جمعہ, دسمبر ۶, ۲۰۲۴
1.6 C
Srinagar

’قرارداد سمجھوتہ نہیں ‘

اپوزیشن کی نشستیں خالی :عمر عبداللہ نے شکریہ کی تحریک پر بحث کو سمیٹ لیا

پُر امید ہوںجموں وکشمیر اپنی کھوئی ہوئی خودمختاری کو دوبارہ حاصل کر لے گا:عمر عبداللہ

شوکت ساحل

سرینگر:جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کو کہا کہ قانون ساز اسمبلی سے منظور شدہ اُن کی حکومت کی قرار داد کوئی سمجھوتہ نہیں ہے بلکہ اس قرارداد کی ذریعے مرکز سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہم سے جو بھی چھینا گیا ہے اُسے دوبارہ بحال کیا جائے ۔انہوں نے کہا ’میں پُر امید ہوںجموں وکشمیر اپنی کھوئی ہوئی خودمختاری کو دوبارہ حاصل کر لے گا‘۔قائد ایوان اور جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کولیفٹیننٹ گورنر کے خطبے پر بحث کو سمیٹتے ہوئے قانون ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ ہم سے جو چھیناگیا ہے اسے بحال کرنے میں ایک دن بھی ضائع نہیں کریں گے۔‘عمر عبداللہ نے گزشتہ چھ سالوں میں جموں و کشمیر کو درپیش سیاسی اور آئینی چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان چیلنجوں کے باوجودان کی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کے بہتر مستقبل کو محفوظ بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا، ’گزشتہ چھ سالوں میں ہم نے بہت کچھ کھویا ہے۔ جب میں اس ایوان میں آخری بار تھا، ہم ایک ریاست تھے، ہمارا اپنا آئین تھا، اور اپنا جھنڈا تھا۔ لیکن وہ سب ہم سے چھین لیا گیا۔ یہ میرے ذہن میں رہے گا لیکن ساتھ ہی اس کرسی پر بیٹھ کر ایک دن بھی ضائع نہیں ہونے دوں گا۔ میں اس مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لوگوں کے لیے جو کچھ کھویا ہے اسے بحال کرنے کے لیے انتھک محنت کروں گا۔‘

عمر عبداللہ نے قانون ساز اسمبلی کے مختصر پانچ روزہ اجلا س کوتاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ’ لوگوں نے تبدیلی کے لئے اپنا مینڈیٹ دیا اور اس کے لئے رائے دہند گان کا شکر ادا کر تا ہوں ‘۔انہوں نے کہاکہ 5اگست 2019کے بعد ہم سے سب کچھ چھینا گیا ، جب آخری بار اس اسمبلی میں بات کی تب جموں وکشمیر کو ملک میں ایک خاص مقام تھا۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ’ جموں و کشمیر اسمبلی کا پہلا اجلاس مدت میں مختصر لیکن ایجنڈے کے لحاظ سے تاریخی ہے۔‘انہوں نے کہا”مجھے طویل عرصے کے بعد ایوان میں اس طرح کی بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ مارچ 2014میں بطور وزیر اعلیٰ اور2018میں بطور اپوزیشن لیڈر گورنر کے خطاب پر بات کی لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے اور ہم نے بہت کچھ کھو دیا۔ ‘عمر عبداللہ نے کہاکہ جب اس بارے میں سوچتا ہوں تو یقین کر پانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔خصوصی حیثیت کی بحالی پر اسمبلی میں قرارداد پاس کرنے کے بارے میں وزیر اعلیٰ نے کہا:’اس تاریخی اسمبلی میں خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لئے قرارداد منظور ہونے پر بہت خوشی ہوئی کیونکہ اس اسمبلی نے لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔‘

عمر عبداللہ نے کہاکہ ہم اسمبلی میں ایسی قرارداد نہیں لانا چاہتے تھے جس کو مرکزی سرکار ردی کی ٹوکری میں پھینکیں۔ ہم ایسی قرارداد پاس کرانا چاہتے تھے جس سے لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہو جائے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ پانچ اگست کے فیصلے میں ہماری رائے نہیں لی گئی ، جموں وکشمیر کے لوگوں کی منظوری اس میں شامل نہیں تھی اور ہم چاہتے ہیں کہ جموں وکشمیر کو جلداز جلد رخصوصی درجہ واپس مل جائے۔انہوں نے مزید بتایا کہ آج وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور مرکزی وزراءنے اسمبلی میں پاس کی گئی قرارداد پر بات کرکے نیشنل کانفرنس کو ہدفہ تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی جانب سے اس پر بیانات دینا یہ ثابت کررہا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی قرارداد میں دم ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگر یہ کمزور قرارداد ہوتی تو اس کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا اس میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس پر وزیر اعظم کی جانب سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا یہ ثابت کررہا ہے کہ قرارداد واقعی میں ایک تاریخی سنگ میل ہے اور اس سے دروازے کھل جائیں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے جان بوجھ کر خصوصی درجے کی بحالی پر ایوان میں بات کی ، موجودہ مرکزی سرکار سے ہماری کوئی امید نہیں تاہم کھبی نہ کھبی تو نظام بدلے گا۔حالات کو پر امن بنائے رکھنے پر بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہاکہ اگر امن نہیں تو دوسری چیزوں پر بھی کام نہیں ہوسکتا لہذا امن و امان کے قیام کی خاطر کام کرتے رہیں گے۔مکمل ریاست کی بحالی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ ہم اس پر اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ وہ اسمبلی نہیں جو ہم چاہتے ہیں ، ہم ایک مکمل اسمبلی چاہتے ہیں جس کا وزیر اعظم نے ہم سے وعدہ کیا ہے۔

ان کا کہناتھا ’یہ حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ یہ حکومت سب کے لیے ہے۔‘ عبداللہ نے کہا ’بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ انتخابات کبھی نہیں ہوں گے۔ انہوںنے دعویٰ کیا کہ وہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن خدا کی مرضی سے انتخابات ہوئے اور حکومت بن گئی۔‘اپوزیشن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے عمرعبداللہ نے اسمبلی کی کارروائی کے دوران ان کے اقدامات پر مایوسی کا اظہار کیا۔’ہم چاہتے تھے کہ ہر رکن یہاں رہے اور بامعنی بات چیت میں مشغول رہے، خاص طور پر ریاست کی بحالی اور آئینی ضمانتوں جیسے مسائل پر بات کرے۔ لیکن اپوزیشن نے اسے ایک ڈرامہ میں بدل دیا، اجلاس کو درمیان میں ہی چھوڑ دیا۔‘

یاد رہے کہ پانچویں دن اسمبلی اجلاس کی کارروائی شروع ہوتے ہی اپوزیشن جماعت بھاجپا کے ارکان نے خصوصی پوزیشن سے متعلق منظور شدہ قرار داد پر اپنا احتجاج جاری رکھا ،جس دوران ہنگامہ بھی پیدا ہوا اور بعض ارکان کو مارشل بدر کیا گیا جبکہ ارکان نے بعد ازاں احتجاجاً واک آﺅٹ اور دن بھر کی کارروائی کے دوران اپوزیشن کی نشستیں خالی رہیں ۔جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے معاملے پر عمر عبداللہ نے اس خیال اور نظریہ کو مسترد کیاکہ این سی کی خصوصی حیثیت سے متعلق قرارداد ایک سمجھوتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو قرارداد پیش کی ہے وہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہے یہ ہم سے جو لیا گیا ہے اسے بحال کرنے کی ایک جائز کوشش ہے۔‘

انہوں نے خطے کے مطالبات کے بارے میں مرکزی حکومت کے مسترد کرنے والے رویے پر بھی تنقید کی۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ، اگرچہ وہ (عمر عبداللہ )فوری تبدیلی کی توقع نہیں کر سکتے ہیں، لیکن وہ(عمر عبداللہ) پر امید ہیں کہ ایک دن یہ خطہ اپنی کھوئی ہوئی خودمختاری کو دوبارہ حاصل کر لے گا۔عمر عبداللہ نے آزادی اظہار کی بحالی پر روشنی ڈالی اور طلباءکے امتحانی عمل میں اصلاحات اور بھرتی کے مواقع سمیت عوام کی طرف سے اٹھائے گئے کچھ خدشات کو دور کرنے کے لیے اپنی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا ’ ہمارا ایجنڈا وٹس ایپ یا فیس بک نہیں بلکہ کشمیری عوام طے کریں گے۔‘

یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ان کی حکومت کا سیکورٹی کے معاملات پر کنٹرول نہیں ہے،عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر میں امن کے لیے اپنے عزم کو دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ’امن ہر چیز کے لیے ضروری ہے، اور ہم تعاون کے ذریعے امن چاہتے ہیں، نہ کہ دباو¿کے ذریعے ‘۔ انہوں نے سیکیورٹی فورسز کو پورے خطے میں امن کی بحالی میں حکومت اپنا تعاون فراہم کرے گی۔دیگر مقامی مسائل پر عمر عبداللہ نے ہائی ویز پر لوگوں کو درپیش مشکلات اور سی آئی ڈی کی تصدیق کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا،’حکومت کو ان لوگوں کو دیکھنا چاہیے جن کے خلاف سنگین الزامات نہیں ہیں اور ان کے مقدمات کا جائزہ لینا چاہیے۔‘

اپنی تقریر کے اختتام پر عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا ’ہم چاہتے ہیں کہ جموں اور کشمیر کو بطور ریاست اس کی صحیح پوزیشن پر بحال کیا جائے، جیسا کہ مرکز اور وزیر اعظم نے وعدہ کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ جلد ہو جائے گا۔‘۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہم سرمایہ کاری او انڈسٹریز کاخیرمقدم کرتے ہیں لیکن جموں و کشمیر کے اثاثوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ان کا کہناتھا ’ہمارے انتخابی وعدے برقرار ہیں، اور ہم انہیں پورا کرنے کے لیے کام کریں گے۔لیفٹیننٹ گورنر کا خطاب ایک مختصر روڈ میپ ہو سکتا ہے، لیکن ہم اپنے طویل مدتی اہداف کے لیے کام جاری رکھیں گے۔‘

Popular Categories

spot_imgspot_img