بدھ, فروری ۵, ۲۰۲۵
5.1 C
Srinagar

بچوں کا استحصال ۔۔۔۔

بین الاقوامی قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر ہر انسان ایک بچہ ہے۔ یہ عالمی طورپر منظور کردہ اصطلاح ہے، جواقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق پر کنونشن (1989 ) (UNCCC) سے آئی ہے اور زیادہ تر ممالک کی منظور کردہ اور مستعمل بین الاقوامی قانونی اصطلاح ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ ہی سے 18 سال سے کم عمر کے افراد کو ایک علیحدہ مستقل قانوی طبقہ قبول کیا ہے۔ مختصراً اسی وجہ سے 18 سال کی عمر ہوجانے کے بعد ہی کوئی شخص ووٹ دینے، ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے اور کسی طرح کا قانونی معاہدہ کرنے کامجاذ قرار پاتا ہے۔ چائلڈ میرج۔۔۔ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے تحت لڑکی کے لیے شادی کی عمر 18 سال اور لڑکے کے لیے21 سال لازمی قرار دی گئی ہے۔ اسکے علاوہ 1992 میں (UNCRC) کی منظوری کے بعد سے ہندوستان نے اپنے قانون کو تبدیل کیا تاکہ18 سال کی عمر سے کم کے افراد جو حفاظت اور دیکھ بھال کے ضرورت مند ہوتے ہیں کو ریاست میں انصاف فراہم ہوسکے۔حالانکہ دیگر قوانین بحی ہیں جو بچہ کی الگ سے تعریف کرتے ہیں اور ابھی بھی انہیں( UNCRC)کے تحت لانا باقی ہے لیکن جیسا کہ پہلے بتادیا گیا کے لڑکیوں کی بلوغت کی عمر 18سال اور لڑکوں کی21 سال قانونی طور پر طے ہے۔
ہمارے ملک کی حکومت قوانین اور بین الاقوامی منظور ر کردہ قوانین کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے تمام افراد خصوصی حقوق رکھتے ہیں اور انکے لیے معیاری قوانین ہیں۔ دستور ہند نے تمام بچوں کو کچھ حقوق دیئے ہیں جو خصوصی طورپر انکے لیے شامل کئے گئے ہیں۔6تا14سال کی عمر کے بچوں کے لیے مفت اور لازمی بنیادی تعلیم کا حق۔14 سال کی عمر تک نقصان دہ ملازمت سے بچنے کا حق۔ صحت مند ماحول میں اور آزادی اور احترام کے ماحول میں اور بچپن کی حفاظت کی ضمانت کے ساتھ انکی ترقی کے لیے مساوی مواقع اور سہولیات پہنچانا اور استحصال کے خلاف اور بداخلاقی کے خلاف نوجوان(آرٹیکل 39۔ایف)موجود ہے ۔اسکے علاوہ انہیں دیگر کسی بھی بالغ مردیا عورت شہری کی طرح ہندوستان کے شہری کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔در اصل قوانین سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بچوں کے حقوق ہیں اور ان حقوق کی اگر خلاف ورزی ہوتی ہے ،تو سزا بھی ہوسکتی ہے ۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیوز دیکھنے کو مل رہے ،جن میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ بچوں کو ویوز کی خاطر ایسے کام کرائے جاتے ہیں ،جو کہ حقوق ِ اطفال کی خلاف ورزی کے ذمرے میں آتے ہیں ۔جہاں یہ ویڈیوز کشمیری سماج کے لئے لمحہ فکر یہ ہے ،کیوں کہ اس رجحان سے بچوں کی نشو نما پر منفی اثرارت بھی مرتب ہوتے ہیں ۔ہوسکتا ہے یہ ویڈیوز مزاحیہ کے لئے بنائی گئی ہو اور سوشل میڈیا پر اپ لورڈ کی گئی ہو ،لیکن یہ حقوقِ اطفال کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔اپنے انٹرنینمنٹ (مزاحیہ و تفریحی ) کے لئے بچوں کا استحصال کرنا جائز قطعی طور ٹھہرایا نہیں جاسکتا ۔یہ ویڈ یوز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔ایسے منفی ویڈیوز کو مستقبل میں روکنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا ہوگا ۔خاموشی اختیار کرنے سے بچوں کے حقوق کی پاسداری یقینی نہیں بنے گی ۔کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے انٹرٹینمنٹ کے لئے دانستہ یا غیر دانستہ طور بچوں کی تذلیل کرے ۔بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کے کنوینشن کے مطابق دنیا کا ہر بچہ اپنی بقا، تحفظ، ترقی اور شمولیت کا حق رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا کی چمک دھمک اور رنگینوں کے چکر میں اپنے بچوں کا استحصال کرنے کی منفی سوچ ترک کرنی ہوگی ۔

 

 

 

Popular Categories

spot_imgspot_img