مختار احمد قریشی
بوڑھے رحمت کی چھوٹی سی دکان میں کئی برسوں سے وہی پرانا ریڈیو رکھا تھا۔ گرد سے اٹاہوا، لیکن ہمیشہ کی طرح فخریہ اپنی جگہ جما ہوا تھا۔ ہر روز شام کے وقت رحمت اسے جھاڑ پونچھ کر آن کرتا اور اس کی مدھم آواز میں خبریں یا موسیقی سن کر سکون محسوس کرتا۔ یہ ریڈیو صرف ایک آلہ نہ تھا بلکہ رحمت کی تنہائی کا ساتھی اور ماضی کی یادوں کا خزانہ تھا۔
ایک دن گاو¿ں کے نوجوان ریاض نے دکان میں قدم رکھا اور ریڈیو کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولا، ”چچا، یہ اب بھی کام کرتا ہے؟ آج کل تو سب کے پاس اسمارٹ فون اور اسپیکر ہیں۔“
رحمت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ”بیٹا، یہ ریڈیو میرا سب کچھ ہے۔ یہ وہ وقت یاد دلاتا ہے جب زندگی سادہ اور دل خالص تھے۔“
ریاض نے طنزیہ انداز میں کہا، ”لیکن چچا، اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ یہ تو بس پرانا ہوچکا ہے۔“
رحمت نے ریڈیو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ”بیٹا، یہ پرانا ہے لیکن اپنی جگہ پر قائم ہے۔ جب تمھارا دادا آزادی کی تحریک کے لیے جلسوں میں جایا کرتا تھا، تب یہ ریڈیو ہمیں خبروں سے جوڑتا تھا۔ جب تمھاری ماں نے پہلی بار قوالی سن کر جھومنا شروع کیا، تب یہ ریڈیو بج رہا تھا۔“
ریاض کی مسکراہٹ دھیمی پڑ گئی۔ اس نے کہا، ”چچا، مجھے معاف کیجیے۔ میں سمجھ گیا، ہرپرانی چیز کا مطلب صرف وقت نہیں بلکہ جذبات اور یادیں بھی ہوتی ہیں۔“
رحمت نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا، ”بیٹا، یہی جذبات ہمیں انسان بناتے ہیں۔ وقت کے ساتھ چیزیں بدل جاتی ہیں، لیکن یادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔“
اگلے دن ریاض دوبارہ دکان پر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا اسپیکر تھا۔ اس نے رحمت کے سامنے رکھا اور بولا، ”چچا، یہ اسپیکر لے لیجیے۔ اس پر آپ اپنی پسند کی موسیقی اورخبریں سن سکتے ہیں، اور یہ چلانے میں بھی آسان ہے۔“
رحمت نے اسپیکر کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا، ”شکریہ بیٹا، لیکن یہ ریڈیو میرے دل کے قریب ہے۔ یہ صرف سننے کا ذریعہ نہیں بلکہ میری زندگی کی آواز ہے۔“
ریاض نے کہا،“چچا، اگر یہ ریڈیو کبھی خراب ہو جائے تو؟“
رحمت نے دھیمی آواز میں جواب دیا، ”تو میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گا، جیسے ہم اپنی زندگی کے بگڑے ہوئے تعلقات کو ٹھیک کرتے ہیں۔“
ریاض نے ریڈیو کو غور سے دیکھا۔ اس کے ٹوٹے ہوئے بٹن اور کھردری سطح نے اسے یہ احساس دلایا کہ یہ صرف ایک آلہ نہیں بلکہ کئی نسلوں کی محبت اور یادوں کا مرکز ہے۔ ریاض نے جھک کر کہا، ”چچا، میں آپ کے اس ریڈیو کی دیکھ بھال کے لیے آپ کے ساتھ ہوں۔ اگر کبھی ضرورت پڑی، تو میں اسے ٹھیک کروانے لے جاو¿ں گا۔“
رحمت کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ ”بیٹا، تمہارا دل سمجھ گیا ہے۔ پرانی چیزوں کی قدر وہی کر سکتا ہے جو جذبات کی گہرائی کو سمجھے۔“
ریاض: ”چچا، کیا آپ کو کبھی اس ریڈیو کے بغیر زندگی کا تصور ہوا؟“
رحمت: ”نہیں، بیٹا۔ یہ میرے گزرے ہوئے دنوں کی آواز ہے۔“
ریاض: ”تو کیا یہ آواز کبھی خاموش ہو سکتی ہے؟“
رحمت: ”نہیں، جب تک کوئی سننے والا ہو، آواز ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔“
ریاض نے ریڈیو کو دوبارہ اس کی جگہ پر رکھا اور دکان سے نکلتے ہوئے ایک نظر پیچھے ڈالی۔ اسے احساس ہو چکا تھا کہ زندگی کی اصل خوبصورتی وہ تعلقات اور یادیں ہیں جو وقت کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ رحمت اپنی کرسی پر بیٹھا مسکراتے ہوئے ریڈیو کی مدھم آواز سنتا رہا، جیسے کوئی پرانی داستان پھر سے زندہ ہو گئی ہو۔
(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سےایک استاد ہیں اور ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)