جمعرات, جنوری ۲۳, ۲۰۲۵
2.5 C
Srinagar

بچوں کے ساتھ جنسی استحصال ایک سنگین مسئلہ بن رہا ہے

 
آفرین کوثر
بانڈی چیچیاں، پونچھ
 جموں و کشمیر، جو اپنے قدرتی حسن اور ثقافتی تنوع کے لیے مشہور ہے، ایک اور حقیقت کا سامنا کر رہا ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے اور وہ ہے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سماج کے ہر طبقے کو متاثر کر رہا ہے، لیکن عموماً یہ موضوع گفتگو سے باہر رہتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس مسئلے کی نوعیت، اس کے اسباب، اور ممکنہ حل پر روشنی ڈالیں گے۔بچوں کی حفاظت ہر معاشرے کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن آج کے دور میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے بڑھتے ہوئے واقعات نے یہ ضروری بنا دیا ہے کہ بچوں کو ان کے جسمانی حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔”گڈ ٹچ“ اور”بیڈ ٹچ“ کے بارے میں شعور بیدار کرنا بچوں کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ یہ مضمون اس موضوع پر روشنی ڈالے گا کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہے؟ بچوں کو اس کے بارے میں کیسے تعلیم دی جائے؟اور والدین اور اساتذہ کا کردار کیا ہو سکتا ہے؟جموں و کشمیر میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے کیس کی تعداد میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ استحصال جسمانی، جذباتی، اور نفسیاتی طور پر بچوں پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ جنسی استحصال کے واقعات گھریلو ماحول، اسکول، یا دیگر عوامی مقامات پر ہو سکتے ہیں۔ ان کیسوں میں اکثر متاثرہ بچے سماج کے کمزور طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو اس مسئلے کو اور زیادہ پیچیدہ بناتا ہے۔
بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں۔(پہلا) والدین اور بچوں کو جنسی استحصال کے خطرات اور اس سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی نہیں ہوتی ہے۔(دوسرا) مالی مشکلات کی وجہ سے بچے اکثر ایسے ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں ان کا استحصال آسان ہوجاتا ہے۔(تیسرا)متاثرہ بچے اور ان کے خاندان اکثر سماجی بدنامی کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔(چوتھا) قوانین کے نفاذ میں کمزوری اور مجرموں کو سزا نہ دینا اس مسئلے کوروز بروز فروغ دے رہا ہے۔ بچوں پر جنسی استحصال کے اثرات زندگی بھر رہ سکتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہوسکتے ہیں۔ پہلا،متاثرہ بچے ذہنی دباؤ، خوف، اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دوسرا،ایسے بچے اسکول یا مدرسہ چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں یا ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔تیسرا، متاثرہ بچے اکثر سماجی تعلقات قائم کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ میں کیا فرق ہوتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ گڈ ٹچ وہ ہوتا ہے جو محبت اور عزت کے ساتھ کیا جاتا ہے، جیسے والدین کا بچوں کو گلے لگانا یا ہاتھ تھامنا۔ یہ بچوں کو محفوظ اور خوشی محسوس کراتا ہے۔ بیڈ ٹچ وہ ہوتا ہے جس سے بچے کو خوف، غیر آرام دہ احساس یا شرمندگی ہو۔ یہ کسی بھی غیر مناسب طریقے سے بچے کے جسم کو چھونے یا اسے مجبور کرنے کی صورت میں ہو تا ہے۔بدلتے وقت کے ساتھ، معاشرتی اصول اور اقدار ترقی کر رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے جرائم خاص طور پر جنسی جرائم دنیا بھر میں زیادہ عام ہو رہے ہیں۔یہ ایسا دور ہے جس میں کوئی یقین کے قابل نہیں۔چاہے وہ انجان لوگ ہو یا رشتہ دارہوں۔ سوشل میڈیا اور خبروں میں رپورٹ ہونے والے مختلف واقعات کی وجہ سے اس طرح کے جرائم کے بارے میں زیادہ آگاہی پائی جاتی ہے، لیکن بہت سے واقعات، خاص طور پر جن میں بچے شامل ہیں، انکے بارے میں کم آگاہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 53 فیصد بچوں کو کسی نہ کسی طرح کے جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جن میں پچاس فیصد بدسلوکی کرنے والے ایسے افراد ہیں جنہیں بچے جانتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بدسلوکی کے بہت سے واقعات قابل اعتماد حلقوں میں ہوتے ہیں، بشمول خاندان کے افراد یا قریبی جاننے والے کے ذریعہ ہوتا ہے۔
 جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں میری ہم جماعت روبیہ (نام تبدیل)نے ایک بار اپنے ہراساں کیے جانے کا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ صرف بارہ سال کی تھی تب وہ سواریوں سے بھری ہوئی ایک عوامی گاڑی میں سفر کررہی تھی۔ ان سواریوں میں سے ایک آدمی نے اسے غیرمناسب طریقے سے چھوا، جس سے وہ بے چینی محسوس کر رہی تھی، لیکن جب تک وہ بڑی نہیں ہوئی، اسے پوری طرح سے سمجھ نہیں آئی کہ وہ ماجرہ کیا تھا۔ اسی طرح ایک اور دوست نے اپنا تجربہ شیئر کیا جہاں اس کے کزن نے جو اس سے بڑی عمرکا تھا اس نے اسے غیرمناسب طریقے سے چھوا تھا۔ جب تک کہ وہ ذی ہوش نہ ہو گئی اسے صورت حال کی نوعیت کا احساس نہیں ہوپایا۔ یہ کہانیاں اس طرح کے جرائم کی خاموش نوعیت کو اجاگر کرتی ہیں کہ کس طرح بچوں کو اکثر ان کی اطلاع دینے کا علم یا اعتماد نہیں ہوتا ہے۔ ایسی کئی کہانیاں دل کو گھبرا دینے والی ہوتی ہیں۔ بچوں کو یہ سمجھانا کہ ان کا جسم ان کا اپنا ہے اور کسی کو بھی ان کے جسم کے نجی حصوں کو چھونے کا حق نہیں ہے، ان کی حفاظت کے لیے لازمی ہے۔ یہ تعلیم انہیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ وہ غیر مناسب حالات میں کیسے ردعمل دیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اپنے بچوں کو کیسے آگاہ کیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں بچوں سے ان کی عمر کے مطابق گفتگو کریں۔دوسرایہ کہ روزمرہ کی زندگی کی مثالوں سے سمجھائیں کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ میں کیا فرق ہے۔تیسری بات یہ کہ بچوں کو بتائیں کہ ان کے جسم کے کچھ حصے نجی ہیں اور کسی کو انہیں چھونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔انہیں حوصلہ دیں کہ اگر وہ کسی بری صورتحال کا سامنا کریں تو فوراً والدین، اساتذہ یا کسی قابل اعتماد شخص کو بتائیں۔ اس میں والدین اور اساتذہ کا کردار بھی بہت اہم ہو جاتا ہے جیسے والدین اور اساتذہ بچوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں جہاں وہ اپنے خیالات اور مسائل کھل کر بیان کر سکیں۔دوسرا یہ کہ بچوں کے رویے میں کسی بھی غیر معمولی تبدیلی کو سنجیدگی سے لیں۔اس کے علاوہ اسکولوں اور کمیونٹی سینٹرز میں گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ پر ورکشاپس کا انعقاد کرائے جائیں۔
ممکنہ حل یہ ہوسکتا ہے کہ اس سنجیدہ مسئلے پر حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں والدین اور بچوں کے لیے جنسی استحصال کے بارے میں آگاہی مہمات چلائیں۔ بچوں کے تحفظ کے قوانین کو مضبوط اور مؤثر بنایا جائے۔ اسکولوں میں بچوں کو ان کے حقوق اور جنسی استحصال سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں تعلیم دی جائے۔ متاثرہ بچوں کے لیے مشاورت اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے۔گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں آگاہی نہ صرف بچوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے بلکہ یہ ان کے اندر خود اعتمادی اور شعور بھی پیدا کرتی ہے۔ جموں و کشمیر بشمول پورے ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے فوری اور مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ والدین، اساتذہ، حکومتوں، سماجی تنظیموں، اور عوام کو مل کر اس مسئلے کا سامنا کرنا ہوگا تاکہ بچوں کو محفوظ اور خوشحال مستقبل فراہم کیا جا سکے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img