جموں کشمیر ملک کا ایک ایسا خطہ ہے ،جو اس اعتبارسے انتہائی اہم اور حساس ہے کہ اس کی سرحدیں ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین جیسے ترقی یافتہ ملک سے ملتی ہیں۔تقسیم ملک کے ساتھ ہی اس خطے میں جنگیں ہوئیں اور یہاں کی تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی ان جنگوں کی نذر ہوئی۔یہ خطہ ملک کے دیگر حصوں کے برعکس ہمیشہ تعمیر و ترقی میں کمزور رہا ہے ، لوگ ہمیشہ سیاستدانوںکے غلط نعروں میں پھنسے رہیں، اس طرح لوگوں کے مسائل و مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی رہیں۔جموں کشمیر جو 1947سے ہی سازشوں کا شکار ہو ا ہے اور سیاستدان صرف اپنے زاتی مفادات کو پروان چڑھاتے گئے اور لوگ روزبروز کمزور ہوتے رہیں۔
گذشتہ تین دہائیوں کے دوران جموں کشمیر خاصکر وادی میں جس طرح کے حالات رہے اُن میں نہ صرف مال و جان کا بہت زیادہ نقصان ہوا بلکہ جو کچھ یہاں کے لوگوں کے پاس تھا وہ سب کچھ چھن گیا،عزت و آبروکمایا تھا وہ بھی شک و شُبہات کے نذرہوئے۔دس سالوں کے طویل وقفے کے بعد جموں کشمیر میں اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور لوگوں نے یہ سوچ کر نیشنل کانفرنس کو اپنا منڈیٹ دیا کہ اُن کے زخموں پر مرہم ہوگا اور لوگوں کے مسائل و مشکلات حل ہونگے۔ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اس سرکار کےخلاف اپوزیشن جماعتوں نے مورچہ کھول دیا،پیپلز کانفرنس،ائے آئی پی،پی ڈی پی اور کانگریس جیسی ساتھی تنظیم کے ممبران نے یہ کہکر عمر عبداللہ سرکار پر حملہ کرنے شروع کئے ہیں کہ انہوں نے حالیہ اسمبلی اجلاس کے دوران پاس کی گئی قرار داد میں ختم کئے گئے دفعات 370اور 35A کی بات نہیں کی ہے۔ان سیاستدانوں کو بخوبی معلوم ہے کہ ان دفعات کو ملک کی پارلیمنٹ نے کثرت رائے سے ختم کیا ہے اور پارلیمنٹ کے اس فیصلے پر ملک کی سپریم کورٹ نے بھی مہر ثبت کی ہے۔پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو پارلیمنٹ میںہی ختم کیا جاسکتا ہے جو ہرگز ممکن نہیں ہے کیونکہ مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی کا ابتدا سے یہ نعرہ رہا ہے کہ ملک میں ایک نشان ایک پردھان ایک ودھان ہونا چاہئے جبکہ ملک میں جموں کشمیر ہی ایک ایسی ریاست تھی جہاں اپنا آئین اپنا نشان اور اپنا الگ وزیر اعظم ہوا کرتا تھا۔یہاں کے سیاستدانوں نے ہمیشہ سے ہی اپنے زاتی مفادات کی تکمیل کے لئے اس ریاست کا حلیہ تبدیل کروایا اور آج تک ختم کئے گئے کسی بھی حق کو وہ واپس حاصل نہیں کر سکے۔
گذشتہ تین دہائیوں کے حالات گواہ ہیں کہ سیاستدانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہی جموں وکشمیر کے لوگوں نے بہت کچھ کھویا ہے لیکن پایا کچھ بھی نہیں۔ان غلطیوں سے ہمارے نو منتخب سیاستدانوں کو سبق سیکھنا چاہئے اور ماضی کی غلطیاں پھر سے نہیں دہرانی چاہئے بلکہ ممکنات کو ہی ترجیح دینی چاہئے اور غلط نعروں سے عام لوگوں کوگمراہنہیں کر نا چاہئے ۔ان سیاستدانوں کو اپنا سیاسی کیرئرایک طرف چھوڑ کر عوام کے درپیش مسائل حل کرنے کے لئے یک جُٹ ہو کر کام کرنا چاہئے۔یہاں بڑھتی ہوئی بےروزگاری کا خاتمہ ،،برسوں سے مختلف محکموں میں بطور ڈیلی ویجر کام کر رہے نوجوانوں کی مستقلی،،لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ،پانی ،بجلی اور بہتر ڈھنگ سے تعلیم فراہم کرنے جیسے معاملات پر کام کرنا چاہئے تاکہ یہاں کے لوگ بھی ملک کے دیگر لوگوںکی طرح پُرامن اور خوشحال زندگی گذار سکیں ،جو عمر عبدللہ سرکار کی ترجیحات میں شامل ہیں۔