4 فروری کوپوری دنیا میں کینسر مخالف عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس حوالے سے ملک کے مختلف حصوں کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔کینسر مخالف دن کے حوالے سے سب سے بڑی تریب صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں منعقد ہوئی، جہاں طبی معالجین اور ماہرین نے کینسر جیسی مہلک اور جان لیوا بیماری سے نجات حاصل کرنے اور اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے بارے میں عام لوگوں کو آگا کیا۔دنیا بھر کیساتھ ساتھ بھارت میں بھی کینسر بیماری بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اورابھی تک ملک بھر میں 14لاکھ 61ہزار 427کیسزسامنے آئے ہیں جو کہ کل آبادی کا12.8ٰٰ فیصدہے۔
جہاں تک جموںو کشمیر کا تعلق ہے، اس مرض کی رفتار بڑی تیزی کے ساتھ یہاں بڑھ رہی ہے ۔ماہرین کی رائے میں اس مرض کی بڑھتی وجہ غلط کھانے پینے کے عادات ہیں۔اس سلسلے میں اگر چہ محکمہ ہیلتھ لوگوں کو باخبر کرنے اور اس بیماری سے بچنے کے لئے مختلف کیمپ اور ورک شاپس منعقد کرتا ہے، تاہم پھر بھی اس بیماری کے شکار زیادہ سے زیادہ لوگ ہو رہے ہیں ۔ اس بیماری میں مبتلاءنہ صرف مریض پریشان اور ذ ہنی تناﺅ کے شکار ہو رہے ہیں بلکہ پورا گھر متاثر ہو جاتا ہے۔صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ نے ان بیماروں کے لئے ایک علیحدہ انتظام رکھا ہے ،جہاں اس جان لیوا بیماری کا اعلاج و معالجہ کیا جاتا ہے اور بیماروں کو مفت اعلاج فراہم کیا جارہا ہے، تاہم اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک ملک کے ہیلتھ نظام کا تعلق ہے اس کو بہتر بنانے کے لئے سرکار کوشاں ہے، لیکن دیکھا جائے تو ہیلتھ سیکٹر کے لئے بہت ہی کم فنڈس دستیاب رکھے جاتے ہیں۔مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ جموں کشمیر میںمعدے ،جگر، پستان اور پروسٹیٹ کینسر میں روز بروزاضافہ ہو رہا ہے ۔اگر چہ ملک کے ماہر سائنسدان اس بیماری کو ختم کرنے کے لئے مختلف ادویات اور ویکسین تیار کرنے میں مصروف عمل ہیں تاہم یہ ادویات اور ویکسین ہر مریض کو آسانی سے نہیں فراہم ہورہی ہے۔سرکاری لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کرنے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے اور ایک مریض کو مہینوں تک کا انتظار اعلاج کے لئے کرنا پڑ تا ہے۔تب تک مریض کی حالت بہت حد تک بگڑ جاتی ہے ،پھر وہ لا اعلاج بن جاتا ہے۔
جہاں تک پرائیویٹ اسپتالوں اور تشخیصی مراکز کا تعلق ہے وہاں بہت زیادہ خرچہ آتا ہے جو سارے لوگ برداشت نہیں کر پاتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ شوشل میڈیا پر روز ایسے ویڈیوز اپ لورڈ کئے جاتے ہیں جن میں عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ ان مریضوں کی مالی مدد کی جائے۔ سرکار کو اس حوالے سے ایک جامع پالیسی مرتب کرنی چا ہیے ،ہر ایک سرکاری اسپتال میں کینسر سے متعلق لیبارٹریاںقائم کرنی چاہئیں او ر اعلاج و معالجہ کے لئے مخصوص انتظام رکھنا چاہئے تاکہ جلد سے جلد اس بیماری کا پتہ لگایا جاسکے اور مریض کا اعلاج بروقت ممکن ہو سکے ۔تب جاکر اس مہلک اور جان لیوا بیماری سے لوگوں کو نجات مل سکتی ہے اور اس مرض میں مبتلا ءلوگ جلد صحت یاب ہو سکتے ہیں۔یہ بات بھی لازمی ہے کہ ہیلتھ سیکٹر کومضبوط اور موثر بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈس دستیاب رکھے جائیں ۔تاکہ مریضوں کا آسانی کے ساتھ وقت پر اعلاج ہو سکے اوربیماری کے خاتمے کے لئے جدید ریسرچ ہوسکے۔یہاں عوام کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ڈاکٹروں کے مفید مشوروں سے استفادہ حاصل کریں اور ایسے چیزوں کے کھانے پینے سے پرہیز کریں جن سے کینسر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔