺅ تاکہ تمہیں چھپے ہوئے بھیدوں سے واقف کردیا جائے) مزید لکھتے ہیں کہ حضرت شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ حج کو روانہ ہوئے ۔راستہ میں بڑے اولیا ءاللہ سے ملے ۔صوبہ اُجین میں شیخ فیض اللہ قادری ؒ نے ان کے مجاہدہ کو دیکھا۔ان کو سلسلہ قادریہ کی اجازت عطا کی ،اور حضرت غوث الاعظم ؒ کا ایک جامہ مبارک ، حضرت شاہ ہمدان ؒ کاایک خرقہ اور تسبیح تبرک کے طور پر ان کو بخش دی ۔حضرت خواجہ جمال الدین المعروف خواجہ دیوان ؒ سے ملے تو انہوں نے سلسلہ نقشبندیہ کی اجازت دی اور حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبندؒ کا کمربند اور رومال عطا فرمایااور حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ سے ملاقات ہوئی انہوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی پگڑی تبرک کے طور پر بخش دی ۔یہ اس خاندان کے پاس آج بھی موجودہیں ۔پھر ان عنایات کے حصول کے بعد حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ کشمیر واپس آکر راہ حق میں مصروف ہوگئے۔ سینکڑوں بندگان خدا کو تعلیم و تلقین فرمائی ،اور درجہ شہود پر پہنچادیا۔
تصوف اور صوفیائے کرام کے معتلق صرف لکھنا اور بو لنا کافی نہیں ہے ۔ تصوف دراصل مراد ایسے لوگوں کی وہ جماعت جو کسی مرشدِ کامل کی نگرانی میں اپنے نفوس اور اپنے قلوب کا تصفیہ کر کے رشد وہدایت کے ایسے اعلیٰ مقام و منصب پر فائز ہو کر دوسروں کے قلوب و اذہان کو اپنے روحانی و باطنی کمالات سے منور کرکے بندگان ِ خدا کاتعلق اپنے مالک حقیقی سے جوڑ کر بہتر اور مضبوط بناسکے۔ صوفیاے کرام کی جماعت ہر دور میں موجودہوتی ہے اوروہ ہمیشہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ حق پر گامزن کرتی ہے۔
اللہ تعالی سورة نور میں فرماتاہے ۔ اللہ نور السماوت والارض مثل نورہ کمشکاة فیمھا مِصبَاح ۔الخ ۔اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا۔اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے وہ چراغ ایک فانوس میںہے وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا روشن ہوتاہے۔ ”کنزالایمان“ حدیث میں بھی آیا ہے ،کہ ایک دن جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میںحاضر ہوئے اور کچھ سوالات کیے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ:”احسان کیا ہے ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: ”احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالی کی اس طرح عبادت کرے گویا تو اسے دیکھ رہاہے ،اگرتو اسے نہیں دیکھ رہاہو تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ©“
تصوف اسلام سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ تصوف قرآن وحدیث ہی ہے،اور تصوف اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کانام ہے ، ایمان وعقائد کی درستی اور اصلاح قلب کا نام تصوف ہے، شریعت کی پابندی کے ساتھ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کا نام تصوف ہے، شرعی احکام جن کا تعلق آدمی کے ظاہری اعمال سے ہے اور اخلاقی تعلیمات کے ساتھ ساتھ خود کا باطن کو درست کرنا ہے ان دونوں کے مجموعہ کا نام تصوف ہے۔شریعت و طریقت کا نام تصوف ہے اور جو دین اسلام کی صحیح دعوت لوگوں تک پہنچا ئے اور عوام الناس کو راہ حق پر لاکر اللہ تعالی کی بندگی اور سنت رسول ﷺ کا کام انجام دیتے ہیں اُنہیں لوگوں کو صوفیائے کرام کہاجاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں صوفیائے کرام کا جو پہلا طبقہ وجود میں آیا،اس کے سرخیل حضرت حسن بصری ؓ ہیں اور حضرت ابراہیم بن ادھم ؓاورحضرت فضیل بن عیاض ؓ خاص طور پر قابل ذکرہیں۔ اگرچہ یہ بزرگ زیادہ وقت یادالٰہی ، استغفاراور مخلوق خدا کا روحانی رشتہ ان کے خالق ومالک کے ساتھ جوڑنے میں صرف کرتے اورجب بھی موقعہ ملتاتو حاکم وقت کو انکی غلطیوں پر ٹوکتے تھے۔پھر دوسرا طبقہ حضرت بایزید بسطامیؒ، حضرت جنیدبغدادیؒ اور حضرت شیخ فریدالدین عطارؒ ہے۔ اس طرح دسویں صدی عیسوی میں تصوف نے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور گیارہویں صدی عیسوی میں حضرت داتاگنج بخشؒ اور دیگر صوفیائے کرام نے تصوف کو موضوع بناکر گراں قدر کتابیں تصنیف کیں ۔سیدنا حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے بعد میں رشدوہدایت کا سلسلہ جاری رکھااوراس طرح باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور علم تصوف میں بے مثل اضافہ کیا ۔صوفیاءکرام دین کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
اسی طرح اس باغ سلیمان کشمیر میں بھی ان گنت صوفیائے کرام ،علماءدین ،مفکراسلام ،بے انتہامقبول اور ہردلعزیز واعظ جہنوں نے عوام وخاص کو صوم وصلوٰة کا پابند اور سنت نبوی ﷺ کا پیروکاربنایا،اور انہی بزرگوں میںسے ایک مشہور و معروف برگزیدہ شخصیت حضرت میر سید شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام اور سنت نبوی ﷺ کی خدمت میںگزاری۔
حضرت حقانیؒ کی ایک کرامت آج بھی نرِ کی شکل میں موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ علاولدین پورہ کو عرفہ عام میں”نرپرستان ” کہاجاتاہے، در اصل یہ نرِ پیر آستان ہے جو آستہ آستہ نرپرستان کہلانے لگا۔
عقیدت مندآج یہاں پر سکون قلب حاصل کرتے ہیں۔
حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ کی تحریروں کے بارے میں کوئی تحریری شہادت نہیں ہے۔ لیکن معتبر ذرایع کے مطابق کسی شخض کے پاس حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ کا دیوان موجود تھا لیکن بعد میں ا ±س دیوان کا کیا ہوا کچھ معلوم نہیں ۔تاہم حضرت شاہ قاسم حقانیؒ کی ایک غزل کچھ کتابوں (بشمول ارمغان حقانی) میں درج ہے۔ حضرت میر سید شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ کے توصیف و تعریف میں شیخ اسلام حضرت مرزا اکمل الدین بیگ خان بدخشی ؒ نے اپنی شاہکار بحرا لعرفان میں ان کے مناقب میں کئے اور اق زرین حروف سے مزین کئے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاہکار مشنوی ”بحرالعرفان“ میں ان کے توصیف جس پیرائے میں بیان کیے ہیں شائد ہی کوئی اور پیش کر سکتا ہے یہ اقتباس مع ترجمعہ پیش خدمت ہے۔
مرشد دین شاہِ حقانی۔آن کہ تو شاہِ قاسمش خوانی
شیخ الاسلام عہد خود او بود۔بردرش اہل شہر را رو بود
نورش آفاق را منّور داشت۔ظلمت و کفر عہد خود برداشت
در شب وروز از ہمہ اطوار۔بود مست تجلی انوار
(ترجمہ) حضرت شاہِ حقانیؒ رہبر دین ہیں جن کو آپ حضرت شاہِ قاسم حقانیؒ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ اپنے زمانے کے شیخ الاسلام یعنی دین اسلام کے سب سے عظیم عالم تھے اور ان کے ہاں شہر کے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ان کے نور سے زمانہ منور تھا ا ±س کے زمانے میں کفر اوراندھیرا ختم ہوگیا۔ رات دن ہر طور سے وہ انوار کی تجلیٰ میں مست رہتے تھے ۔
پیر طریقت حضرت حضرت شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ عظیم صوفی بزرگ اور روحانی شخصیت اور علم و عمل کے پیکر سچے عاشق رسول ﷺ تھے ۔ حضرت جنید بغدادی ؒ کا بڑے واضح الفاظ میں اعلان ہے کہ اس راہ کو وہی پاسکتا ہے جو کتاب اللہ کو داہنے ہاتھ میں اور سنت رسول کو بائیں ہاتھ میں لیے ہوئے اور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہِ سلوک طے کرے تاکہ گمراہی اور بدعت کی تاریکی میں نہ گرے۔یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ سے نفس کے تزکیہ ،اخلاق کی صفائی اور باطن وظاہر کی تعمیر (کے اسباب وطرائق) کی معرفت حاصل ہوتی ہے تاکہ ہمیشہ کی سعادت حاصل ہو۔نیز اس سے نفس کی اصلاح ،معرفت ورضائے خداوندی کاحصول ہوتاہے۔اس تعریف سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ تصوف ایک مقدس علم ہے جوسالک کو قرب الی اللہ جیسی عظیم نعمت سے نوازتاہے۔ بقول دمسازؒ
کیہنہ ولہ صاحبو چانے مائے ۔ کینہہ ددلولچہ تاوے منز۔
کیہنہ چھ شب روز ژھاران گاران۔ نئے چھُکھ آرام صبرس منز۔
نیکی ہنُد بیول وولولہَ کسِ باغَس۔ ناگسَ آن نیرِ نیتَن منز۔یل وَوکھ ۔
یی وَوکھ تی بووی ہا دمسازِو ۔۔سمع البصیر چھےُ عملَن منز“ تصوف یا سلوک در اصل بندہ کے دل میں یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے،اورنہ تصوف کوئی الگ چیز نہیںہے بلکہ یہ مذہب کی روح ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش ہے، اسی طرح اللہ کی عبادت بغیر اخلاص کے بے قدر وقیمت ہے۔تصوف بندہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی محبت پیدا کرتا ہے اور یہی محبت رب بندہ کو مجبور کرتاہے ،کہ وہ عیال رب کے ساتھ محبت کرے،کیونکہ صوفی کی نظر میں مخلوق اللہ تعالیٰ کا عیال ہے اور کسی کے عیال کے ساتھ بھلائی عیالدار کے ساتھ بھلائی شمار کی جاتی ہے ،اور یہی تصوف ہے۔
علامہ ابن خلدون تصوف کی وضاحت کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔”تصوف کا معنیٰ عبادت میں ہمیشہ پابندی کرنا، اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ تن متوجہ رہنا، دنیا کی زیب و زینت کی طرف سے روگردانی کرنا، لذت مال و جاہ جس کی طرف عام لوگ متوجہ ہیں اس سے کنارہ کش ہونا ، یہ طریقہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں مروج تھا۔“
اگر چہ تصوف کا پہلا دور عہد نبوی اور صحابہ وتابعین کا دور ہے ، اس عہد میں تصوف بہ کمال وتمام موجود تھا مگر اسے تصوف نہیں کہاجاتا تھا ۔بلکہ اسے زہد و تقویٰ اور احسان کے نام سے تعبیر کیاجاتاتھا۔ اور تصوف کی چارمنزلیں ہیں ، شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، جس کا مفہوم یہ ہے کہ شریعت ایک راستہ ہے ، راستے پر چلنے کا نام طریقت ہے اور اس راستے پر چل کر جس منزل مقصود تک رسائی حاصل ہوتی ہے اس کا نام حقیقت ہے اور منزل مقصود پر جو اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں ان کا نام معرفت ہے، اورشریعت و طریقت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے راستے کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ، ظاہر شریعت و طریقت اور باطن حقیقت ومعرفت ہے۔
دورحاضر میں تصوف کا دور زوال ہے ، تصوف کے نام پر بہت سارے خرافات انجام دیے جارہے ہیں اور بہت ساری خرابیاں اس کے اندر داخل ہو چکی ہیں،اورتصوف کو حصول دنیا کا ذریعہ بنالیاگیا ، پیری مریدی کے نام پر تصوف کو ذریعہ معاش سمجھا جانے لگا،اور وہ خانقاہیں جہاں تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب ہوا کرتا تھا،وہاں پر فقیروں کی بھیس میں بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ کیاجانے لگا۔ اور آج ان آستانوں پر میلوں ،ٹھیلوں ،چادروںکا مرکز تصور کیاجانے لگا، یہ تصوف کا سب سے بدترین دور ہے، اور تصوف کو جہالت، لادینیت، مخالف شریعت، اتحاد مذاہب اور رقص و سرور کے مفہوم میں متعارف کرایاجارہا ہے جو کہ اسلامی نقطہ نظر کے سراسر مخالف ہے ، اس لیے آج ضرورت ہے کہ احیاے تصوف کواصلی رنگ جو کتاب وسنت کی روشنی میں ہے اس کو لوگوں کے سامنے پیش کیاجائے تاکہ تصوف کے تعلق سے جو بھی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن ودماغ میں پیدا ہوچکی ہیں ان سب کا ازالہ ہو او ر حقیقی تصوف متعارف ہو سکے۔یہی گذراش علمائے کرام و مشائح عظام سے ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کودین و دنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے،آمین
اس دُنیا میں کس کو ہمیشہ رہنا ہے اور اس طرح یہ آسمان تصوف کے درخشدہ آفتاب ،اسلام کے جان نثار مبلغ اور اعلیٰ رتبے کے رہنما،شریت کے علمبردار طریقت ومعرفت کے رہبر ،مجلس روحانی کے سردار حضرت شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ 29ماہ رجب 958 ہجری مطابق 1551 عیسوی کو تولدہوئے اور 75برس عمر پاکر 29ربیع الثانی 1033 ہجری کشمیری 29پھاگن کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔
بعد میں آپؒ کے جسدخاکی کونرپرستان فتح کدل سری نگر میں سپرد خاک کیا گیا۔ جہاں ان کا آستانہ عالیہ موجود ہے ۔جو آج تک اپنے زندہ جاوید کردار سے راہ حق کی سمت رہبری کرتا رہا اور آئند بھی کرتا رہے گا۔انشاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مقدس بندہ اور راہ حق کے عظیم مجاہد ؒ کے فیوض حیات بخش کو تاقیام قیامت جاری رکھا۔
یہاں پر حضرت علمدار کشمیر شیخ العالمؒ کے اشعار پر اختتام کرتا ہوں۔ ترجمہ ۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیارکر ے ، اور اُن سے محبت رکھ لے۔یہ وہی لوگ ہیں جو ہر وقت قبلہ روہوتے ہیں ،یعنی ہرقدم خدائے کعبہ کے حکم کے تحت اُٹھاتے ہیں ۔ نیک لوگوں کی صحبت دِل کو نورانی اور بُروں کی صحبت دِل کو سیاہ بناتی ہے۔ا سی عقیدت کے ساتھ یہ دعاکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس مقدس بندہ اور راہ حق کے عظیم مجاہدکے فیوض حیات بخش کو تاقیام قیامت جاری رکھے اوروادی کشمیر کے تمام لوگوں کو پریشانیوںاور مصیبتوں سے نجات فرمائے ۔ آمین
طالب دعا : ۔ ابو نعمان محمداشرف بن سلام ۔ اوم پورہ بڈگام

Popular Categories

spot_imgspot_img