مانیٹرنگ ڈیسک
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 47ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلاف اُٹھا لیا ہے۔حلف برداری کی تقریب میں سابق صدور بل کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہیلری کلنٹن، جارج بش اور ان کی اہلیہ اور بارک اوباما بھی شریک تھے۔
قبل ازیں، نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اہلیہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس پہنچے تھے جہاں جو بائیڈن اور ان کی اہلیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ اور میلانیا کا استقبال کیا تھا۔
امریکہ کا زوال ختم اب تبدیلی بہت جلدی آئے گی: صدر ڈونلڈ ٹرمپ
گزشتہ برس اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "خدا نے مجھے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے لیے بچایا ہے۔”
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "انتخابات نے مجھے ایک خوفناک دھوکہ دہی کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔”اُن کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اُن کا یقین اور اعتماد واپس لوٹانا ہے۔ اُن کی دولت، جمہوریت اور درحقیقت اُن کی آزادی اُنہیں واپس دینی ہے۔ یہ وہ لمحہ جب امریکہ کا زوال ختم ہو چکا ہے



آج صبح وائٹ ہاؤس آمد پر ڈونلڈ ٹرمپ اور میلانیا ٹرمپ کا جو بائیڈن اور جل بائیڈن نے استقبال کیا اس موقع پر وائٹ ہاؤس کے مرکزی دروازے پر ہاتھ ملائے گئے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔
نومنتخب امریکی صدر اور اُن کی اہلیہ کی وائٹ ہاؤس میں چائے پر آمد کو انتخابات کے بعد اقتدار کی پرامن منتقلی کی واضح علامت کے طور پر دکھا جاتا ہے۔ اس لمحے کو امریکی سیاسی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے کہ جس دن سیاسی اختلافات کو ایک جانب رکھ کر کم از کم ایک دن کے لئے سب متحد دکھائی دیتے ہیں۔
یہ ایک ایسی روایت تھی جسے چار سال قبل 6 جنوری کو ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے امریکی کیپیٹل ہل پر حملے اور سبکدوش ہونے والے صدر کی جانب سے بائیڈن سے ملاقات نہ کرنے یا حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد ترک کر دیا گیا تھا۔
اس ہنگامہ خیز اقتدار کی منتقلی کے بعد بائیڈن نے اپنی صدارت کے دوران امریکہ کی تقسیم کو ختم کرنے کا وعدہ کیا، ایک ایسا کام جو گزشتہ چار سالوں کی تلخیوں کو دیکھتے ہوئے ادھورا رہ گیا ہے۔
لیکن کم از کم آج جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے نئے صدر کے طور پر حلف اُٹھانے جا رہے ہیں تو ایسے میں امریکہ کے صدارت کے پرانے اصول اور روایات واپس آتے دکھائی دے رہے ہیں۔