
فاضل شفیع بٹ
اکنگام، انت ناگ
موبائیل نمبر: 9971444589
"کچھ دنوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ متواتر ڈاک خانے کے چکر لگا رہے ہیں۔ کیا کوئی نیا کاروبار شروع کیا ہے؟” پوسٹ ماسٹر مجھ سے مخاطب تھا۔
"نہیں صاحب۔۔۔ دراصل حال ہی میں میرا افسانوی مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔ اب اپنے دوستوں کو اپنی تخلیق بطور تحفہ ارسال کر رہا ہوں۔ اس لیے چند دنوں سے ادھر آنا جانا ہے۔۔۔” میں نے قدرے اطمینان کے ساتھ جواب دیا۔
” اُوہ۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔۔۔!! تو آپ ایک قلم کار ہیں۔ ویسے آج کل کتابیں پڑھتا ہی کون ہے۔ کتاب وہ ہے جو پڑھی جائے ورنہ ردّی کاغذ سمجھو۔۔۔ "
پوسٹ ماسٹر مجھ سے طنزیہ لہجے میں مخاطب تھا ۔
میں نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال کر پوسٹ ماسٹر کے ہاتھ میں تھما دی اور کہا۔۔۔
"جناب یہ آپ بطور تحفہ رکھ لیجئے۔ انشاءاللہ آپ کو کتاب پسند آئے گی”
پوسٹ ماسٹر تقریباً پچاس برس کا اچھے خدوخال کا آدمی تھا جس کے چہرے پر سفید لمبی داڑھی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ادب کا شیدائی ہوگا۔
پوسٹ ماسٹر نے کتاب کا سرسری جائزہ لیا۔کتاب کو باہر سے ہی دیکھنے کے بعد اس نے کتاب واپس لوٹا دی اور کہا:
” ارے یہ تو افسانوی مجموعہ ہے۔ آج کے دور میں اس کتاب کا مطالعہ کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ میں بھی کسی زمانے میں شاعری اور افسانے لکھا کرتا تھا لیکن پھر میں نے اپنی ساری تخلیقات کو آگ کی نذر کر دیا۔ لیکن ہاں اگر آپ نے کوئی اسلامی کتاب لکھی ہوتی تو میں ضرور اس کا مطالعہ کرتا”
میں نے چپ چاپ کتاب کو واپس بیگ میں رکھ دیا۔ میرے دل کو کافی گراں گزرا۔ مجھے پوسٹ ماسٹر سے اس طرح کے برتاؤ کا قطعی کوئی اندازہ نہیں تھا۔ اس نے ایک طرح سے میری توہین کی لیکن میں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس سےاجازت طلب کی۔
کتاب واپس لوٹانے والی بات میرے ذہن میں کھٹک رہی تھی۔ میں ڈاک خانے سے سیدھا اپنے آفس کی طرف نکلا۔ راستے میں چند عورتوں نے مجھ سے لفٹ مانگی۔ چونکہ جس راستے سے میں آفس آتا جاتا ہوں اُس راستے پر گاڑیوں کی کم آمد ورفت کی وجہ سے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے میں نے اپنی گاڑی کو روکا اور وہ تینوں خواتین پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گئیں۔ ایک عورت تقریباً ساٹھ کے قریب، دوسری پنتیس کے قریب اور تیسری تقریباً بیس سال کی نوجوان لڑکی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر مجھے دعائیں دینے لگیں۔ ان کا تعلق گوجر طبقے سے تھا اور وہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے ساتھ والے قصبے کی خانقاہ جا رہی تھیں۔
گاڑی میں ان کی نظر اچانک میری کتاب پر پڑی جو میں نے اگلی سیٹ پر رکھی ہوئی تھی۔پنتیس سالہ عورت نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:
"بھیا۔۔۔ یہ کون سی کتاب ہے۔ کیا میں اسے دیکھ سکتی ہوں؟”
یہ میری ہی لکھی ہوئی کتاب ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ آپ شوق سے اسے دیکھ لیجئے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی کتاب اس عورت کے ہاتھ میں تھما دی۔
ماشاءاللہ بھیا۔ اس پر تو آپ کی تصویر بھی ہے۔ آپ ایک قلم کار ہیں۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی ہے۔ حالانکہ میں زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں ہوں لیکن پھر بھی مجھے کتابوں سے محبت ہے۔۔۔ کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے وہ کتاب جواں سال لڑکی کے ہاتھ میں تھما دی۔
لڑکی کی باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ اس نے کتاب کی ورق گردانی شروع کی اور کہا کہ اس کو افسانے پڑھنے کا بہت شوق ہے اس نے مزید کہا کہ اس کتاب کی کیا قیمت ہے؟
میں نے اس لڑکی کی دلچسپی کو محسوس کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کتاب کو رکھ لیجئے۔ اور ویسے بھی میں نے پیسہ کمانے کے لیے یہ کتاب لکھی نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہیں اور اس نے اپنے پرس سے تین سو روپے نکال کر میری اگلی سیٹ پر رکھ دیے۔
میں نے آفس کے باہر اپنی گاڑی روک لی۔ وہ تینوں گاڑی سے اتر گئیں۔ میں نے تین سو روپے انہیں یہ کہہ کر واپس لوٹا دیے کہ میں اپنی تصنیف انہیں بطور تحفہ پیش کر رہا ہوں۔ وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئیں۔۔
میں پورے دن اپنے آفس میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ایک پڑھے لکھے سرکاری ملازم (جو ادب کا شیدائی لگ رہا تھا) اور ان گوجر طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے درمیان آخر کس چیز کا فرق ہے ؟۔۔