اتوار, جنوری ۲۶, ۲۰۲۵
-3 C
Srinagar

بدعنوانی ایک جال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے جانے کتنی مرتبہ یہ سنا اور پڑھا ہوگا کہ جمہوریت! ملکی نظام ِحکومت چلانے کا ایک نظام ہے جس میں بالغ شہری یا اہل لوگ حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ریاستی، مرکزی زیر انتظام علاقوں کی اسمبلیوں اور مرکزی پارلیمان میں اپنی نمائندگی کے لئے کسی کو بھی منتخب کرتے ہیں، جو ان کی ترجمانی کرنے کے علاوہ ان کے حقوق کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ جس کے ذمہ ان کی نمائندگی کا حق اس کی روح کے مطابق ادا کرنا فرض بنتا ہے۔ جمہوریت کا لفظ یونانی زبان کے دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ”ڈے موس“ جس کے معنی شہری یا عوام اور ”کراتوس“ معنی طاقت یا طرز حکمرانی ہے۔ اس کی روح سے اسے عوام کی طاقت کا سر چشمہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کا عکاس ہو۔ اور اکثریتی اصولوں کے تحت ملکی نظام کے فیصلے صادر ہو رہے ہوں۔ اسے اکثریت کی طاقت کا سرچشمہ کہنا بجا ہو گا۔ یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں سروں کو تولہ نہیں بلکہ گنا جاتا ہے۔ہمارے ملک کو پوری دنیامیں سب سے بڑی جمہوریت کا خطاب ہے،اس میں کوئی شک بھی نہیں ۔ہمارا جمہوری اور سیکو لر ملک ہے ۔ہمارے یہاں ریاستوں میں عوام فیصلے کے تحت حکومتیں بنتی ہیں ۔جموں وکشمیر میں ایک دہائی بعد عوامی حکومت تخت پر براجمان ہے ۔ایک سو دن اس حکومت کے گزر چکے ہیں اور اس حکومت نے اپنی سو روز کی کامیابیاں بھی گنا شروع کردیا ۔حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ وقت وقت پر اپنی کامیابی کو گنے اور اسے عوام کے سامنے رکھے ۔پانچ سال بعد عوام کو اپنا دوبارہ فیصلہ سنانا ہے ۔یعنی عوام ہی طے کرے گی ،حکومت کو دوبارہ حکومت کی کرسی پر رہنا چاہیے یا نہیں؟ ۔
حکومتی نظام پر آج کوئی بحث نہیں بلکہ ہم اس مسئلے کی طرف توجہ مرکوز کرانی کی کوشش کریں ،جس کی طرف توجہ مرکز کرنا بے حد ضروری ہے ۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کورپشن کی دلدل ہر جگہ پر پائی جارہی ہے ،جس میں ہم سب دبتے جارہے ہیں ۔کہتے ہیں کہ عمل کی بنیاد پر ہی انسانی زندگی کندن بنتی ہے۔ بد اعمالی سے تباہی و بربادی ا±س کا مقدر بن جاتی ہے۔ظاہری چمک دمک اور عیش ونشاط کی محافل میں ا±لجھا انسان اپنی اصلی حیثیت بھول جاتاہے۔ وہ اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرتاہے۔اپنے ماحول اور معاشرے کا حق مارتاہے۔ وہ خود کو دوسروں سے بالا تر رتبے کا خواہاں ہوجاتاہے۔ اپنے نفس کی تسکین کے لیے وہ بدعنوانی کا راستہ اختیار کرتاہے۔زندگی کے حقیقی عنوان سے بھٹکنے والے بدعنوانی کا شکار ہوتے ہیں۔ کرپشن کا یہ راستہ کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتا۔ وسعتِ کائنات کی طرح یہ بھی دائرہ در دائرہ اپنا جال بچھاتے ہیں۔ بدعنوانی ایک جال ہے جس میں لالچ ، طمع ،حرص، جھوٹ،مکاری ، فریب اور خود نمائی کے خوش نما نگینے جَڑے ہیں۔کم فہمی اور خود فریبی کے شکار لوگ ،ان جھوٹے نِگوںکی چمک سے اپنی حقیقت فراموش کر جاتے ہیں۔ا±ن کی آنکھیں چندھیاجاتی ہیں۔ا±نھیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔عصرِ حاضر میں جموں وکشمیر کی ترقی بدعنوانی کی وجہ سے متاثر ہورہی ہے۔بدعنوان عناصر جموں وکشمیر کی تعلیم ، صحت اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں حائل ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف اجتماعی جنگ لڑی جائے۔ آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
اِس کرپشن نے ہمارے خطے کواس انداز سے نقصان پہنچایا ہے جس طرح دیمک مضبوط ترین لکڑی کو بھی کھا جاتی ہے۔عالیشان شیش محل ، قیمتی ترین گاڑیاں ، شادی بیاہ کی تقریبات میں شہ خرچیاں کس طرح ممکن ہوسکتی ہیں۔ اِن کے پس منظر میں کرپشن کے حاصل کردہ مال کارفرما ہے۔ چہرے پہ چہرہ چڑھا ہے ، کرپشن کا مال تلاش کرنے کے لیے کوئی آلہ ٰ نظر نہیں آتا۔ کالا دھندہ کرنے والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ یہی وجہ ہے غربت پھن پھیلائے کھڑی ہے۔کلاس فورتھ ملازمین ،جن کی تنخواہ ماہانہ 20سے30ہزار نہیں ،وہ اربوں روپے جائیدادوں کے مالکان ہیں ۔انہوں نے نہ صرف جائیدادیں اپنے نام پر رکھیں ہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں کے نام پر بھی رکھی ہے ۔ہمارے انجینئر وں ،بیو روکریٹوں ،سیاستدانوں نے پل اور سڑکیں کم ۔۔اپنے لئے عیش وعشرت کا سامان زیادہ پیدا کیا ۔اگر صحیح احتساب بغیر کسی انتقام گیری کے ہوجائے ،تو سب کچھ آئینہ کی طرح صاف ہوجائیگا ۔جوابدہی اور شفافیت کے عنصر پر جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img