گوکہ کشمیر وادی میں سردیوں کے بادشاہ چلہ کلان کی آمد آمد ہے اور سرمائی تعطیلات کے سبب اسکول بند ہیں ۔تاہم جس موضوع پر آج ہم اس اداریہ میں بات کرنا چاہتے ہیں ،وہ انتہائی حساس اور قابل فکر معاملہ ہے ۔جی ہاں ! اسکولی بچوں میں بڑھتا سگریٹ نوشی کا بڑھتا رجحان ہے ۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق وادی کشمیر میں 23فیصد اسکولی بچے دھواں اڑانے کے عادی ہیں ۔جبکہ والدین کو دیکھ کر85فیصد بچے متاثر ہوچکے ہیں ۔یوں تو تمباکو نوشی کا عالمی دن ہر سال31 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ اقدام عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے1987 میں تمباکو کی وبا کی طرف سب کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کیا تھا۔ اس کے علاوہ، یہ دن ہمیں تمباکو کے مضر اثرات کے بارے میں عام لوگوں میں بیداری پھیلانے کی اجازت دیتا ہے۔اس سال تمباکو نوشی کا عالمی دن بچوں کو تمباکو کی صنعت کے اثرات سے بچانے کے اہم مسئلے پر مرکوز تھا۔ اس سال کا تھیم، ”بچوں کو تمباکو کی صنعت کی مداخلت سے بچانا،“ نوجوانوں کو تمباکو کمپنیوں کی طرف سے استعمال کیے جانے والے جوڑ توڑ کے ہتھکنڈوں سے بچانے کے لیے مضبوط اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
اس سلسلے میں بیداری بڑھا کر اور مضبوط ضابطوں کی وکالت کرتے ہوئے، اس مہم کا مقصد صنعت کو کمزور نوجوانوں کو نشانہ بنانے اور ان کا استحصال کرنے سے روکنا ہے، اس بات کو یقینی بنانا کہ بچے تمباکو کے مضر اثرات سے پاک ماحول میں پروان چڑھیں۔دراصل تمباکو ایک پودا ہے، جو اس کے پتوں کے لیے کاشت کیا جاتا ہے جسے تمباکو کی مصنوعات بنانے کے لیے خشک اور خمیر کیا جاتا ہے۔ اس میں نیکوٹین ہوتا ہے، ایک ایسا جزو جو نشے کا باعث بن سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے سگریٹ نوشی چھوڑنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔تمباکو نوشی ہو یا چبانے والی۔ تمباکو میں نکوٹین اور بہت سے دوسرے سرطان پیدا کرنے والے مرکبات ہوتے ہیں، جو کینسر کی مختلف اقسام کا خطرہ بڑھاتے ہیں جیسے زبانی کینسر،گلے کا کینسر،پھیپھڑوں کے کینسروغیرہ۔ اس کے علاوہ، نقصان دہ پراڈکٹ کا باقاعدہ استعمال بھی دانتوں کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے،گم بیماری، دانتوں کا داغ پڑنا، دانت کا گرنا، اور دیگر مریضوں کی بیماریاں شامل ہیں ۔
بہرکیف تمباکو نوشی کے خطرناک رجحان نے کشمیری معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہے ۔اب نوجوان نسل اس کے نشانے پر ہے۔ہمارے نوجوان اس دھویں کے لپیٹ میں اپنی مستقبل کو تاریک کرنے کی راہ اختیار کرنے لگے ہیں اور اسکے ذمہ دار جہاں والدین ہیں ،وہیں سماج کا ذمہ دار طبقہ بھی اپنے آپ کو ”بری الزمہ“نہیں قرار دے سکتا ۔والدین کی غیر ذمہ داری اور سنجیدگی نے وادی کشمیر میں اسکولی بچوں میں تمباکو نوشی کے رجحان کو خطرناک حد تک پر وان چڑھایا ہے ۔اسکولی بچوں میں اس رجحان پر قابو پانے کے لئے کوٹپا جیسا قانون تو ہے ،لیکن اس قانون پر سختی سے عمل درآمد نہ ہونی کی وجہ سے بھی اسکولی بچوں میں سگریٹ نوشی کی لت بڑھ رہی ہے ۔اگرچہ نشے کی لت سے نوجوان نسل کو دور رکھنے کے لئے غیر نصابی سرگرمیوِ کھیل کود اور مثبت سرگرمیوں کی طرف حکومت نے اپنی توجہ مرکوز کی ہے ۔تاہم اسکول کے ارد گرد آج بھی دکاندار بغیر کسی خوف کے سگریٹ فروخت کر تے ہیں ،جسکی وجہ سے اسکولی بچوں میں یہ رجحان آسانی سے بڑھ رہا ہے ۔اسکولی بچوں کو سگریٹ یا تمباکو کی لت سے دور رکھنے کے لئے جہاں بیداری مہم کو موثر کرنے کی ضرورت ہے ،وہیں قوانین پر سختی کیساتھ عمل در آمد کو یقینی بنانا بھی بے حد ضروری ہے ۔