بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
12.9 C
Srinagar

نیم ملا خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان

وادی کشمیر صوفیوں، ولیوں، ریشیوں اور منیوں کی سرزمین سمجھی جاتی ہے۔ یہاں کے ہر علاقے میں مختلف بزرگوں، صوفیوں، ریشیوں اور منیوں کے آستانے اور خانقاہیں موجود ہیں۔ وادی کشمیر کی صدیوں پرانی تاریخیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہاں انہی بزرگوں کی بدولت مذہبی رواداری، آپسی بھائی چارہ، اخوت اور مساوات کی تعلیمات عام ہوئیں۔ بدقسمتی سے چند برسوں کے نامساعد حالات نے ان تعلیمات کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ نوجوانوں کو جان بوجھ کر ان تعلیمات سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ اپنا مشن آگے بڑھا سکیں اور بغیر محنت و مشقت کے اپنی روزی روٹی کما سکیں۔جس وادی میں ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے سے بہتر اور افضل مان کر ایک دوسرے کی عزت و احترام کرتا تھا، وہاں باوجود مختلف مذہبوں اور مسلکوں کے، ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کیا جاتا تھا اور سب مل جل کر رہتے تھے۔ لیکن اب وادی میں درجنوں سیاسی و مذہبی تنظیمیں موجود ہیں، ہر ایک کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دین کی خدمت کر رہی ہے، لیکن حقیقت میں پوری برادری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اب وادی میں نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی تعلیمات سے بالکل بھی آگاہ نہیں کیا جا رہا۔ ان تعلیمات کے ذریعے جو طرزِ زندگی لوگوں کو خوشحال بنانے کے لئے دی گئی تھی، اس کا اب کوئی سراغ نہیں ملتا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں درجنوں دینی تنظیمیں اور فیس بک کے ذریعے ’ملا‘ بھی سامنے آئے ہیں، جنہوں نے معاشرے کی اصلاح کے بہانے صرف اپنی تجوریاں بھری ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کو سدھارنے کی بجائے اس میں مزید بگاڑ پیدا ہوا ہے۔جہاں تک صوفیوں کا تعلق ہے، انہوں نے ہمیشہ برادری، اخوت، مساوات اور ہمدردی کا درس دیا ہے۔ انہوں نے بغیر کسی رنگ و نسل اور ذات پات کے ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھایا تھا۔ آج کے دور میں جو لوگ درس و تدریس کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ دراصل صوفیوں کی اصل تعلیمات سے ناواقف ہیں، ورنہ آج جو حالات ہیں وہ کبھی نہ ہوتے۔
جہاں تک سرکاری اداروں اور حکمرانوں کا تعلق ہے، وہ ایسے لوگوں کو مفت میں ہر قسم کی سپورٹ فراہم کرتے ہیں جو معاشرے کی بہتری کی بجائے اس میں تباہی پھیلاتے ہیں۔ بزرگوں کا قول ہے کہ’نیم ملا خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان ہوتا ہے۔‘ اصل میں جن لوگوں نے وادی میں صوفیت کا لباس اوڑھا ہے، ان کو صوفیت کا الف بے بھی معلوم نہیں۔کوئی بھی تبدیلی ملک و معاشرے میں تب تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک دعوت دینے والا خود ان تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو۔ اگر ہم معاشرے کو صوفیت کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں صوفیت کی تعلیمات سیکھ کر ان پر عمل کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو معاشرے میں ایک نمونہ کے طور پر پیش کرنا چاہیے، جو کہ فی الحال مفقود نظر آ رہا ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img