تقسیمِ ریاست کے بعد اختیارات کی تقسیم سے جموں کشمیر میں ایک بہت بڑا خلاءپیدا ہو چکا ہے۔ عام لوگوں کو اس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ 2019میں جموں وکشمیر سے نہ صرف دفعہ 370اور 35اے کا خاتمہ کیا گیا بلکہ اس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔لداخ اور کرگل کو الگ یونین ٹریٹری بنایا گیا جبکہ جموں وکشمیر کو الگ سے ایک یونین ٹریٹری بنایا گیا ۔ انتظامیہ کی بھاگ ڈور براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے ہاتھوں میں یہ سوچ کر سونپی گئی تھی کہ جموں کشمیر سے پوری طرح دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکے اور مرکزی فنڈس کو براہ راست عام لوگوں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان برسوں کے دوران زمینی سطح پر بے شمار تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں ،تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایک انقلاب برپا ہوا،سڑکوں کاجال ہر جانب بچھایا گیا۔سرکاری د فاتر میں کام کاج کو بہتر ڈھنگ سے چلایا گیا ،آن لائین نظام رائج کر کے رشوت ستانی پر قدغن لگ گئی اور دفتری نظام میں بہت حد تک بہتری آگئی۔جہاں تک عوامی رابطے کا تعلق ہے،اس میں خامیاں دیکھنے کو ملیں، کیونکہ جتنے بھی سرکاری افسران تھے، وہ عام لوگوں سے رابطے کرنے میں ناکام رہے، جس کی وجہ سے عام لوگ جموں وکشمیر میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے تھے، تاکہ انہیں ا پنی منتخب حکومت ملے اور عوامی نمائندوں کے ساتھ بہ آسانی رابطہ قائم ہوسکے اور اس طرح انہیں اپنے روز مرہ معاملات حل کرنے میںآسانی ہو سکے۔جوں ہی عوامی حکومت وجود میں آگئی، تو ایک اور بڑے مسئلےنے جنم لیا کہ ان عوامی نمائندوں کے پاس پوری طرح اختیارات نہیں ہیں، جیسا کہ وہ بار بار کہہ رہے ہیں ۔
گزشتہ روز وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس بات کا برملا اظہار کیا کہ دوہری حکمرانی کا نسخہ نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ان بیانات سے نہ صرف عوامی حلقوں میں تَذَبذب پایا جارہاہے بلکہ بدظنی پیدا ہو رہی ہے، آخر وہ کس کے اساتھ اپنے بہتر تعلقات قائم کر سکے ۔جہاں تک سرکاری افسران کا تعلق ہے ،وہ بھی دو راہوں پر کھڑے ہیں۔ادھر پارلیمنٹ میں بھی ’ون نیشن ون الیکشن ‘کا بل لایا جارہا ہے ،جس پر بہت ساری سیاسی جماعتوں کے اعتراضات ہیں۔اگر چہ اس عمل سے ملک میں انتخابی اخراجات کم ہو سکتے ہیں اور لوگوں کا وقت بھی بچ سکتا ہے اور انتخابی ضابطہ اخلاق بار بار لگ جانے سے لوگوں کے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔بہر حال ملک کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھ جائے گا ،یہ آنے والے وقت میں پوری طرح سے معلوم ہو گا ،لیکن ایک بات صاف نظر آرہی ہے کہ الگ الگ پاور سنٹر قائم کرنے سے لوگوں کی بہتری کی بجائے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو ایک عوامی اور جمہوری حکومت کے لئے صحت مند علامت نہیں ہو سکتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت اور جموں کشمیر کی سرکار مل بیٹھ کر اختیارات کے حوالے سے ایک ٹھوس اور جامع منصوبہ تیار کرے، تاکہ ہر کوئی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر آسانی کے ساتھ اپناکام چلا سکے اور لوگوں کی ترقی اور خوشحالی یقینی بن سکے،جو کہ اصل مقصد ہے۔