ہفتہ, جنوری ۲۵, ۲۰۲۵
2.6 C
Srinagar

آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ: محمد رفیع

نئی دہلی: یہ عام خیال ہے کہ وقت کی گرد میں ہرستارہ اپنی چمک کھودیتا ہے،لیکن لیجنڈ گلوکار محمد رفیع کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتا ہے۔ تقریباً چار دہائیوں کے بعد بھی ان کے مداحوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور ہندوستان اور برصغیرہی نہیں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی انہیں احترام سے یاد کیا جاتا ہے بلکہ سنا جاتا ہے۔محمد رفیع ہندی سنیما کے بہترین پلے بیک سنگرز میں سے ایک تھے، جنہوں نے تقریباً 40 سال کے فلمی سفر میں 25 ہزار سے زیادہ گانے ریکارڈ کئے۔ اپنی آواز کی مٹھاس سے انہوں نے اپنے ہم عصر گلوکاروں میں ایک منفرد پہچان بنائی تھی۔ انہیں ‘شہنشاہ ترنم’ بھی کہا جاتا تھا۔
محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو پنجاب کے ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ رفیع نے بچپن ہی سے موسیقی میں دلچسپی دکھانا شروع کر دی۔ بچپن میں ان کا خاندان گاؤں سے لاہور آ گیا۔ رفیع کے بڑے بھائی ان کے لیے تحریک کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔ رفیع کے بڑے بھائی کی امرتسر میں حجام کی دکان تھی اور رفیع بچپن میں اس دکان پر آکر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک فقیر روزانہ ان کی دکان پر آیا کرتا تھااور صوفیانہ انداز میں گیت گایا کرتا تھا۔ سات سال کے رفیع کو اس فقیر کی آواز اتنی پسند آئی کہ وہ دن بھر اس کے پیچھے پڑتے اور اس کے گائے ہوئے گانے سنتے۔ جب فقیر گانا بند کر کے کھانے یا آرام کرنے جاتا تو رفیع اس کی نقل کر کے گانے کی کوشش کرتے۔ وہ اس فقیر کے گائے ہوئے گیت اپنی آواز میں گانے میں اس قدر مگن ہو گئے کہ انہیں احساس تک نہ ہوا کہ ان کے گرد لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا ہے۔ جب بھی کوئی ان کی دکان پر بال ترشوانے آتا تو وہ سات سالہ محمد رفیع سے گانے کی درخواست ضرور کرتا۔
تقریباً 15 سال کی عمر میں انہیں پہلی مرتبہ عوامی سطح پر اپنی پرفارمنس پیش کرنے کا موقع ملا جو ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ مشہور موسیقار شیام سندر بھی سامعین میں تھے جنہوں نے رفیع کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر انہیں فلموں میں گانے کے لیے بمبئی مدعو کیا۔رفیع نے اپنا پہلا گانا پنجابی فلم ‘گل بلوچ’ کے لیے گایا تھا۔ بمبئی میں، انہوں نے ہندی میں اپنے پہلے گانے ‘گاؤں کی گوری’ (1945)، ‘سماج کو بدل ڈالو’ (1947) اور ‘جگنو’ (1947) جیسی فلموں کے لیے گائے۔ موسیقار نوشاد نے ہونہار گلوکار کی صلاحیت کو پہچانا اور رفیع کو پہلی بار فلم ‘انمول گھڑی’ (1946) میں سولو گانا ‘تیرا کھلونا ٹوٹا بالک’ اور پھر فلم میں دل لگی۔
آنے والے برسوں میں رفیع کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہونے لگا۔ وہ اس وقت کے چوٹی کے ستاروں کی سنہری آواز بن چکے تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی آواز کو اداکار کی شخصیت کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت تھی جو اسکرین پر اس کے گانے کے ساتھ نظر آتی تھی۔ مشہور فلم ‘لیڈر’ (1964) میں ‘تیرے حسن کی کیا تعریف کروں’ گاتے ہوئے، وہ رومانوی دلیپ کمار تھے، ‘پیاسا’ (1957) میں ‘یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے’ جیسے گانوں میں، انہوں نے گرو دت کی روح تھی فلم ‘جنگلی’ (1961) میں ‘یا ہُو’ گاتے ہوئے بے مثال شمی کپور اور ‘پیاسا’ میں تیل مالش کرنے والا شرارتی جانی واکر بھی تھا۔ ہندی فلموں کے معروف ہم عصر پلے بیک سنگرز کے ساتھ ان کے جوڑے بھی اتنے ہی یادگار اور مقبول ہیں۔
پنجاب کے کوٹلا سلطان سنگھ گاؤں میں 24دسمبر 1924 کو ایک متوسط مسلم خاندان میں پیدا ہوئے محمد رفیع موسیقی کی تعلیم استاد عبدالواحد خان سے لینے لگے اور ساتھ ہی انہوں نے غلام علی خان سے کلاسیکی موسیقی بھی سیکھنی شروع کی ۔ایک بار حمید رفیع کو لے کر کے ایل سہگل کےموسیقی پروگرام میں گئے،لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کے ایل سہگل نے گانےسے انکار کردیا۔حمید نےپروگرام کے کنوینر سے گزارش کی کہ وہ ان کے بھائی کو پروگرام میں گانے کا موقع دیں۔کنوینر کے راضی ہونے پر رفیع نے پہلی بار 13سال کی عمر میں اپنا پہلا نغمہ اسٹیج پر پیش کیا۔شائقین کے درمیان بیٹھے موسیقار شیام سندر کو ان کا گانااچھا لگا اور انہوں نے رفیع کو ممبئی آنے کی دعوت دی۔
شیام سندر کی موسیقی کی ہدایت میں رفیع نے اپنا پہلا گانا ’سونيے نی ہیریے نی‘ ،زینت بیگم کے ساتھ ایک پنجابی فلم ’گل بلوچ‘كے لیے گایا۔ سال 1944 میں نوشاد کی موسیقی میں انہوں نے اپنا پہلا ہندی گانا ’ہندوستان کے ہم ہیں‘فلم ’پہلے آپ‘ کے لیے گایا۔

سال 1949 میں نوشاد کی موسیقی کی ہدایت میں فلم دلاری میں گائے گانے سهاني رات ڈھل چکی .. کے ذریعے ان پر کامیابی کے دروازے کھل گئے۔ دلیپ کمار، دیو آنند، شمي کپور، راجندر کمار، ششی کپور، راجکمارجیسے نامور ہیرو کی آواز کہے جانے والے رفیع نے اپنے طویل کریئر میں تقریباً 700 فلموں کے لیے 26000 سے بھی زیادہ گانے گائے۔محمد رفیع فلم انڈسٹری میں اپنی خوش مزاجی کےلئے جانے جاتے تھے، لیکن ایک بار ان کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ ان بن ہو گئی ۔انہوں نے لتا منگیشکر کے ساتھ سینکڑوں گانے گائے تھے لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب رفیع نے ان سے بات چیت تک کرنی بند کر دی تھی۔ لتا منگیشکر گانوں پر رایلٹی کی حامی تھیں جبکہ رفیع نے کبھی بھی رایلٹی کا مطالبہ نہیں کیا۔
رفیع صاحب کا خیال تھا کہ ایک بار جب فلم سازوں نے گانے کے پیسے دے دیئے تو پھر رایلٹی کا کوئی مطلب نہیں ۔دونو ں کے درمیان تنازعہ اتنا بڑھا کہ محمد رفیع اور لتا منگیشکر کے درمیان بات چیت بھی بند ہو گئی اور دونوں نے ایک ساتھ گانا گانے سے انکار کر دیا، تاہم چار سال کے بعد اداکارہ نرگس کی کوشش سے دونوں نے ایک ساتھ ایک پروگرام میں دل پکارے گانا گایا۔محمد رفیع نے ہندی فلموں کے علاوہ مراٹھی اور تیلگو فلموں کے لئے بھی گانے گائے۔ محمد رفیع کو اپنے کریئر میں چھ بار فلم فیئر ایوارڈ سےاور 1965 میں پدمشري ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔رفیع صاحب اداکار امیتابھ بچن کے بہت بڑے پرستار تھے۔جبکہ انہیں فلمیں دیکھنے کا شوق نہیں تھا لیکن کبھی کبھی وہ فلم دیکھ لیا کرتے تھے۔ایک بار انہوں نے امیتابھ بچن کی فلم دیوار دیکھی تھی۔اس کے بعد ہی وہ متابھ کے بہت بڑے پرستار بن گئے۔
سال 1980 میں آئی فلم نصیب میں رفیع صاحب کو امیتابھ کے ساتھ ’’چل چل میرے بھائی‘‘گانا گانے کا موقع ملا،امیتابھ کے ساتھ اس گانے کو گانے کے بعد وہ بہت خوش ہوئے تھے۔امیتابھ کے علاوہ انہیں شمي کپور اور دھرمیندر کی فلمیں بھی بہت پسند آتی تھیں۔انہیں امیتابھ-دھرمیندر کی فلم شعلے بہت بے حد پسند تھی اور انہوں نے اسے تین بار دیکھا تھا۔30 جولائی 1980 کوفلم ’آس پاس‘کے گانے ’’شام کیوں اداس ہے دوست‘‘ مکمل کرنے کے بعد جب رفیع نے لکشمی کانت پيارےلال سے کہا ’کیا میں جا سکتا ہوں؟‘ جسے سن کر وہ حیران ہوگئے، کیونکہ اس سے پہلے رفیع نے ان سے کبھی اس طرح اجازت نہیں مانگی تھی۔اگلے دن 31 جولائی 1980 کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img